گورنرکااعتراض مسترد

یاسمین طہٰ


سندھ حکومت نے گورنرعران اسماعیل کااعتراض مسترد کرتے ہوئے باالآخر مرتضیٰ وہاب کو ایڈمنسٹریٹرکراچی تعینات کردیا۔ جبکہ سیاسی جماعتوں نے مرتضیٰ وہاب کی تعیناتی پر شدید تحفظات کااظہار کیا ہے۔ کے ایم سی کے افسران بھی مرتضیٰ وہاب کی تعیناتی پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت نے وزیر اعلی سندھ کے مشیر قانون،ماحولیاتی تبدیلی، کوسٹل ڈویلپمنٹ مرتضیٰ وہاب کو منسٹریٹر کراچی تعینات کردیا ہے۔مرتضیٰ وہاب کی تعیناتی پر کے ایم سی سمیت شہر کے سیاسی سماجی حلقوں کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ سمیت سندھ اسمبلی میں بھی احتجاج کا عندیہ دیا ہے دوسری جانب کے ایم سی افسران مرتضیٰ وہاب کی تعیناتی پر دوحصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں ایک گروپ مرتضی وہاب کی تعیناتی کو کے ایم سی کے لئے خوش آئند جبکہ دوسرا گروپ مرتضیٰ وہاب کی ایڈمنسٹریٹر تعیناتی کو پیپلزپارٹی کی بلدیاتی وسائل پر قبضے کی سازش قرار دے رہا ہے۔واضح رہے مرتضیٰ وہاب ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کے ساتھ مشیر وزیر اعلی اور ترجمان سندھ حکومت کے مشیر کے فرائض بھی بدستور انجام دیتے رہیں گے۔ یاد رہے کہ منتخب بلدیاتی نمائندو ں کی مدت ختم ہونے سے قبل پیپلزپارٹی اور صوبے کی سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا معاہدے کے تحت پیپلزپارٹی صوبے بھر میں سرکاری افسران کو ہی بلدیاتی اداروں میں ایڈ منسٹریٹر تعینات کرے گی اورکسی سیاسی شخصیت کو کسی بھی شہر کا ایڈمنسٹریٹر تعینات نہیں کیا جائے گا تاہم ایک سال بعد ہی پیپلزپارٹی نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے اہم رہنما کو ایڈ منسٹریٹر کراچی تعینات کرکے معاہدے کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ایم کیو ایم پاکستان کے ترجمان نے بھی مرتضی وہاب کی بطورسیاسی ایڈمنسٹریٹرتعیناتی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے نوٹس لینے کی اپیل کی ہے،ترجمان نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل سیاسی ایڈمنسٹریٹر کا تقرر انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی اداروں کے ذریعہ سندھ میں مداخلت کا فیصلہ کرلیا ہے،اور صوبے میں بد انتظامی کرپشن اور بد امنی کی روک تھام کے لئے وفاقی اداروں کے ذریعہ کاروائی کی جائے گی اور اس مقصد کے لئے مختلف مقامات پر آپریشن کئے جانے کے بھی امکانات ہیں۔عمران خان جلد سندھ کا دورہ کریں گے۔اس کا فیصلہ اسلام آباد میں منعقدہ سندھ اسٹریٹیجی کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔وفاق کیطرح سندھ حکومت میں بھی وزیروں کی تقرری اور قلمدان میں رد بدل کاسلسلہ جاری ہے۔سندھ حکومت کی کابینہ میں چار نئے وزراء ساجد جوکھیو، گیان چند ایسرانی، ضیاء عباس اور جام خان شورو شامل ہوگئے ہیں،جب کہ وزیر آبپاشی سہیل انورسیال، ہری رام اور فراز ڈیرو سندھ کابینہ سے فارغ ہوگئے ہیں۔جب کہ بعض وزرا کے قلمدان تبدیل کئے گئے ہیں۔اورمعاونین خصوصی کی تعداد 15 ہوگی ہے،سندھ کابینہ میں مزید معاونین خصوصی بھی شامل کیے گئے ہیں جن میں وقار مہدی،قاسم نوید،بنگل مہر،تنزیلہ ام حبیبہ،ارباب لطف اللہ،لیاقت علی آسکانی سدھومل سرندرولاسی،صادق علی میمن،،پارس ڈیرو،علی احمدجان،محمدآصف خان،سلمان عبداللہ مراد،اقبال ساندھ، صغیر قریشی،اور ارسلان اسلم شیخ شامل ہیں۔کرونا وائرس کی چوتھی لہر کے باعث کراچی میں مارکیٹیں اور کاروباری مراکز دوبارہ بند کرنے کے اعلان کے بعدکاروباری طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہوا۔اس کے ساتھ ہی دیہاڑی دار افراد نے لاک ڈاؤن میں کسطرح گذر بسر کی اس سے سندھ حکومت کو کوئی سروکار نہیں۔کرونا پر سیاسی بیان بازی ایک بار پھر عروج پر رہی اور وفاق اور سندھ لاک ڈاؤن کی سیاست میں مصروف رہے۔سندھ حکومت کی جانب سے ٹاسک فورس کے مشورے پر صوبے میں زیادہ پابندیوں کے نفاذ کا اعلان کیاگیا تو فوری طور پر وفاقی وزیر فواد چوہدری کا بیان سامنے آیا کہ سندھ حکومت اس ضمن میں ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کرے کہ عام آدمی کا روزگار اور کاروبار کم سے کم متاثر ہو۔اور ان کی یہ بات سولہ آنے درست ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس دوران ایک تفصیلی سروے کر کے انتہائی غریب اور دیہاڑی پر کام کرنے والے افراد کا ایک ڈیٹا مرتب کیا جاتا،تاکہ لاک ڈاؤن کی صورت میں ایسے افراد کی مالی مدد کی جا سکے۔لیکن مبینہ طور پر لاک ڈاؤن کے دوران سڑکوں پر فروٹ ریڑھی لگانے والوں سے بھی بعض علاقوں میں پولیس نذرانہ طلب کرتی رہی ہے اور سندھ حکومت نے پولیس تھانوں کو لاک ڈاؤن کے دوران اختیارات دے کر گویا ان کی نذرانے کی پالیسی کو تحفظ فراہم کردیا ۔سندھ حکومت نے بغیر کسی تیاری کے اچانک شہر بند کرکے عوم کی مشکلات مین اضافہ ہی کیا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پولیو کی طرز پر گھر گھر جاکر ویکسین لگائی جاتی یا علاقے کی یونین کونسل کی سطح پر اس کے انتظامات کردئے جاتے تو رش پر قابو پایا جاسکتا تھا،اس کے برعکس سم بند کرنے کی دھمکی دے کر ویکسینیشن سینٹرز پر ایک ہجوم اکٹھا کردیا گیا ۔ لاک ڈاؤن کے دوران اندرون سندھ کے چند شہروں کے مکمل فعال ہونے کی خبریں بھی گردش میں رہی جب کہ مبینہ طور پر کراچی میں پی پی پی کے گڑھ لیاری میں کاروبار جاری رہنے کی خبرین بھی تھیں۔ اس کے علاوہ پولیس کے تعاون سے مختلف علاقوں میں کاروبار جاری رہنے کی اطلاعات بھی تھی۔کرونا کووبا کے دوران مکمل لاک ڈاؤن کی باعث کراچی میں کئی کاروبار تقریباً تباہ ہوچکے ہیں، لیکن وفاق کی اسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسیوں کو نہ مان کر سندھ حکومت نے صوبائی خود مختاری کی اعلیٗ مثال قائم کی۔