سید علی شاہ گیلانی قوم پرست کشمیری رہنماء ۔

تحریک حریت کشمیر کے سرخیل سید علی گیلانی کو رخصت ہوئے آج یکم ستمبر کو ایک سال مکمل ہو چکا لیکن تحریک آزادی اور کشمیر کی واحدت کے حوالے سے سخت موقف کی صورت میں ان کا ورثہ کشمیریوں کے پاس موجود رہے گا اور یہی ورثہ منجدھار میں پھنسی کشمیر قوم کو ساحل تک پہنچنے میں رہنمائی کرتا رہے گا۔ بلا شبہ علی گیلانی کا یہ موقف تحریک کے حوالے سے متضاد سیاسی نظریات رکھنے والے لوگوں کو

بھی اس بات پر متفق اور متحد کرتا ہے کہ کشمیر ایک واحدت ہے ،اور حق خودارادیت کشمیریوں کا بنیادی حق ہے ۔ کشمیر بھارت بنے پاکستان یا خود مختار لیکن اس کا فیصلہ رائے شماری سے ہی ہونا چاہیے جسے اقوام متحدہ نے تسلیم کیا ہوا ہے۔ کشمیر بین الاقوامی تسلیم شدہ مسلہ ہے اور کشمیری اس کے فریق اول ہیں اس پر کسی صورت سودے بازی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی کوئی دوسرا موقف تسلیم یا اپنایا جا سکتا ہے چاہئے وہ پاکستان کا ہو بھارت کا یا کسی تیسرے فریق کا۔ یاسین ملک، میر واعظ عمر فاروق، شبیر شاہ، آسیہ اندرابی اور دیگر حریت پسند قائدین و کارکنان اسی موقف کے باعث ان کے قریب اور ان کی چھتری کے سایہ میں جمع ہوئے تھت۔ گیلانی چاہتے تھے کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے، لیکن طویل سیاسی مسافت میں بھی انہوں نے پاکستانی حکمرانوں کی کسی ایسے مطالبے کو نہیں مانا جو ان کے موقف سے ٹکراتا ہو، انہوں نے پاکستان کی تبدیل ہوتی پالیسی کی بھی مخالفت کی اور اپنے مؤقف پر زمانے کی تلوار کے تیز دہارے کو حاوی نہ ہونے دیا جموں و کشمیر کے نوجوان کے لیے علی گیلانی کا یہ اقدام قابل قدر ورثہ ہے اسی بناد پر کشمیری نوجوان یہ نعرہ لگاتے رہے کہ نہ جھکنے والا نہ رکنے والا کون کرے گا ترجمانی علی گیلانی۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ مشرف فارمولے کے تحت نئی دلی اور اسلام آباد کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے حریت کے دیگر قائدین نے پاکستان کے کہنے پر لچک دیکھائی لیکن گیلانی کے اعتراض اور اپنے سچے موقف میں لچک پیدا نہ کرنے کے باعث مذاکرات کسی بھی سمجھوتہ کو منتقی نہ بنا سکے۔ اُن دنوں مشرف افغانستان کی جنگ میں امریکہ کا حلیف بننے کے بعد بھارتی سرحد سے بے فکر ہونا چاہتا تھا اور مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے در پہ تھا اس نے اس کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کر کئی فارمولے دئے۔اس وقت کے وزیرخارجہ خورشید قصوری کا کہنا ہے کہ چار نکاتی فارمولہ پر بھارت اور پاکستان اتفاق رائے کے نہایت قریب آچکے تھے۔ لیکن وہ فارمولا علی گیلانی کے موقف سے ٹکراتا تھا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بغیر حل نہیں ہو سکتا ایسا کرنے سے کشمیری اور پاکستان بین الاقوامی تسلیم شدہ مقدمہ ہار جائیں گے ۔ اصل بات یہ تھی کہ علی گیلانی کے موقف کو کشمیر کے ہر حصے میں پذیرائی ملی کیوں کہ کشمیری جان تو دے سکتے


