عامر اسران کے ساتھ ایسا کیوں ہوا ؟

سرکاری افسران اور ملازمین کے لیے یہ خبر حیران کن تھی کہ ڈپٹی سیکرٹری پلاننگ عامر اسران کو وطن واپسی پر کراچی ائیر پورٹ سے گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ان کے کئی قریبی لوگ بھی اچانک وطن واپسی کے پروگرام سے لاعلم نکلے ۔


نیب ان کے خلاف شکایات کا جائزہ لے رہا تھا حیدرآباد اور کراچی سے بعض ملازمین کی گرفتاری اور پوچھ گچھ کے دوران عامر اسران کا نام نیب کے سامنے آنے کی اطلاع تو سب کے پاس تھی اور یہی تاثر تھا کہ معاملہ الجھا ہوا ہے جب تک گتھی سلجھے

تب تک عامر اسران اور ان کی فیملی کو بھی بیرون ملک ہی رہنا پڑے گا شاید لمبی رخصت بھی لینی پڑے ۔جب معاملہ گرم تھا کہ وہ بیرون ملک چلے گئے تھے ۔


کچھ مہینے اسی کشمکش اور انتظار میں گزرے اور دوستوں کو گڈ نیوز کا انتظار تھا کہ جلد نیب کیس سے عامر کا نام نکل جائے گا اور اس معاملے سے ان کی جان چھوٹ جائے گی ۔ان کے قریبی لوگ اور فیملی ذرائع بھی یہی دعویٰ کرتے رہے کہ عامر کے خلاف شکایات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں جلد معاملہ کلیئر ہو جائے گا ۔محکمہ خزانہ اور محکمہ پی اینڈ ڈی میں عامر کے دوست ان کی بخیریت آفس واپسی کے منتظر تھے سی ایم ہاؤس میں بھی اور سیاسی حلقوں کے دوست بھی پورے اعتماد نظر آرہے تھے کہ عامر کا معاملہ بہت جلد خوش اسلوبی سے حل ہونے والا ہے ۔
لیکن عید سے قبل رمضان المبارک کے دوران اچانک عامر اسران کی کراچی ایئرپورٹ سے گرفتاری کی خبر جب ٹی وی چینل اور پھر سوشل میڈیا پر چلی تو یہ خبر واقعی جنگل کی آگ کی طرح سرکاری حلقوں میں پھیلی ۔حکومت سندھ کے دفاتر میں خبر پر افسران اور ملازمین نے حیرت کا اظہار کیا ۔
عام طور پر لوگوں کا ایک دوسرے سے یہی سوال تھا کہ عامر کو عید سے پہلے واپس آنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اگر معاملہ گڑبڑ تھا اور معاملات کلیئر نہیں ہوئے تھے تو کیوں آئے ؟ گرفتاری ہی دینی تھی تو اتنے دن باہر کیوں رہے ؟ گرفتاری نہیں دینی چاہیے تھی اور معاملے کو کلیئر ہونے کا انتظار کرنا چاہیے تھا ۔یہ باتیں بھی ہوئی کے شاید عمران خان کی حکومت کے خاتمے سے صورت حال بدل جانے کا یقین عامر کو پاکستان واپس لے آیا اور شاید انہیں کسی نے تسلی دی ہو کہ واپس آجاؤ معاملہ جلد کلیئر ہو جائے گا ۔
اب سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا عامر کو کسی نے ٹریپ کیا ہے ؟ یا وہ مجبورا واپس آئے ہیں ؟ زیادہ لمبا عرصہ بیرون ملک رہنا بھی آسان نہیں ہوتا ۔کیا کسی نے نیب سے سیٹنگ کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی ؟ یا ان کو خود سے یقین ہے کہ ان کے خلاف نیب کو موصول ہونے والی شکایات اور ان پر لگنے والے الزامات میں کوئی وزن نہیں ہے اس لئے وہ جلد ہی الزامات کا سامنا کر کے عدالت سے بری ہو جائیں گے ۔لیکن ابھی تک کوئی بات حتمی طور پر سامنے نہیں آ سکی زمینی حقیقت یہ ہے کہ وہ عیدالفطر سے قبل گرفتار ہو چکے ہیں اور ان کے کیریئر میں یہ ایک بدمزگی پیدا کرنے والا یہ افسوسناک واقعہ پیش آچکا ہے جس نے ان کے دوستوں اور بہی خواہوں کو افسردہ کیا ہے اور اب ان کی رہائی اور واپسی کا انتظار اور بندوبست کیا جا رہا ہے قانونی لڑائی کا مرحلہ شروع ہوچکا ہے اب عدالت سے ریلیف لینے کے لیے کیس مضبوط بنانا ہو گا ان کے وکلا کو ان کی صفائی میں مضبوط دلائل دینے ہوں گے دوسری طرف نیب حکام بھی اپنا پورا زور لگائیں گے کہ ان کے خلاف الزامات اور گرفتاری کو درست ثابت کر سکیں ۔


