خورشید شاہ کی گرفتاری۔ قانون کی حکمرانی تھی یا سیاسی انتقام ؟ غرور کا سر نیچا ہوا یا انا کی تسکین ؟


خورشید شاہ کی گرفتاری۔ قانون کی حکمرانی تھی یا سیاسی انتقام ؟ غرور کا سر نیچا ہوا یا انا کی تسکین ؟
دو سال تک پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کو قید میں رکھنے کے بعد بالآخر سکھر جیل سے رہا کردیا گیا ۔عدالت بھی ان کی رہائی کا حکم دیا جس کے بعد سیاسی حلقوں میں بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔ سیاسی حلقوں میں بحث شروع ہو گئی ہے کہ اس گرفتاری سے کس نے کیا کھویا اور کس نے کیا پایا ؟ کتنا عرصہ قید میں رہنے سے سید خورشید شاہ سیاسی طور پر کمزور ہوئے یا مزید مضبوط ؟ ان کے سیاسی مخالفین کے ہاتھ کیا آیا؟ کس کا سیاسی قد بڑا ہوا اور کون مزید بو نا بن گیا ؟
jeeveypakistan.com-report
===============================

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور قومی اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو آمدن سے زائد اثاثوں کےکیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دو سال بعد سکھر جیل سے رہا کردیا گیا۔

پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما خورشیدشاہ کو دو سال (25 ماہ) بعد قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے بنائے گئے آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں درخواست ضمانت کی منظوری کے بعد رہا کردیا گیا۔

خورشید شاہ کو سینٹرل جیل سکھر سے رہا کیا گیا، اس موقع پر جیل کے باہر جیالوں کی بڑی تعداد موجود تھی، جنہوں نے خورشید شاہ کا استقبال کیا، کارکنوں نے ان کی گاڑی پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں اور نعرے بازی کی۔

پی پی پی کے کارکن خورشید شاہ کی رہائی کی خوشی میں ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے رہے اور انہیں گاڑیوں کے بڑے جلوس میں ان کی رہائش گاہ کی طرف روانہ کردیا۔

اس سے قبل خورشید شاہ کو سکھر کی احتساب عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں انہوں نے ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکوں پر دستخط کیے، جس کے بعد انہیں واپس جیل لایا گیا اور ضروری کارروائی کے بعد ان کو رہا کردیا گیا۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے دو روز قبل ان کی نیب کی جانب سے ایک ارب 23 کروڑ روپے سے زائد آمدن کے اثاثے بنانے کے الزام میں دائر ریفرنس میں ضمانت منظور کی تھی لیکن احتساب عدالت کی جانب سے سپریم کورٹ کے آرڈر کی تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے ان کی رہائی میں ایک دن کی تاخیر ہوئی۔

سپریم کورٹ میں دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکیل سے استفسار کیا تھا کہ اب تک کتنے گواہان کے بیان ریکارڈ ہوئے ہیں؟

جس پر نیب کے وکیل مخدوم علی خان نے بتایا تھا کہ خورشید شاہ کے خلاف تحقیقات مکمل ہو گئی ہیں اور ان پر 574 ایکڑ زرعی اراضی کی خریداری پر کرپشن کا الزام ہے۔

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ‏12 پراپرٹیز اور 5 بینک اکاونٹس کو جواز بنا کر ریفرنس بنایا گیا۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریماکس دیے کہ ‏کیا یہ زمین نہری ہے، اگر نہری ہے تو اسکی ویلیو زیادہ ہو گی۔

‏بعدازاں عدالت نے خورشید شاہ کو ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ضمانت منظور کرلی تھی۔

خورشید شاہ کی گرفتاری اور ان پر الزامات
خیال رہے کہ نیب 19 ستمبر 2019 کو پی پی پی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کو آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار کیا تھا۔

31 جولائی کو نیب نے رکن قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے خلاف انکوائری کی منظوری دی تھی، جس کے بعد اگست میں تحقیقات کا باقاعدہ آغاز کیا گیا تھا۔

30 نومبر 2020 کو سید خورشید شاہ، سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ اویس قادر شاہ، رکن صوبائی اسمبلی فرخ شاہ سمیت 18 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی گئی تھی لیکن انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

یاد رہے ذرائع نے بتایا کہ نیب کی جانب سے خورشید شاہ کو سکھر میں طلب کیا گیا تھا لیکن پیپلز پارٹی کے رہنما کی جانب سے یہ کہہ کر پیشی سے معذرت کرلی گئی تھی کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش ہونا تھا۔

اس سے قبل اگست میں احتساب کے ادارے نے سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پر مبینہ کرپشن کے ذریعے 500 ارب روپے سے زائد کے اثاثے بنانے کا الزام عائد کیا تھا لیکن پی پی پی کے رہنما نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

اس وقت نیب ذرائع کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات میں بتایا گیا تھا کہ ادارے نے خورشید شاہ کے خلاف بینک اکاؤنٹس، بے نامی اثاثوں اور متعدد فرنٹ مینز کی تفصیلات حاصل کرلی ہیں۔

مذکورہ معاملے کی تفصیلات میں یہ بات سامنے آئی تھیں کہ خورشید شاہ اور ان کے اہلخانہ کے کراچی، سکھر اور دیگر علاقوں میں 105 بینک اکاؤنٹس موجود ہیں، اس کے علاوہ پی پی رہنما نے اپنے مبینہ فرنٹ مین ’پہلاج مل‘ کے نام پر سکھر، روہڑی، کراچی اور دیگر علاقوں میں مجموعی طور پر 83 جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔

اس ضمن میں مزید بتایا گیا تھا کہ خورشید شاہ نے مبینہ فرنٹ مین لڈو مل کے نام پر 11 اور آفتاب حسین سومرو کے نام پر 10 جائیدادیں بنائیں۔

مذکورہ ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے اپنے مبینہ ’فرنٹ مین‘ کے لیے امراض قلب کے ہسپتال سے متصل ڈیڑھ ایکڑ اراضی نرسری کے لیے الاٹ کرائی، اس کے علاوہ خورشید شاہ کی بے نامی جائیدادوں میں مبینہ طور پر عمر جان نامی شخص کا بھی مرکزی کردار رہا جس کے نام پر بم پروف گاڑی رجسٹرڈ کروائی گئی جو سابق اپوزیشن لیڈر کے زیر استعمال رہی۔

اس کے علاوہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسلام آباد میں خورشید شاہ کا زیر استعمال گھر بھی عمر جان کے نام پر ہے اور سکھر سمیت دیگر علاقوں میں تمام ترقیاتی منصوبے عمر جان کی کمپنی کو فراہم کیے گئے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1171259/
===============================================

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کو سکھر کی سینٹرل جیل سے رہا کر دیا گیا۔

پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے جیل کے باہر خورشید شاہ کا استقبال کیا۔

جیالوں کا قافلہ خورشید شاہ کی قیادت میں جیل سے ان کی رہائش گاہ روانہ ہوگیا، رہائش گاہ پر پہنچ کر خورشید شاہ کارکنان سے خطاب کریں گے۔

خورشید شاہ آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس میں 25 ماہ سے قید میں تھے۔

احتساب عدالت نےسپریم کورٹ کے آرڈر کی تصدیق کے بعد خورشید شاہ کے ریلیز آرڈر جاری کیے تھے۔

سپریم کورٹ آرڈر کی تصدیق کے بعدخورشید شاہ کو جیل سے صبح احتساب عدالت لایا گیا تھا، جہاں خورشید شاہ سے دستخط لے کر انہیں دوبارہ سینٹرل جیل بھیج دیا گیا تھا
https://jang.com.pk/news/1001879