گڑگاوں میں نمازجمعہ کے دوران شرانگیزی

معصوم مرادآبادی
———-

راجدھانی دہلی سے متصل گڑگاؤں شہرمیں گزشتہ کئی ہفتوں سے نمازجمعہ کے دوران خلل ڈالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔گڑگاؤں ہریانہ کا ایک صنعتی شہر ہے ، جہاں بڑی تعداد میں مسلمان فیکٹریوں اورملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفتروں میں کام کرتے ہیں۔انھیں جمعہ کی نماز ادا کرنے میں خاصی دشواری پیش آرہی ہے، کیونکہ انتظامیہ نے جن عوامی مقامات کو نمازجمعہ کے لیے نشان زد کررکھاہے، وہاں شرپسند عناصر ہر جمعہ کو رخنہ ڈالتے ہیں اور نماز کو رکوانے کی کوشش کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ نے ان کے دباؤ میں پہلے جن 125 مقامات کونماز جمعہ کے لیے نشان زد کیا تھا ، اب ان کی تعداد گھٹاکر 29 کردی گئی ہے۔ گزشتہ جمعہ یعنی 5نومبر کو سیکٹر 12 میں نماز رکواکر وہاں گوردھن پوجا کی گئی اور اس میں اشتعال پھیلانے کے لیے بدنام بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے بھی شرکت کی۔انھوں نے کہا کہ’’ گڑگاؤں میں نمازکی مخالفت نے پورے ملک میں ایک ٹرینڈ بنایا ہے اور پورا ملک اس سے متاثر ہے۔‘‘اس موقع پر وشوہندو پریشد کے سیکریٹری سریندر جین نے کہا کہ’’ جو کھلے میں نماز پڑھنا چاہتے ہیں، وہ پاکستان چلے جائیں۔گڑگاؤں ہی نہیں پورے ملک میں کہیں بھی کھلے میں نماز نہیں کرنے دی جائے گی۔‘‘
ہندو انتہا پسند تنظیموں کا کہنا ہے کہ مسلمان جمعہ کی نماز عوامی مقامات کی بجائے مسجدوں میں ادا کریں ، جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہریانہ کے بیشتر شہروں کی طرح گڑگاؤں کی مسجدوں پر بھی ناجائز قبضے ہیں اور یہاں نماز کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ ہریانہ آزادی سے پہلے غیرمنقسم پنجاب کا حصہ تھا اور یہاں بڑی تعداد میں مسلمان آباد تھے، لیکن تقسیم وطن کے نتیجے میں وہ اپنی مسجدوں اور مکانوں کو چھوڑ کر سرحد پارچلے گئے۔ ان کے مکانوں کی طرح مسجدوں پر بھی شرپسندوں نے قبضے کرلیے اور وہ اب انھیں خالی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ نے حال ہی میں نمازجمعہ کے تعلق سے دہرہ دون میں جو بیان دیا ہے ، وہ ان عناصر کو تقویت پہنچانے والا ہے جو گڑگاؤں میں نماز جمعہ بند کرانے کی مہم چلارہے ہیں۔انھوں نے ایک عوامی جلسہ کے دوران رائے دہندگان کو لبھانے کے لیے کہا کہ کانگریس کے دور میں مسلمانوں کی اتنی منہ بھرائی ہوتی تھی کہ جمعہ کے دن ہائی وے کا ٹریفک روک کر انھیں سڑک پر نماز کی اجازت دی جاتی تھی۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ’’ ایک بار میں اتراکھنڈ آیا تو میرا قافلہ ٹریفک جام میں پھنس گیا اور لوگوں نے مجھے بتایا کہ نماز جمعہ کے لیے ہائی وے بند کرنے کی اجازت ملی ہوئی ہے۔‘‘
اگر یہ بیان سنگھ پریوار کا کوئی عام لیڈر دیتا تو ہمیں اس پر قطعی اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاکرہی وہ اپنے کاروبار کو فروغ دیتے ہیں، لیکن ہمیں اس موضوع پرلکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہ بیان ملک کے وزیرداخلہ نے دیا ہے جن کے کاندھوں پر اندرونی سلامتی اور امن وامان قایم رکھنے کی بنیادی ذمہ داری ہے۔اس بیان سے یقینا ان لوگوں کو تقویت حاصل ہوئی ہے جوگڑگاؤں میں عوامی مقامات پر جمعہ کی نماز روکنے کی شرانگیز مہم چلارہے ہیں۔
ہمیں معلوم ہے کہ آئندہ چندماہ میں اتراکھنڈ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان میں دوبارہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے بی جے پی ہاتھ پاؤں ماررہی ہے۔ یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ اتراکھنڈ میں بی جے پی نے یکے بعد دیگرے اپنے تین وزرائے اعلیٰ تبدیل کئے ہیں۔ یعنی پانچ سال میں وہاں بی جے پی کے تین وزارائے اعلیٰ ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔اس دوران اتراکھنڈ میں قدرتی آفات نے بھی خاصی تباہی مچائی ہے۔ وہاں کے عوام کو جن مشکلات سے گزرنا پڑا ہے ، وہ ناقابل بیان ہیں،کیونکہ ریاستی حکومت انھیں راحت پہنچانے میں ناکام رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر وہاں چناؤ جیتنے کے لیے فرقہ وارانہ موضوعات کو ہوا دی جارہی ہے اور گزشتہ اتوار کو وزیرداخلہ امت شاہ نے وہاں جو تقریر کی ہے، وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔لیکن انھوں نے اپنی تقریر میں آدھا سچ ہی بیان کیاہے۔انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ اسی اتراکھنڈ میں ہرسال کانوڑ یاترا کے دوران ہفتوں سڑکیں عام ٹریفک کے لیے بند کردی جاتی ہیں اور ان پر صرف کانوڑیوں کو گنگا جل لے جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس دوران کم ازکم ایک ماہ تک مصروف ترین شاہراہوں پر بھی ٹریفک نہیں چلنے دیا جاتا ۔اس کے علاوہ بے شمار مواقع پرمذہبی جلوسوں اور تقریبات کے لیے ٹریفک بند کردیا جاتا ہے۔ مگر ا س کا ذکر کرنا وزیرداخلہ نے مناسب نہیں سمجھا اور صرف جمعہ کی نماز پر اعتراض جتایا ، کیونکہ ایسا کرنا ان کے سیاسی ایجنڈے کاحصہ ہے۔وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اگر اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنائیں گے تو انھیں ہندوؤں کے ووٹ نہیں ملیں گے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ سڑکوں پر جمعہ کی نماز نہیں ہوتی، بالکل ہوتی ہے ۔ جہاں جہاں مسلمانوں کو نماز پڑھنے کے لیے مسجدیں میسر نہیں ہیں، وہاں وہ سڑکوں پر نماز پڑھنے پر مجبور ہیں۔ مسلمانوں کی وہ اراضیاں جہاں وہ نماز پڑھ سکتے ہیں ، ان پر ناجائز قبضے کرلیے گئے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال گڑگاؤں ہے جہاں مقامی مسلمانوں نے وقف بورڈ کی ایسے 19مقامات کی نشاندہی کی ہے ، جہاں پہلے مسجدیں تھیں اوراب وہ ناجائز قبضے میں ہیں ۔ مسلم ایکتا منچ کے ممبران نے اسی ہفتہ گڑگاؤں کے ڈپٹی کمشنر کو ان مسجدوں کی فہرست سونپی ہے جنھیں یا تو متنازعہ قرار دے دیا گیا ہے یا جن پر ناجائز قبضے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مقامی مسلمان عوامی مقامات پر نمازپڑھنے پر مجبور ہیں۔مسلم ایکتا منچ نے انتظامیہ سے گزارش کی ہے کہ وہ یا تو ہمیں مسجد تعمیر کرنے کے لیے جگہ الاٹ کریں یا پھر جہاں وہ نماز ادا کررہے ہیں ، وہاں اس کی اجازت جاری رکھیں۔اگر گڑگاؤں میں ہماری 19 مسجدیں بحال ہوجاتی ہیں تو ہم عوامی مقامات پر نماز ادا نہیں کریں گے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلے دو ماہ سے کچھ سماج دشمن عناصر نماز میں رخنہ اندازی کررہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رہے۔
واضح رہے کہ گڑگاؤں میں عوامی مقامات پر نمازجمعہ ادا کرنے کا معاملہ نیا نہیں ہے۔اب سے پہلے وہاں 100سے زیادہ جگہوں پر جمعہ کی نماز ہوتی تھی ، جنھیں بی جے پی کے اقتدار میں گھٹاکر37 کردیا گیا اوراب تازہ فرمان کے مطابق مزید آٹھ مقامات پر نماز جمعہ کی اجازت منسوخ کردی گئی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے گڑگاؤں میں نماز سڑکوں پر نہیں ہوتی بلکہ ان پارکوں یا پھر خالی پڑی ہوئی سرکاری جگہوں پر ہوتی ہے،جن کی نشاندہی خود مقامی انتظامیہ نے کی ہے ۔لیکن یہاں ہرجمعہ کو نماز میں رخنہ اندازی کرنے کے لیے انتہا پسند ہندو تنظیموں کی طرف سے احتجاج کیا جارہا ہے اور حالات کو بگاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ ہریانہ میں جہاں کسانوں کی تحریک بھرپور انداز میں کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے ، وہاں عوام کے ذہنوں کو فرقہ وارانہ موضوعات کی طرف بھٹکایا جائے۔ورنہ کون نہیں جانتا کہ نماز کی مخالفت کرنے والی تنظیمیں اسی سنگھ پریوار کا حصہ ہیں جس کی ہریانہ میں سرکار چل رہی ہے۔ ہریانہ میں پولیس نے کسانوں کے ساتھ جو مظالم کئے ہیں ، اس سے حکومت کی پوزیشن عوام کے درمیان خاصی خراب ہوئی ہے۔
گڑگاؤں میں ہرجمعہ کو نماز کے وقت شرپسند عناصر نہ صرف اشتعال انگیز نعرے لگاکر ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں بلکہ ان کے اس عمل سے باربار امن وامان کی فضا بھی متاثر ہورہی ہے۔ ان اشتعال انگیز کارروائیوں کی وجہ سے مقامی مسلمانوں میں خوف وہراس پھیلا ہوا ہے۔ اس مسئلہ کا قانونی پہلو یہ ہے کہ کسی فرقہ کی عبادت میں خلل ڈالنا تعزیرات ہند کے مطابق ایک سنگین جرم ہے۔ یہ عبادت الٰہی کو روکنے کی کوشش ہے اور ایسا وہ لوگ کررہے ہیں جو اپنے مذہب کو دنیا کا سب سے زیادہ تحمل اور برداشت والا مذہب قرار دیتے ہیں۔ظاہر ہے ہریانہ میں پچھلے کئی ہفتوں سے نماز جمعہ میں رخنہ اندازی کرنے کی جو کوششیں ہورہی ہیں، وہ مذہبی ، اخلاقی اور قانونی تینوں اعتبار سے غلط ہیں، کیونکہ نمازیوں کو غیرضروری طورپر ہراساں کیا جارہا ہے اور انھیں ان کے ایک مذہبی اور دستوری حق سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،جس کی ہر سطح پرمذمت ہونی چاہئے۔