معاشی استحکام کے لیے آصف زرداری کا سرپرائز پلان تیار ۔ 100 ارب سے بڑے ادارے اسٹیٹ لائف سے معاشی اہداف کے حصول کا نیا سفر شروع کرنے پر غور ۔

میاں شہباز شریف کی اتحادی حکومت کو پہلے دن سے جن معاشی مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے ان سے باہر نکلنے کے لئے صرف روایتی طور طریقے اختیار کرنا کافی نظر نہیں آتا ، غیر معمولی صورتحال میں غیر معمولی فیصلے کرنے پڑتے ہیں معاشی مشکلات پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ کچھ غیر روایتی اقدامات سوچنا ہوں گے جن کے ذریعے غیر ملکی قرضوں پر انحصار کم کیا جا سکے اور آگے چل کر مشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد بھی حاصل کی جا سکے ۔ایسے کون کون سے اقدامات ہو سکتے ہیں اس پر اتحادی حکومت کے کرتا دھرتا سر پکڑے بیٹھے ہیں


صلاح مشورے جاری ہیں اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے عوام کی قوت برداشت جواب دیتی جا رہی ہے حکومت کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف اور دوست ملکوں سے ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں ڈالر آئینگے جس کے بعد اگلا ہدف مہنگائی کو کم کرنا ہے لیکن جتنا وقت حکمرانوں کو درکار ہے اتنا صبر اب عوام کے لیے مشکل نظر آ رہا ہے پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں بے پناہ اضافہ نے پہلے ہی ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا کر رکھا ہے اوپر سے تباہ کن بارشوں اور سیلابی صورتحال نے ملک کے بڑے حصے میں غریب عوام کی جمع پونجی سیلابی ریلوں کی نذر کر دی ہے جانی نقصان بھی بڑھتا جا رہا ہے مال مویشی مکانات و تعمیرات فصلوں کا وسیع پیمانے پر جو نقصان ہوا ہے اس کا تخمینہ فوری طور پر لگانا ممکن نظر نہیں آتا ۔وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان بھی بارش اور سیلابی صورتحال پر بات چیت ہوچکی ہے

امدادی کارروائیوں کو تیز کیا گیا ہے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنے غیر ملکی دورہ ملتوی کر کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے شروع کر دیے ہیں ۔


شہباز شریف کی حکومت تو معاشی مسائل حل کرنے کے لیے مفتاح اسماعیل سے ساری امیدیں لگائے بیٹھی ہے جبکہ لندن میں موجود نواز شریف چاہتے تھے کہ اسحاق ڈار معاملات کو جاکر سنبھالیں ۔ اتحادی حکومت بننے کے بعد توقع تھی کہ پہلے اسحاق ڈار

اور پھر ان کے پیچھے پیچھے نواز شریف جلد وطن لوٹ آئیں گے لیکن یہ تو قع پوری نہ ہوسکی اور شہباز حکومت کو پہلا بجٹ اور آئی ایم ایف سے مذاکرات سمیت اہم معاشی فیصلوں کے لئے مفتاح اسماعیل کی ٹیم پر انحصار کرنا پڑا ۔کافی انتظار کے بعد گورنر اسٹیٹ بینک کی تقرری بھی اگست کے مہینے میں عمل میں آ چکی ہے ۔


ادھر شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کا سارا گیم پلان تیار کرنے والے سابق صدر پاکستان اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اتحادی حکومت کو اگلے الیکشن سے قبل معاشی محاذ پر مستحکم کرنے کا عزم کر رکھا ہے انہوں نے لندن میں نواز شریف اور اسلام آباد میں شہباز شریف سمیت اتحادی حکومت میں شامل تمام جماعتوں کے قائدین کو واضح طور پر بتا دیا تھا کہ عمران خان کی رخصتی کے بعد بننے والی حکومت پہلے معاشی استحکام کے لیے کام کرے گی پھر انتخابی اصلاحات لائے گی ضروری قانون سازی کرنے کے بعد ملک میں عام انتخابات کی طرف قدم اٹھایا جائے گا ۔

