ہر ایک گھنٹے میں تین حاملہ خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں، پروفیسر نصرت شاہ

کراچی: ہر ایک گھنٹے میں تین حاملہ خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں، پروفیسر نصرت شاہ
کراچی: حاملہ عورت سے ایک نہیں دو زندگیاں وابستہ ہوتی ہیں، پروفیسر نصرت شاہ
کراچی: حاملہ عورت کی زندگی پر ایک نسل کا انحصار ہے، نصرت شاہ


کراچی: ہر ایک لاکھ پیدائش پر 186 مائیں موت کا شکار ہو جاتی ہیں، ڈاکٹر طارق فرمان
کراچی: حاملہ خواتین کے ریڈیالوجی ٹیسٹ کرائے جا سکتے ہیں، پروفیسر سہیل
کراچی: حفاظتی شیڈ لگا کر حاملہ عورت کا چیسٹ ایکسرے بھی کرایا جا سکتا ہے، صبا سہیل
کراچی: سول اسپتال کراچی میں گائنی کے شعبے کو حاملہ خواتین میں دل کے امراض کا چیلنج درپیش ہے، ڈاکٹر بینش امام
کراچی (): ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی پرو وائس چانسلر پروفیسر نصرت شاہ کمال نےکہا ہے کہ پاکستان میں ہر ایک گھنٹے کے دوران تین حاملہ خواتین کی موت ہوتی ہے ،اس شرح کو کم کرنے میں ڈاکٹرز ہی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انہوں نےڈاکٹرز پر زور دیا کہ حاملہ خواتین کو وی وی آئی پی کا درجہ دے کر ان کامعائنہ و علاج کیا جائے کیونکہ کہ اس عورت کے ساتھ نہ صرف دو زندگیاں وابستہ ہیں بلکہ اگلی نسل کا انحصار بھی اسی ایک ماں پر ہے۔ بعض مقامات پر حاملہ خواتین کو معمول کا کیس سمجھ کر جونیئر ہاؤس آفیسرز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے, اس روایت کو تبدیل کرنا ہوگا حاملہ خواتین کو غیر معمولی سمجھ کرانہیں سینئر ڈاکٹرز کی نظر میں رہنا چاہیئے اور ہر لمحہ بدلتی صورتحال سینئر ڈاکٹر کے علم میں ہونا چاہیئے۔ یہ باتیں انہوں نے ڈاؤ میڈیکل کالج کے آراگ آڈیٹوریم میں “دورانِ حمل خواتین میں امراضِ قلب کی تشخیص میں ریڈیالوجی کی اہمیت” کے


عنوان سے منعقدہ سمپوزیم سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ سمپوزیم کا انعقاد ڈاؤ میڈیکل کالج، پاکستان کارڈیک سوسائٹی، گو ریڈ فار وومن اور نجی فارما کمپنی کے اشتراک سےکیا گیاجس میں ڈاکٹر ظفر سیال چیف ایگزیکٹیو سندھ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر سروسز، پروفیسر نواز لاشاری ہیڈ آف کارڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ سول اسپتال کراچی، پروفیسر نازلی حسین، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ گائنی اینڈ اوبس، سول اسپتال کراچی، پروفیسر خالد ہ سومرو پروفیسر منگی ، پروفیسر سلطانہ حبیب ، ڈاکٹر شہباز سرور ، ماہر ِ امراض ِ قلب ڈاکٹر بینش امام جبکہ ویڈیو لنک پر پروفیسر محمد اسحاق، پروفیسر جنرل سہیل عزیر ،پروفیسر وجاہت لودھی اور بیرون ِ ملک سےفرنچ کارڈیالوجسٹ اسسٹنٹ پروفیسر بلجانہ اور ، ڈاکٹر صوفیا نے بھی خطاب کیا۔پروفیسر نصرت شاہ نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ حاملہ خواتین میں دل کے امراض کی شرح بڑھنا تشویشناک ہے اس لئے یہ موجودہ دور کا ایک اہم موضوع ہے، ہمیں اپنی ماؤں کوبچا کر آنے والی نسلوں کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ انہوں نے سمپوزیم کا انعقاد کرنے پر گائنی اورریڈیالوجی کے علادہ دیگر شعبوں کےڈاکٹرز کی بھی تعریف کی ۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹرڈاؤ انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ، پروفیسر طارق فرمان نے کہا کہ پاکستان میں ہر ایک لاکھ پیدائش پر 186 مائیں دورانِ حمل یا زچگی انتقال کر جاتی ہیں۔ حمل کے دوران خواتین کو پیچیدگیوں سے بچاکر ان کی جان کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے، اس کی بڑی وجہ تویہ ہے کہ دورانِ حمل ان کا بلڈ پریشر قابو سے باہر ہوجاتا ہےجس سے ماں اور بچے دونوں کی جان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے بعض دل کے خاموش امراض ہیں ان کے بارے میں معلوم ہی اس وقت ہوتا ہے جب کوئی خاتون حاملہ ہوتی ہے، کیونکہ اس دوران جو جسمانی تبدیلیاں ہوتی ہیں وہ ان خاموش امراض کی علامات میں شدت لاتی ہیں اور ٹیسٹ کرانے سے ہی امراض ظاہر ہوتے ہیں اور تشخیص کے بعد علاج ممکن ہوپاتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ دوران حمل خواتین کو سینئر ڈاکٹر کو ضرور دکھانا چاہیئے۔ ماہر امراض قلب ڈاکٹر بینش امام نے کہا کہ گائنی اوبس ڈپارٹمنٹ کو حاملہ خواتین میں دل کے بڑھتے امراض کی شرح کا چیلنج درپیش ہے۔ آگہی کے ذریعے ہی اس شرح کو کم کیا جا سکتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ حاملہ خواتین میں سے اکثر بلڈ پریشر اور والو بند ہونے کے مسائل سے دوچار ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ بریسٹ کینسر میں مبتلاخواتین میں سے چھ خواتین دل کے مرض کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔سمپوزیم کا مقصد حاملہ خواتین کو دل کے امراض سے آگہی دینا ہے۔ ڈاؤ میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر صبا سہیل نے کہا کہ عام طور پر حاملہ خواتین نے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ریڈیالوجیکل شعاعیں حاملہ خواتین کے لیے نقصان دہ یا ان کے حمل ضائع ہونے کا سبب ہوتی ہیں، جبکہ یہ تاثر مکمل طور پر درست نہیں دل کے امراض کی تشخیص کے لیے متعدد ٹیسٹ موجود ہیں جن میں سب سے محفوظ ایکو کارڈیوگرافی، ڈوپلر الٹراساؤنڈ، ایم آر آئی اور تمام نیوکلیئر میڈیسن شامل ہیں جب کہ ضرورت پڑنے پر چیسٹ ایکسرے بھی کرایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے حاملہ خاتون کو سینے کے نیچے سے پیٹ کے گرد حفاظتی شیلڈ پہنانی ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مریض کو اعتماد میں لینا بہت ضروری ہے اسے باور کرایا جائے کہ اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ فزیشن کے لئے بھی ضروری ہے کہ دوران حمل خواتین کے غیر ضروری ٹیسٹ نہ کرایا جائیں۔دیگر مقررین نے بھی دل کے امراض کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کرانے اور نہ کرانے کے عوامل پر روشنی ڈالی۔ سمپوزیم کے آخرمیں پروفیسر نواز لاشاری نے تمام مقررین کا شکریہ ادا کیا قبل ازیں پروفیسر نصرت شاہ نے مقررین کو اسناد اور شیلڈز تقسیم کیں۔

============================