کراچی میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو فعال کردار دیا جائے گا۔سیوریج،پانی ٹرانسپورٹ اور سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کراچی کے اہم مسائل ہیں۔کامیاب میراتھن کے انعقاد سے ہم یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ کراچی ایک محفوظ شہر ہے۔ کمشنر کراچی اقبال میمن سے انٹرویو


انٹرویو: یاسمین طہٰ عکاسی: بہزادخان
کراچی میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو فعال کردار دیا جائے گا۔سیوریج،پانی ٹرانسپورٹ اور سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کراچی کے اہم مسائل ہیں۔کامیاب میراتھن کے انعقاد سے ہم یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ کراچی ایک محفوظ شہر ہے۔ کمشنر کراچی اقبال میمن سے انٹرویو

کمشنر کراچی اقبال میمن نے حیدرآباد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ سول انجینئرنگ کے بعد رورل ڈیولپمنٹ میں ماسٹرز کیا۔ ورلڈ بینک کی اسکالر شپ پر انگلینڈگئے اور وہاں سے اکنامکس میں ماسٹر کیا۔ سی ایس ایس کرنے کے بعد 1995 سے بیورو کریسی سے منسلک ہوں۔اقبال میمن کا پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس سے تعلق ہے بحیثیت کمشنر ذمے داریاں سنبھالنے سے پہلے چیئرمین اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ رہ چکے ہیں۔ صحت اور تعلیم کے شعبے میں بھی ذمے داریاں انجام دیں۔ڈپٹی سیکریٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ بھی رہے اس کے بعد صوبہ سندھ میں ڈپٹی سیکریٹری،ایڈیشنل سیکریٹری کی ذمے داریاں ادا کیں خیرپور اور دادو میں ڈی سی او کی حیثیت سے تعینات رہے کراچی میں گورنر ہاؤس اور سی ایم ہاؤس میں مختلف پروجیکٹ سے منسلک رہے۔اوصاف سے ان کے انٹرویو کی تفصیل درج ذیل ہے
اوصاف: پہلی پوسٹنگ کس شہر میں ہوئی تھی


اقبال میمن: پہلی پوسٹنگ بحیثیت اسسٹنٹ کمشنرکوہلو قبائلی ایجنسی،بلوچستان میں ہوئی اس وقت نواب خیر بخش مری ستائیس برس بعد کوہلو قبائلی ایجنسی میں آئے تھے اور پہلی مرتبہ کوہلو شہر میں آئے تھے اس وقت وہاں پر دو گروپ موجود تھے ایک نواب صاحب کی حمایت میں اور ایک مخالفت میں، اور وہاں پر ہر گلی میں اسلحہ سے لیس لوگ موجود ہوتے تھے اور میرے لیئے یہ ایک چیلنج تھا کہ اس صورتحال سے کوہلو شہر کو نکالوں۔ وہاں کسی بھی لمحے سول وار ہونے کا خدشہ تھا۔ میں نے اپنی تمام صلاحیتیں اس حوالے سے استمعال کیں تاکہ کوہلو میں امن قائم کیا جاسکے میں نے دونوں گروپوں سے مذاکرات کرکے ان کو امن کیلئے راضی کرلیا امن بحال کردیا اور نواب صاحب بخیریت اپنے علاقے کی جانب روانہ ہوگئے جو کولہو کے قریب ہی واقع کاہان میں تھا یہ میرے کیریئر کی سب سے بڑی کامیابی تھی
اوصاف:آپ چار مہینے سے موجودہ ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں اس حوالے سے کیا مسائل درپیش رہے؟