عامر اسران میں بلا شک و شبہ سرکاری حلقوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی وہ انتہائی متحرک اور فعال افسران میں شمار ہوتے ہیں جہاں ایک وسیع حلقہ احباب ان کی خیرخواہی چاہتا ہے اور ان کی ترقی اور کامیابی پر خوش ہوتا ہے وہاں کچھ لوگ ایسے بھی ضرور ہیں جن کو عامر کی ترقی کامیابی اور مقبولیت ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔ان سے عمر کا آگے بڑھنا برداشت نہیں ہوا اور وہ حسد اور جلن کا شکار ہیں اور عامر کے خیر خواہ نہیں ہیں بلکہ برا چاہتے ہیں اور ان کی گرفتاری کا کافی دنوں سے انتظار کر رہے تھے اور جیسے ہی گرفتاری کی خبر آئی ۔ ان لوگوں نے اپنی خوشی کا اظہار بھی کیا ۔ان میں کچھ کھلے اور کچھ چھپے ہوئے چہرے ہیں ۔ہوسکتا ہے اکثر چہروں کو عامر خود بھی پہچانتے ہوں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن سے وہ خود بھی ناواقف ہوں کیونکہ ان کی اپنی طبیعت مزاج اور طرز زندگی ایسا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ بھلائی کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں دوسروں کا برا نہیں سوچتے۔ زیادہ تر لوگوں کا بھلا کرتے ہیں اس کے باوجود ان کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا ؟ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں بہت سے سوالات پوشیدہ ہیں ۔معرفت کی باتیں کرنے والے کہتے ہیں کہ بعض دفعہ آدمی جس معاملے میں پکڑا جاتا ہے اس میں وہ بے قصور ثابت ہوتا ہے لیکن قدرت سے کسی اور غلطی کی سزا دے رہی ہوتی ہے ۔اللہ بہتر جانتا ہے ۔دو بار ضرور کرنی چاہیے چونکہ انسان خطا کا پتلا ہے بعض دفعہ دانستہ اور بعض دفعہ نادانستگی میں بھی کوئی غلطی ہو جاتی ہے ۔
آپ کسی کی زبان نہیں پکڑ سکتے سرکاری دفاتر میں کہاں اور سنا گیا ہے کہ ان کی گرفتاری کی وجہ ان کی اپنی ذات یا کرپشن نہیں بلکہ انہیں کسی بڑے کردار کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اگر وہ اپروو بننے پر راضی ہو جاتے ہیں تو بہت جلد جان چھوٹ جائے گی اس پس منظر میں ایک اور افسر سجاد عباسی کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے ۔


لیکن عامراسران کو قریب سے جاننے والے بتاتے ہیں کہ عامر کسی قیمت پر جھوٹی گواہی نہیں دے گا وہ سب کچھ اپنے اوپر تو سہہ لے گا لیکن کسی دوسرے پر جھوٹا کیس بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گا ۔اگر اس نے ڈرنا ہوتا تو وہ واپس کیوں آتا ؟ اسے بھی پتہ تھا کہ واپسی پر گرفتاری ہو سکتی ہے اس کے باوجود وہ دلیری سے واپس آیا اور گرفتاری دے کر حالات کا سامنا کر رہا ہے اور وہ بہت جلد سرخرو ہوگا ۔

======================================