آج کتابوں کا عالمی دن ھے

قلم اور کتاب سے گریزاں قومیں بازی گر کا تماشا دیکھنے والا ہجوم بن کر مہزب اقوام کی ٹھوکروں کا رزق بن جایا کرتی ہیں قلم جس کی قسم رب ذو الجلال نے کھائی ھے اس کا تقدس اور لفظ کی حرمت بحال کرو وگرنہ فیصلے یوں ھی تلواروں سے لکھے جاتے رہیں گے ماں کہتی تھی


آدمی سے انسان بننے کے سفر کے لئے کتاب کی سواری ضروری ھے تم بڑے هو کر لکھاری بننا ادیب کبھی نہیں مرتے وہ اپنے لفظوں اپنی کہانیوں میں زندہ رهتے ہیں جیسے اشفاق احمد ، بانو قدسیہ ، ممتاز مفتی وغیرہ زندہ ہیں بیٹا هر انسان کے اندر ایک لا پتا

مامتا ھوتی ھے جو اس کو تلاش کر لیتا ھے وہ تخلیق کار بن جاتا ھے پھر افسردہ لہجے میں بولی فٹ پاتھ پر پڑی زخم زخم کتابوں کی لاشیں مجھے کہتی ہیں کیا ہمارا یہی مقام تھا کتاب تو ذندگی ھے کتاب تو اجالا ھے. جن گھروں میں کتابیں نہیں ہوتیں وہ ابو جہل کا مسکن ھوتا ھے وہ چیخ چیخ کر کہتی ہیں خدا کے لئے لفظ معنی کی شام مت ہونے


دو وگرنہ جہالت کی ایسی آندھی چلے گی کہ علم کے سارے ِدیے بجھ جائیں گے قلم کا سر کبھی قلم نہ کرنا کیونکہ


قلم کی بریدگی صرف خون لکھتی ھے علم کا چراغ بجھ جاۓ تو پھر اندھیروں کا قاضی اجالوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے لگ جاتا ھے


موت کی عدالتیں ذندگی کا فیصلہ کرنے لگتی ہیں قبرستان پھیلنے لگتے ہیں اور مامتا کو ٹوٹے ہوئے کھلونوں کے سوا کچھ نہیں ملتا

==================