ہیں لیکن ریاست کے ٹکڑے نہیں کر سکتے ‘پاکستانی پالیسی کو مسترد کرنے سے کشمیری عوام میں گیلانی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور لوگوں کا اعتماد بحال ہوا جس سے اُن کا موقف مزید مضبوط ہوگیا اور وہ نوجوانوں کے لیڈر بن گئے۔ تحریک کشمیر میں یہ پہلا موقع تھا کہ احتجاجی مظاہروں میں نوجوان اُن کی تصویر ایک انقلابی رہنما کے طور بلند کرنے لگے۔ علی گیلانی اس سطح تک پہنچنے کے لیے کئی مراحل سے گزرے۔ ،1972، 1977 اور1987 میں اسمبلی ممبر منتخب ہوئے اور کشمیر کی مین اسٹریم پارٹیوں اور بھارت کے سامنے پارلیمانی فورم پر مسئلہ کشمیر کے حل کی وکالت کرتے رہے، تاہم 87 رُکنی ایوان میں علی گیلانی کی آواز نقار خانے میں توطی کی آواز کے ماند تھی انہیں نے پارلیمانی جہدوجہد کو ترک کر کے عوامی جدوجہد شروع کی ۔1987 میں گیلانی نے مقدمہ کشمیر کو عوامی عدالت میں لے گئے اور کئی پاکستان نواز تنظیموں کے اتحاد “مسلم متحدہ محاذ” قائم کر کے انتخاب میں حصہ لیا۔اس وقت یہ ہند نواز فاروق عبداللہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے بڑا اور تاریخی چیلنج تھا انتخابات میں ‘بدترین دھاندلی’ اور کانگریس کی حمایت سے فاروق عبداللہ اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئے اور سید علی گیلانی سمیت محاذ کے بھی کچھ اُمیدواروں نے الیکشن جیتا کچھ عرصہ بعد جب کشمیر میں مسلح تحریک شروع ہوئی تو اسی دوران محاذ کے ایک رُکن اسمبلی عبدالرزاق بچرو کو پُراسرار حالات میں شہید کیا گیا تو گیلانی سمیت چاروں ارکان، اسمبلی کی رُکنیت سے مستعفی ہو گئے۔ پیپلز کانفرنس کے رہنما عبدالغنی لون نے بھی استعفیٰ دے کر تحریکِ آزادی کی شورش کی حمایت کا اعلان کر دیا لیکن صرف دو سال کے اندر اندر کشمیر میں گورنر راج نافذ ہوا اور فاروق عبداللہ کشمیر چھوڑ گئے۔ کشمیر کی تاریخ میں گیلانی پہلے مقبول عام لیڈر تھے جنہوں نے مسلح تحریک کی کھل کر حمایت کی اور اسے کشمیریوں کی طرف سے ’تنگ آمد بہ جنگ آمد‘ کے مصداق ایک ردعمل قرار دیا۔ انھوں نے کشمیر کو پاکستان کا قدرتی حصہ قرار دے کر مسئلہ کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا اور مقبول عام نعرہ کشمیر بنے کا پاکستان کے بجائے ” ہم ہیں پاکستانی پاکستان ہمارا ہے” کی صدا بلند کی تو سری نگر سمیت جموں و کشمیر اس نعرے سے گونجنے لگا۔ نئی دلی نے مذاکرات کا جال بچھایا تو حریت کے ایک دھڑے نے مذاکرات شروع کئے۔ اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ کی حکومتوں نے حریت قیادت کے ساتھ مذاکرات کے کئی ادوار کیے لیکن ہر بار گیلانی ان مذاکرات کو ’فضول مشق‘ اور ’وقت گزاری‘ سے تعبیر کرتے رہے اور کہا کہ پہلے بھارت اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کو تسلیم کرے۔ بھارتی قیادت نے اس شرط کو تسلیم نہ کیا جس کی وجہ سے ان مذاکرات کو عوامی حمایت حاصل نہ ہوسکی۔ نئی دلی والے اُن سے رابطہ کر کے مؤقف میں لچک پیدا کرنے کا کہتے رہے تاہم وہ ڈٹے رہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہونا ہے البتہ انہوں نے اتنی سہولت دی کہ اگر اس میں دلی کو مسلہ ہے تو پاکستان، انڈیا اور کشمیری قیادت کے درمیان بیک وقف سہ فریقی بات چیت بھی ایک متبادل ہے۔اس وقت دلی کے حلقوں نے گیلانی کے سخت موقف کو پاکستانی کارستانی بتایا۔ لیکن جب مشرف نے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ماورا مسئلہ کشمیر کے حل کا چار نکاتی فارمولہ دیا تو سید علی گیلانی نے اس کی بھی ڈٹ کر مخالفت کی۔ واقف کار بتاتے ہیں کہ نئی دلی میں پاکستانی سفارت خانے میں مشرف اور سید علی گیلانی کے درمیان 2005 میں ہونے والی ملاقات میں انہوں نے پرویز مشرف سے دو ٹوک انداز میں کہا کہ کشمیریوں کو اعتماد میں لیے بغیر اُن کے سیاسی مستقبل کا یک طرفہ فیصلہ لینے کا آپ کو کوئی حق نہیں تو مشرف بزرگ کشمیری رہنماء کا منہ دیکھتے رہ گیا کہ کیا پاکستان کے صدر اور آرمی چیف کو کشمیریوں کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں ۔ گیلانی کی رخصت کے بعد مشرف نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ باباجی کو بات سمجھ نہیں آتی، انھیں کیا پتہ ٹیکٹیکل ریٹریٹ کسے کہتے ہیں۔ لیکن علی گیلانی کے اس ورثہ پر کشمیری آج بھی کھڑے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کو کشمیریوں کی مرضی کے بغیر ان کے سیاسی مستقبل کے فیصلے کا کوئی حق نہیں چاہئے جتنے بھی دو طرفہ معائدے ہوں یا مذاکرات۔ آزاد کشمیر کے عوام گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کا صوبہ بنانے کی اسی سبب مخالفت کرتے ہیں انہوں خطرہ ہے کہ کسی بھی اقدام سے کشمیر کی تقسیم کی رہ ہموار نہ ہو جائے علی گیلانی نے ساری زندگی جس کی پہرے داری کی اس کی پہرے داری اب ساری کشمیری قوم کی ذمہ داری ہے۔۔علی گیلانی جیسے باکردار لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ بے شک ان سے بھی بشری غلطیاں ہوئی ہیں لیکن انہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔ آج جب کشمیری قوم اپنے اس رہنماء کی پہلی برسی منا رہی ہے تو ان کے اصولوں پر بھی کاربند ہے ۔
===================================