اقبال میمن:گورننس کے ایشوز ہمیشہ سے رہے ہیں اس میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ماضی میں تھے اب نہیں ہیں کمشنر آفس کو فعال رکھنا اور کمیونٹی کے ساتھ انوولو رکھنا یہ ایک چیلنج ہی نہیں بلکہ موقع بھی ہے یہ آفیسر پر منحصر ہے کہ وہ اس ذمے داری کو چیلنج سمجھتا ہے یا ایک موقع کراچی ایک بہت بڑا شہر ہے جس میں بہت ساری ایجنسیاں کام کر رہی ہیں اس لیئے اسٹیک ہولڈرز بھی بہت زیادہ ہیں اس لیئے اس حوالے سے صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کی شراکت بھی ساتھ چلتی ہے اور کمشنر کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ کوآرڈینیشن رکھے اور یہی اس کیلئے سب سے بڑا چیلنج بھی ہے اور بڑا موقع بھی وہ مختلف محکموں کے درمیان رابطے بحال رکھتا ہے جس سے شہریوں کو مدد ملتی ہے
اوصاف:کراچی میں کیا اہم مسائل نظر آتے ہیں جو آپ کیلئے حل کرنا ایک چیلنج ہیں َ
اقبال میمن:سیوریج پانی اور ٹرانسپورٹیشن کراچی کے اہم مسائل ہیں اور سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بھی اہم مسئلہ ہے جو ہماری زندگی کو متاثر کر رہا ہے بی آر ٹی سسٹم کے تحت اب گرین لائن بس چل رہی ہے اورنج لائن بننے جارہی ہے کے فور کے پانی کے منصوبے پر بھی کام شروع کیا ہے جو ستمبر 2023 میں مکمل ہوجائے گا اس سے پانی کی قلت کے مسئلے پر قابو پایا جاسکے گا اس منصوبے میں صوبائی حکومت اور وفاق دونوں کی فنڈنگ ہے سولڈ ویسٹ مینجمنٹ پر بھی چھ ضلعوں میں کام شروع ہوچکا ہے جس سے کراچی کے کچرے میں کمی ہوئی ہے۔
اوصاف:بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم پر کیا ڈپٹی کمشنرز کو ذمے داریاں دی جاسکتی ہیں؟
اقبال میمن:2000 میں جب سے مجسٹریسی سسٹم ختم ہوا ہے ڈپٹی کمشنر سے ہم اس حوالے سے صرف میٹنگ کرسکتے ہیں تاکہ کوآرڈینیشن برقرار رہے لیکن وہ اس حوالے سے ہمیں جواب دہ نہیں۔ قانون کے تحت ایسی کوئی اتھارٹی موجود نہیں ڈپٹی کمشنر آفس صر ف اعداد و شمار ہی مہیا کرسکتے ہیں اسٹریٹ کرائم کی ایک وجہ نشہ کرنے والے لوگ بھی ہیں اور ان پر ہم کام کر رہے ہیں کراچی ہیوسٹن سسٹر سٹی ایسوسی ایشن اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کلیئے تیار ہے جس سے نشہ کرنے والوں کی تربیت کی جائے گی ہمارا ارادہ ہے کہ سرکاری زمین پر ایک ادارہ ان لوگوں کی تربیت کیلئے قائم کیا جائے۔
اوصاف:پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے کمشنر آفس کا کیا کردار ہے؟
اقبال میمن:ہم واٹر بورڈز سے اس حوالے سے میٹنگ کرتے ہیں اس میں ان سے ٹینکر مافیا کے خاتمے کی بات کی گئی ہے اس کے علاوہ ٹوٹی ہوئی لائنوں کی مرمت کا کہا جاتاہے۔
اوصاف:کمشنر آفس سے اشیائے خورد و نوش کی لسٹ باقاعدگی سے نکلتی ہے لیکن اس پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔دودھ کی قیمتوں پر آئے دن اضافہ ہورہا ہے اس پر کمشنر آفس کا کیا کردار ہے؟
