پیپلز پارٹی کے پندرہ سالہ دور حکومت کے دوران سندھ کے حوالے سے تین اہم فرنٹ مین کردار آج بھی سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہیں خاص طور پر اب جب کہ پورے صوبہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور مختلف علاقوں میں پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو متاثرین سیلاب کی جانب سے سخت ناراضگی اور غصے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تباہی یقینی طور پر بہت بڑے پیمانے پر آئی ہے اتنا پانی صدیوں بعد آتا ہے لیکن یہ پانی آ چکا ہے اور تباہی مچا رہا ہے صوبہ سندھ بری طرح سیلاب کی لپیٹ میں ہے صوبائی و وفاقی حکومت اور اقوام متحدہ تک سیلاب کی تباہ کاریوں کو دستیاب وسائل کے مقابلے میں کئی گنا بڑا قرار دے چکی ہے
پوری دنیا سے مدد کی اپیل کی گئی ہے امداد آنے کا سلسلہ جاری ہے وزیراعظم شہباز شریف سے لے کر اب پارٹی کے چیئرمین وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری دن رات سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے سرگرم عمل نظر آ رہے ہیں تباہی اور چیلنج سال 2010 کے سیلاب سے کئی گنا بڑا ہے تمام تر سرکاری وسائل کے باوجود متاثرین تک گھر گھر امداد پہنچانا اور ڈوب جانے والے گاؤں دیہاتوں کے خشکی پر بیٹھے اور کیمپوں میں آنے والے متاثرین تک امداد پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے لیکن شکایت بجا ہیں اور شکایات کا حجم بھی زیادہ ہے آرمی چیف جنرل باجوہ نے بھی واضح کیا کہ دریائی سیلاب سے نمٹنے کی پوری تیاری تھی لیکن سیلاب صرف دریا کے ذریعے نہیں آیا بلکہ شدید بارشوں کا آنے والا پانی تباہی مچارہا ہے ۔سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اپنی پوری کابینہ اور پارٹی رہنماؤں کے ساتھ متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں ۔
دوسری طرف مخالفین کی جانب سے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت پر سخت تنقید کا سلسلہ جاری ہے سیلاب کی تباہ کاریوں کو پیپلز پارٹی کی 15 سالہ حکومت کی نااہلی قرار دیا جا رہا ہے مخالفین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی نااہلی کی وجہ سے سیلاب متاثرین کو بچایا نہیں جا سکا اور ان کی وہ مدد نہیں کی جاسکی جو آسانی سے کی جا سکتی تھی ۔ مخالف سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے باعث لوگوں نے خود اپنی زمینی اور املاک کو بچانے کے لئے کٹ لگائے اور غریبوں کی بستیوں کو ڈبو دیا جبکہ پیپلز پارٹی کی قیادت اور صوبائی حکومت اس کی نفی کرتی ہے ہر دلیل دی جاتی ہے کہ وزیر اعلی کی زمینیں اور گاؤں ڈوب گیا ۔
اس ساری بحث میں پیپلزپارٹی کے پندرہ سالہ دور حکومت کے اہم فرنٹ مین کے کرداروں پر بحث شروع ہو گئی ہے لوگوں کو پھر یاد آ گیا ہے کے پارٹی قیادت کے قریبی لوگوں نے عوامی مفاد کی بجائے ذاتی مفادات کو اہمیت دی اور اپنے خزانے اور جیبیں بھریں ۔
اس بحث میں سب سے زیادہ ذکر انور مجید ڈاکٹر عاصم اور اویس مظفر ٹپی کا آ رہا ہے اومنی گروپ شروع دن سے پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ مختلف تنازعات اسکینڈلز کی وجہ سے جڑا رہا ہے جب کہ ڈاکٹرعاصم پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات لگے ان پر دہشت گردوں کی مدد کرنے اور آپ نے اسپتال میں دہشت گردوں کا علاج کرنے کا الزام لگا جبکہ اویس مظفرٹپی پر پارٹی کو تقسیم کرنے اور آصف زرداری کو نقصان پہنچانے کی شکایات سامنے آئیں بڑے گھر کے اندر جھگڑا ہوا اور اویس مظفرٹپی کو ملک سے باہر بھیج دیا گیا ۔ آج تک عوام کو یہ نہیں بتایا گیا کہ اگر اویس مظفر ٹپی صوبے کی ترقی اور عوام کی بھلائی کے لیے صوبائی وزیر بن کر کام کر رہے تھے تو انہیں کیوں اور کس جرم پر ہٹایا گیا اور ملک سے باہر لے جایا گیا کیا عوام کی خدمت کرنا ان کا جرم تھا یا وہ نوٹ کما رہے تھے اور رجسٹروں میں رکھے جانے والے حساب کتاب میں بڑے پیمانے پر گڑبڑ پائی گئی تھی آخر انہوں نے ایسا کیا کیا تھا کہ ان کو پارٹی اور حکومت سے دور کردیا گیا ؟
