موٹاپے کے رجحان پر قابو نہیں پایا جا سکا تو کل یہ کرونا سے بڑی وبا بن کر سامنے آ ئے گا، پروفیسر محمد سعید قریشی

دنیا بھر میں 800 ملین افراد موٹاپے کا شکار ہیں، پاکستان میں بھی موٹاپا تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی بنیادی وجہ طرز زندگی میں بے احتیاتی اور غیر متوازن غذا کا استعمال ہے، ماہرین صحت

کراچی () ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا ہے کہ موٹاپا ایک وبا کی طرح پھیل رہا ہے ابھی حال ہی میں ہے ہم عالمگیر وبا کرونا سے گزر کر آئے ہیں موٹاپے کے رجحان پر قابو نہیں پایا جا سکا تو کل یہ کرونا سے بڑی وبا بن کر سامنے آ ئے گا اس وقت پاکستان میں لگ بھگ چالیس چالیس فیصد افراد موٹاپے کا شکار ہے اگر طرز زندگی میں تبدیلی نہ لائی گئی تو 2030 تک مزید 2.9 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار اسکول آف پبلک ہیلتھ، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور پرائمری کیئر ذیابیطس ایسوسی ایشن (PCDA) کے اشتراک سے ورلڈ اوبے سیٹی ڈے یعنی موٹاپے کے عالمی دن کے سلسلے میں منعقد ہونے والے آگہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر وائس چانسلر پروفیسر نصرت شاہ، اسکول آف پبلک ہیلتھ اور ڈائریکٹر ریسریچ پروفیسر کاشف شفیق، پروفیسر سنبل شمیم، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ذیابطیس اینڈ اینڈو کرائنولوجی کی ڈاکٹر زرین کرن، ڈاکٹر فرید الدین ندا جاوید شامل تھے
آگاہی سیمینار سے قبل موٹاپے کے بارے میں آگاہی بیدار کرنے کے لئے پروفیسر شاہ کی قیادت میں واک کی گئی