اقبال میمن:اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب ایک بار دودھ فروشوں کی قیمت بڑھانے کی بات مان لی جائے تو پھر وہ بار بار قیمت بڑھاتے ہیں ور یہ سلسلسہ جاری تھا جس پر ہم نے تمام اسٹیک ہولڈرز کی میٹنگ بلوائی اور اس پر ہم ایک قیمت پر متفق ہوئے لیکن اس حوالے سے ہمیں جہاں سے بھی شکایات موصول ہوتی ہے اس پر کارروائی کرتے ہیں ہمیں اندازہ ہے کہ دودھ والے من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہین اس لیے ہم عوام کی شکایت پر کارروائی کرتے ہیں اور جس علاقے کی شکایت ہو اس علاقے کا ڈپٹی کمشنر دکان کو جرمانہ عائد کرکے دکان سیل کردیتا ہے ہم نے ایک ہیلپ لائن بھی رکھی ہے 1299 جس پر عوام شکایات درج کرواسکتے ہیں ہم ٹوئٹر اور فیس بک پر بھی موجود ہیں عوام اس ذریعے سے بھی ہمیں شکایات بھیج سکتے ہیں اگر ہمیں لوگ شکایات بھیجیں گے تو ہی ہم کارروئی کرسکیں گے۔
اوصاف:لیکن کیا وجہ ہے کہ کمشنر کی پرائس لسٹ کے حساب سے اشیاء عوام کو میسر نہیں چاہے وہ گوشت ہو مرغی یا سبزیاں
اقبال میمن:دراصل گوشت کی قیمت بھی بہت پہلے کی تعین کردہ ہے اور قیمتوں پر عملدرآمد کرانے کے حوالے سے یہ لوگ کورٹ بھی چلے جاتے ہیں گوشت کی پرائس کے حوالے سے ڈی سی ملیر کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی ہے جو گوشت کی قیمت کا تعین کر رہی ہے۔
اوصاف:کمشنر کی لسٹ پر عملدرآمد یقینی بنانئے کیلئے کیا اقدامات لیئے جانے چاہئے۔
اقبال میمن:اس حوالے سے علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو فعال کردار دیا جائے گا۔
اوصاف:مستقبل کی آپ کی کیا حکمت عملی ہے
اقبال میمن:اسپورٹس کے حوالے سے میں اہم کردار اداکر رہا ہوں اہم غیر نصابی سرگرمیوں پر بھی میرا فوکس ہے اسکولوں اور ہسپتالوں میں باقاعدگی سے دورے کرتا ہوں اور جو شکایتیں ہوتی ہیں ان کو دور کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
اوصاف:حال ہی میں ایک میراتھن کا آپ نے انعقادکیا تھا جو بہت کامیاب رہی اس کے بارے میں کچھ بتائیں؟
اقبال میمن:اس میرا تھن کے حوالے سے مجھے کہا گیا تھا کہ اس میں تو چند ہزار لوگ بھی شرکت نہیں کریں گے لیکن اس میں ریکارڈ تعداد نے شرکت کی۔اس میں غالباً بیس ہزار کے قریب لوگ شریک تھے اس ایونٹ کو میں نے چیلنج کے طورپر قبول کیا تھا اس ایونٹ کی کامیابی دراصل کراچی والوں کی کامیابی ہے جنہوں نے اس میں شرکت کی اور ایونٹ کو کامیاب بنایا اس میں غیر ملکی سفارتکاروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی جس سے ہم نے یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ کراچی ایک محفوظ شہر ہے اس سے قبل میں غیر ملکی سفارتکاروں کو لیاری کے فٹبال گراؤنڈ میں بھی لے جاچکا ہوں اور وہاں بھی ہم نے یہی ثابت کیاتھا کہ کراچی ایک محفوظ شہر ہے اس تقریب پر حکومت کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا فٹبال میچ میں بھی ایک ایم او یو سائن ہوا تھا جس میں انگلینڈ سے لوگ اپنے خرچ پر آئے تھے اس میں ہماری کاوشیں اور نیک نیتی شامل ہے۔
=====================================
coutsey =to=daily-Ausaf=Khi.
=========================================