ڈاکٹر عاصم پر ایک مرتبہ پھر ان دنوں غیرقانونی پانی کنکشن لینے کی وجہ سے عوامی غم و غصے کا مظاہرہ ہو رہا ہے ان کے اسپتال کی جانب جانے والی لائن عوام نے اکھاڑ دی مقامی انتظامیہ نے صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن مختلف سیاسی جماعتیں جن میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم بھی شامل ہے وہ احتجاج میں شامل ہوئیں اور علاقے میں ڈاکٹر عاصم کے خلاف غصہ اور نفرت اور اشتعال پایا جاتا ہے حالاں کہ ڈاکٹر عاصم وہاں مریضوں کا علاج کرتے ہیں پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان کے خلاف یہ غصہ اور نفرت کیوں بڑھ رہی ہے کہ جس طرح احتجاج کرنے والوں کو پولیس کے ذریعے مارا پیٹا گیا اور ہراساں کیا گیا اس کی آخر کیا ضرورت تھی ایسے کاموں سے نفرت بڑھے گی یا کم ہوگی پیپلزپارٹی کی عوام میں مقبولیت بڑھے گی یا کم ہوگی ۔ پارٹی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ ان لوگوں کی وجہ سے پارٹی کو نقصان ہو رہا ہے پہلے آصف زرداری کے خلاف باتیں ہوتی تھیں اب چیئرمین کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں اور ذمہ دار و ہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے پہلے آصف زرداری بد نام ہوئے اب بلاول بھٹو ہو رہے ہیں ۔
لوگ پوچھتے ہیں پیپلزپارٹی اتنا کریں قیاتی کام کرتی ہے پھر اس کو گالیاں کیوں پڑتی ہیں کراچی میں طویل عرصے بعد پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم بحال کرنے کا سہرا پیپلزپارٹی کے سر سجا ہے اس کے باوجود ڈاکٹر عاصم اویس مظفرٹپی جیسے لوگوں کی وجہ سے پارٹی بدنامی کا شکار ہے اور آج تک مختلف اسکینڈلز میں پھنسی ہوئی ہے کراچی میں پیپلز پارٹی کی کریڈیبلٹی بڑا ایشو ہے لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ساری یونیورسٹیوں کا انچارج ڈاکٹر عاصم کیسے بنا رہا جس کی اپنی یونیورسٹیاں ہیں ۔ ایک بلڈنگ میں کتنی ہی یونیورسٹیاں کھول دی ہیں اسی شخص کو سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا سربراہ بنایا گیا یہ مفادات کا کھلا ٹکراؤ اور تصادم تھا اور ایسے فیصلوں کا پیپلز پارٹی کو کوئی سیاسی فائدہ بھی نہیں پہنچا یہ سراسر گھاٹے اور نقصان کا سودا تھا جو پیپلز پارٹی نے کیا اور ڈاکٹر عاصم کی وجہ سے کراچی کے اردو بولنے والوں میں پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہونے کی بجائے مزید کمی ہوئی ہے لوگ ڈاکٹر عاصم جیسے لوگوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی پالیسیوں کے فاصلے پر چلے گئے ۔ پارٹی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ پندرہ سال کی صوبائی حکومت میں تمام تر خدمات کے باوجود فرنٹ مین کرداروں کی وجہ سے بدنامی کیوں ملی ؟
یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا یہ سارے الزامات محض پروپیگنڈہ تھے اگر الزامات کسی عدالت میں ثابت نہیں ہوئے تو پھر اس منفی مہم کے پیچھے کون تھا ؟ یا پارٹی کی اعلی قیادت جانتی ہے کہ اومنی گروپ اور انور مجید کو بد نام کرنے اور اسکینڈلائز کرنے کے پیچھے کون لوگ تھے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ خود پارٹی کے کچھ کردار متحرک ہے باہر والوں سے گلہ شکوہ کیا کریں جب اپنے گھر میں ہیں کچھ لوگ لنکا ڈھانے پر تلے بیٹھے ہو ں ؟ ۔۔۔(جاری ہے)
=====================================