بلوچستان میں طوفانی بارشوں کے بعد سیلابی صورت حال ہے ، وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان سیلاب اور بارشوں کی تباہ کن صورتحال کے بعد امداد ی کاموں کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے ۔ وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملک بھر میں بارشوں سے پیدا شدہ صورتحال کی وجہ سے اپنا غیر ملکی دورہ ملتوی کر دیا ، عوامی سطح پر یہ شکایت سامنے آئی ہے کہ میڈیا شہباز گل کے معاملے میں اتنا زیادہ متحرک رہا کہ بارشوں اور سیلابی صورتحال کو نظر انداز کیا ، انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنے والے بارش اور سیلاب متاثرین کے ساتھ جو ہمدردی اور امدادی یہ اور کام ہونے چاہیے تھے ان میں وہ گرم جوشی اور تیزی نظر نہیں آئی جس کی ضرورت ہے سیاسی جماعتیں اور سیاستدان اپنی جھگڑوں میں الجھی ہوئی ہیں۔
حالیہ برسوں کی سیاست پر نظر ڈالیں تو چیئرمین سینیٹ کے الیکشن سے لے کر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی تک بار بار یہ بات ثابت ہوئی کہ پورے ملک میں اس وقت ایک ہی شخص ایسا ہے جو بلوچستان کے سیاسی معاملات کو مرضی کے مطابق کوئی بھی رخ دلا سکتا ہے اور صرف وہی ایک شخص ہے جس پر بلوچستان کے ، باہم متضاد سیاسی نظریات اور اختلافی سوچ رکھنے والے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور سردار ، بات کرنے اور اعتماد کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں اور صرف یہی ایک شخص ہے جس کو بلوچستان کے بڑے سیاسی کرداروں کا دل جیتنا اور انہیں مرضی کے نتائج دلانے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرانے کا آرٹ آتا ہے ۔
راولپنڈی اور اسلام آباد سے بیٹھ کر ہزار میل دور بلوچستان کے فیصلے کرنے کا شوق رکھنے والوں کی خوش قسمتی ہے کہ کم از کم ابھی ایک شخص ایسا ضرور موجود ہے جس پر ، ہاتھ سے پھسلتا ہوا، محسوس ہونے والے بلوچستان کے حساس سیاستدان اور ضد کے پکے سردار ، اعتماد کرنے کے لئے تیار ہیں اور ایک بار نہیں بلکہ بار بار اس کی آواز پر لبیک کہہ چکے ہیں لہذا کوئی عقل کا اندھا ہی کہلائے گا جو اس صورتحال میں اس واحد اور اکلوتے شخص کو گلے سے لگانے کی بجائے اسے لڑائی کی طرف دھکیلے ۔
اور یہ اکیلا سب کا اعتماد حاصل کرنے اور دل جیتنے والا شخص ہے آصف علی زرداری ۔
جو شخص پاکستان کا صدر رہ چکا ہو اسے یقینی طور پر ملکی اور بین الاقوامی سطح کے چیلنجوں اور قومی ذمہ داریوں کا بھرپور ادراک ہوگا ۔
اور یہ وہی شخص ہے جسے ایوان صدر سے اپنی ٹیم پوری ہونے سے پہلے نکالنے کے لیے مخالف قوتوں نے لاکھ جتن کیے لیکن ناکام رہے ۔
یہ وہی شخص ہے جس نے گھیرا تنگ کیے جانے پر ہوشیار ہوشیار ہوشیار کے الفاظ میں للکارا تھا ۔
آج یہی شخص ہے جو ملک کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کو اپنی پارٹی کے مضبوط کندھوں پر اٹھائے ہوئے ۔
اور وہ واضح الفاظ میں کہہ چکا ہے کہ اب ایک ہی ایجنڈا ہے ۔۔۔۔تعمیر پاکستان ۔۔۔۔لہذا وہ ملکی معیشت کو سنبھالنے ، مستحکم بنانے کے لئے دن رات کوشاں ہیں اور اعلان کر چکا ہے کہ
جب ‘ انہوں نے ‘ اے پولیٹیکل ہونے کا کہہ دیا تو پھر مجھے باجوہ کو سلیوٹ کرنا چاہیے یا لڑائی کرنی چاہیے ؟
یہ شخص اپنے ارادوں اور سوچ میں بڑا کلیئر ہے وہ ملک کو معاشی بحرانوں سے باہر نکال کر انتخابی اتحاد کرنے کے بعد الیکشن کی طرف لے جانا چاہتا ہے اور موجودہ حالات میں یہ ایک درست اور دانشمندانہ فیصلہ ہے ۔
دوسری طرف وہ کردار ہیں جو انتشار پھیلا کر ملکی معیشت کو مزید کمزور اور ملک کو خطرناک حالات سے دوچار کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔
عوام کے لئے فرق کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ کون آگے بڑھانا چاہتا ہے اور کون پیروں میں زنجیر باندھ کر آگے بڑھنے سے روکنا چاہتا ہے ۔
ایک مرتبہ آئی ایم ایف اور دوست ملکوں سے معاشی حالات کو سنبھالا دینے کی مطلوبہ آکسیجن مل گئی تو پھر آگے چل کر اس ملک کو خود انحصاری کے میدان میں سر نیچا نہیں بلکہ سر اٹھا کر اقوام عالم کے سامنے لا کھڑا کرنے کا پلان تیار ہے اور اس ترقی اور خوشحالی کے نئے سفر کا نام اس مرتبہ بلوچستان پلان ہے ۔
جی ہاں وہی بلوچستان پلان جسے چین نے سی پیک کا نام دے رکھا ہے اور وہ گوادر سے چین تک سی پیک کے منصوبوں کو آگے بڑھا رہا ہے سینٹرل ایشیا اور یورپی ملک بھی اس منصوبے پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں ۔
آصف زرداری بلوچستان کے مقامی لوگوں کے ہاتھوں سے بلوچستان کو سرسبز بنا کر چین کی ایک ٹریلین ڈالر سے بڑی فوڈ ان پورٹ واسکٹ کا حصہ بنانے کا پلان پیش کر چکے ہیں خاکہ تیار ہے اس میں رنگ بھرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہے پھر ترقی اور خوشحالی کے راستے پر پورا پاکستان گامزن ہوگا ۔
لیکن پہلے راستے میں آنے والے شیطانوں کو قید کرنا ہے شرپسندوں کو سبق سکھانا ہے۔ نادانی کرنے والوں کو سیدھے راستے پہ لانا ہے موجودہ حکومت معیشت کو سنبھالہ دے کر ملک کی گاڑی کو اصل ٹریک پر آگے بڑھانا چاہتی ہے ۔
===================================