واک کے شرکا نے پلے کارڈز اور بینر اٹھا رکھے تھے جن پر موٹاپے کی وجوہات اور اس سے بچاؤ کے حوالے سے آگاہی پیغامات درج تھے۔ اس کے علاوہ عوام الناس، یونیورسٹی کے فیکلٹی اور اسٹاف کے اہل خانہ کے لیے ایک فری میڈیکل کیمپ کا بھی اہتمام کیا گیا جو کہ دو روز تک جاری رہے گا…پروفیسر محمد سعید قریشی نے آگہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موٹاپا ہمارے خطے کی بیماری نہیں تھی یہ عموما مغربی ممالک کے بالغوں کو ہوتی تھی اور ان سے بچوں میں منتقل ہورہی تھی لیکن ورزش جی چرانے اور فاسٹ فوڈز کے حد سے زیادہ استعمال اور بیڈ پر لیٹ کر ٹی وی اور انٹرنیٹ کے استعمال نے ہمارے ہاں موٹاپے کی شرح کو بہت بڑھا دیا ہے
پروفیسر محمد سعید قریشی کہا کہ موٹاپا صحت عامہ کا ایک بڑھتا ہوا چیلنج ہے جو بچوں اور بڑوں دونوں کو متاثر کررہا ہے۔ بچپن کا موٹاپا ایک سنگین تشویش ناک بات ہے، جسمانی سرگرمی کی کمی اور غیر صحت بخش غذائی عادات بچپن کے موٹاپے میں بڑے معاون ہیں واک کے بعد بات کرتے ہوئے پروفیسر نصرت شاہ نے کہا کہ موٹاپا پوری دنیا کا ایشو ہے پہلے یہ بڑی عمر کے لوگوں کی بیماری تھی مگر اب بچوں میں اور نوجوانوں میں بھی موٹاپا بڑھ رہا ہے انہوں نے کہا کہ بعض حلقوں کا خیال ہے موٹاپا موروثی ہوتا ہے، مگر جس طرح ہمارے یہاں پھیل رہا وہ موروثی نہیں ہے ۔ ہمارے دور میں بچے گلیوں میدانوں میں کھیلتے کودتے نظر آتے تھے اب موبائل فون لیپ ٹاپ ٹی وی استعمال کرتے ہوئے ساکت و جاوید نظر آتے ہیں ماؤں کی عدم احتیاط کی وجہ سے بچوں میں بھی موٹاپے کا رجحان ہے..پرنسپل اسکول آف پبلک ہیلتھ اور ڈائریکٹر اورینٹیشن، ریسرچ اینڈ کمرشل پروفیسر کاشف شفیق نے کہا کہ دنیا بھر میں 800 ملین افراد موٹاپے کا شکار ہیں، پاکستان میں بھی موٹاپا تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی بنیادی وجہ طرز زندگی میں بے احتیاطی اور غیر متوازن غذا کا استعمال ہےانہوں نے کہاکہ موٹاپا دنیا کو درپیش صحت عامہ کا سب سے بڑا چیلنج ہے جو ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول، دل کی بیماریوں سیمت کینسر جیسی متعدد پیچیدگیوں کا باعث بنتا ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 800 ملین افراد موٹاپے کا شکار ہیں۔ سنہ 2016 دنیا بھر میں تقریباً 2 بلین افراد کا وزن زیادہ تھا اور اس میں سے 650 ملین افراد زیادہ موٹے تھے۔ 1975 کے بعد سے دنیا بھر میں موٹاپا تقریباً تین گنا بڑھ گیا ہے۔ پاکستان میں بھی موٹاپا تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی بینادی وجہ طرززندگی میں بے احتیاتی اور غیر متوزن غذا کا استعمال ہے۔ موٹاپے پر قابو پانے سے صحت مند اور خوشگوار زندگی گزارنے کا موقع حاصل ہوسکتا
پروفیسر کاشف شفیق نے موٹاپے کی وبائی امراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 2016 میں تقریباً 2 بلین افراد کے وزن زیادہ ہونے کا انکشاف ہوا جس میں سے 650 ملین سے زیادہ موٹے تھے۔ دنیا کی زیادہ تر آبادی ایسے ممالک میں رہتی ہے جہاں لوگ زیادہ وزن اور موٹاپا کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں۔ بچوں میں موٹاپے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2020 میں 5 سال سے کم عمر کے 39 ملین بچوں کا وزن زیادہ تھا جس کی وجہ سے وہ چھوٹی عمر میں ہی ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسی موٹاپے کی پیچیدگیوں کا شکار ہو ئے۔ پاکستان کے 16 اضلاع میں کیے گئے پاکستان پینل ہاؤس ہولڈ سروے کے اعدادوشمار کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر 22.8% شرکاء (23.9% خواتین اور 21.1% مرد) کا وزن زیادہ تھا، اور 5.1% (6.3%)۔ % خواتین اور 3.2% مرد) موٹے تھے۔ جسمانی غیرفعالیت، پھلوں اور سبزیوں کے استعمال میں کمی، گوشت کا زیادہ استعمال اور طرز زندگی میں بے احتیاتی کے نتیجے میں موٹاپا ہوتا ہے۔ قومی ادارہ برائے ذیابطیس کے ڈاکٹر فرید الدین اور ڈاکٹر زرین کرن نے کہا کہ موٹاپا پوری دنیا میں صحت کے حوالے سے سب سے زیادہ مسائل میں سے ایک ہے۔ موٹاپا ایک پیچیدہ ملٹی فیکٹوریل بیماری ہے جس میں جسم میں اضافی چربی جمع ہونے سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ملک بھر میں موٹاپا تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ایک بے مثال وبا پھیلتی ہے جو جلد ہی کسی بھی وقت سست ہونے کی کوئی خاص علامت نہیں دکھاتی ہے۔ بڑھتا ہوا باڈی ماس انڈیکس (BMI) غیر متعدی امراض جیسے ذیابیطس، قلبی امراض، اور عضلاتی عوارض کے لیے ایک خطرے کا عنصر ہے، جس کے نتیجے میں زندگی کے معیار اور توقعات میں ڈرامائی کمی واقع ہوتی ہے۔ موٹاپے کی بنیادی وجہ استعمال شدہ کیلوریز اور خرچ شدہ کیلوریز کے درمیان طویل مدتی توانائی کا عدم توازن ہے۔اسکول آف پبلک ہیلتھ کی ندا جاوید نے صحت مند طرز زندگی کے طرز عمل کو اپنانے پر زور دیا جس میں مناسب خوراک اور جسمانی سرگرمیاں موٹاپے کے انتظام میں کامیاب مداخلت کے طور پر شامل ہیں۔ تاہم یہ طرز عمل بہت سے عوامل سے متاثر ہوتے ہیں۔ لہذا مداخلتوں کے تعاون میں ایک مجموعی نقطہ نظر کے طور پر صرف ایک عنصر پر غور کرنے سے زیادہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ موٹاپے کی وبا کو کم کرنے کے لیے وزن کے انتظام میں مؤثر طریقے سے مدد کرنے کے لیے رجسٹرڈ غذائی ماہرین سمیت ایک کثیر الضابطہ ٹیم کا موجود ہونا ضروری ہے
=========================