ویسے تو اتحادی حکومت میں خزانہ کا قلمدان اور ذمہ داریاں پیپلزپارٹی کے پاس نہیں ہیں لیکن وزیر خارجہ تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں اور جتنی بھی سرمایہ کاری اور غیر ملک کی معاشی مدد آنی تھی یا آئے گی اس سلسلے میں وزیر خارجہ کا بھی کردار اہمیت کا حامل ہوتا ہے لہذا پیپلزپارٹی نے دوست ملکوں سے رابطوں میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا اور شہباز شریف خود بھی پورا زور لگا رہے ہیں جبکہ آئی ایم ایف سے لے کر دوست ملکوں تک ہونے والے رابطوں کے لیے خود جنرل باجوہ بھی متحرک ہیں اس لیے کوئی امید ہے کہ معاشی محاذ پر یہ حکومت مشکلات کے باوجود صورتحال کو کنٹرول کر لے گی اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ معاشی استحکام کی طرف مثبت پیش رفت نظر آئے گی ۔

مفتاح اسماعیل تو دعوی کرتے ہیں کہ ڈیفالٹ سے بچا لیا ہے اب استحکام کی جانب قدم اٹھا رہے ہیں ۔

جبکہ اپوزیشن میں عمران خان نے حکومت پر زبردست دباؤ ڈال رکھا ہے اور وزیراعظم شہباز شریف سمیت ان کے اتحادیوں کو

ایک دن بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا بلکہ ہر روز ان کے لئے نئے محاذ اور نئی مشکلات کھڑی کرتے نظر آتے ہیں ۔


سیاسی درجہ حرارت اتنا بلند ہونے کے باوجود یہ حکومت معیشت کی بہتری کے لیے سرگرم عمل ہے اور یہ ایک خوش آئند بات ہے ۔

ویسے شہباز حکومت کے پاس بہتر پرفارم کرنے کے سوا دوسرا کوئی آپشن بھی نہیں ہے اس لئے وہ اپنا پورا زور لگا رہے ہیں ۔

جہاں تک اتحادی حکومت کے قیام کے ماسٹر مائنڈ کا تعلق ہے تو بلاشبہ وہ آصف علی زرداری ہیں جنہوں نے مختلف سوچ اور نظریات کی حامل جماعتوں کو اکٹھا چلنے پر راضی کیا اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک وزیر اعظم کو آئینی طریقے سے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب بنا کر گھر بھیجا گیا ۔

اب آصف علی زرداری معاشی میدان میں بھی اس حکومت کی کامیابی کے لیے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں اور جان بھی اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لئے پرعزم نظر آتے ہیں انہوں نے معیشت کو سنبھالا دینے اور استحکام لانے کے لیے چند ‏out of box سلوشنز سوچ رکھے ہیں اور یوں سمجھ لیں کہ آصف زرداری کا ایک سرپرائز معاشی پلان بھی تیار ہے جس کا ہلکا سا اشارہ وہ 100 ارب سے بڑے ادارے اسٹیٹ لائف کے 26% کسی بڑے مستحکم کاروباری ادارے کو دے کر مارکیٹ سے 8 سے 10 ارب لانے کے حوالے سے اشارہ دے چکے ہیں ایسے ہیں اور کتنے ہی ادارے اور شعبے ان کی نظر میں ہیں اور وہ اپنے پلان سے معاشی مشکلات کم کر سکتے ہیں بظاہر ان کے پلان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ملک بھر میں بجلی کی لائنز کو پرائیویٹائز کر کے قومی خزانے کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے سندھ سے لے کر باقی صوبوں تک پاور سیکٹر میں

بجلی کی لائن پر انویسٹمنٹ لائی جا سکتی ہے اور پرائیویٹ سیکٹر کو پرکشش ترغیبات دے کر پاکستان اپنی معاشی مشکلات پر قابو پانے کا راستہ تلاش کر سکتا ہے ۔

ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے وہ بزنس کمیونٹی کا اعتماد بحال کرنے کا پروگرام لانا چاہتے ہیں تاکہ بزنس کمیونٹی نے جیسے ہزاروں کے خوف سے آزاد ہو کر کھل کر بزنس کرے سرمایہ کاری کرے ملک میں سرمایہ کاری کے نتیجے میں معیشت کا پہیہ چلے اور لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں کسی مقصد کے لیے وہ نئے جیسے اداروں میں سمجھداری پیدا کرنے کی باتیں کر رہے ہیں اور یہ سب ان کے طے شدہ پلان کا حصہ ہے جس پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں پاکستانی معیشت کو استحکام ملے گا ۔

===========================================