زیبا برنی تم یاد آتی ہو

زیبا برنی باہمت خاتون صحافی تھی جو آندھیوں اور بگولوں میں بکھرتے اپنے گھر کے تنکے جمع کرتی کرتی ایک روز خود ہی کرچی کرچی ہو گئی- میں نے تو وہ دن نہیں دیکھے جو اس نے نذیر لغاری، سہیل دانش، گل محمد فیضی کے ساتھ کام کرتے ہوئے گزارے تھے لیکن زیبا کا کہتے ہیں کہ وہ رخ زیبا لے کر کارزار صحافت میں آئی تھی، اس کی دوشیزگی اور خوش لباسی کے چرچے ہر سو تھے لیکن گردش دوراں میں اس کے چہرے کی ساری زیبائش دکھوں کے دھوئیں میں دھندلا گئی-
وہ زمانہ بڑے مزے کا زمانہ تھا، جب گل محمد فیضی کراچی ہوا کرتے تھے، وہ حاضری رجسٹر میں زیبا برنی کے نام کے آخری حصے کو بڑی صفائی سے برنی سے برفی کر دیا کرتے تھے جس پر زیبا آسمان سر پر اٹھا لیا کرتی تھیں- یہ زمانہ باہمی احترام کا زمانہ تھا، اس میں ایسی چھیڑ خانیوں کو جنسی ہراسگی قرار نہیں دیا جاتا تھا بلکہ فریقین اس طرح کے چٹکلوں سے محظوظ ہوا کرتے تھے- ہم نے لگ بھگ پچیس برس ساتھ کام کیا، اتنی طویل مدت میں مجھے زیبا کو قریب سے جاننے اور اس کے خزاں رسیدہ باطن میں جھانکنے کا موقع ملا، وہ اندر سے بڑی کومل اور ہمدرد خاتون تھی، جس کا دل مظلوموں اور زیر دست لوگوں کے لئے ہمہ وقت مضطرب رہتا تھا- وہ بہت دکھی خاتون تھی شاید اسی لئے خود سے جڑے لوگوں اور اپنے ارد گرد کے ہر ایک شخص کی تکلیف پر تڑپ جایا کرتی تھی- بد قسمتی سے اس کی ازدواجی زندگی مثالی نہیں رہی تھی، پھر جلد ہی اس کا شوہر نعیم قمر اسے بیوگی کی سند تھما کر ملک عدم کو روانہ ہو گیا- زیبا نعیم قمر مرحوم کی دوسری بیوی تھی، زیبا نے وفائوں کا یہ سلسلہ مرتے دم تک نہیں توڑا اور آخری سانس تک نعیم قمر کی سند بیوگی کو سنبھال کر سینے سے لگا کر رکھا-
میں شعبہ صحافت میں اس سے بہت جونئیر تھا لیکن جب ایڈیٹر بنا دیا گیا تو وہ بہت خوش ہوئی کہ جیسے کوئی اس کا اپنا اس منصب کے لئے چن لیا گیا ہو- اس نے اپنے سینئر ہونے کا ہمیشہ خوب فائدہ اٹھایا اور وہ مجھے ہمیشہ صاحب وغیرہ کی کلفتوں میں پڑے بغیر روایتی اپنائیت سے خاور کہہ کر پکارا کرتی اور جب کبھی ضرورت پڑی تو اپنائیت سے ڈانٹ بھی دیا کرتی-
اکثر دوست کہتے ہیں کہ نوائے وقت میں جتنی بھی خواتین ہوتی ہیں سمجھو اتنے ہی گروپ ہوتے ہیں- میرے اٹھائیس سالہ دورانئے میں درجنوں لڑکیاں آئیں اور گئیں لیکن زیبا برنی، غزالہ فصیح، صوفیہ یزدانی اور آخری دنوں میں حمیرا اختر جب تک نوائے وقت میں رہیں یہ تاثر پختہ رہا، ان خواتین کی خوامخواہ کی باہمی چپقلش اور گروہی سیاست دفتر کا حسن تھا، خدا نہ خواستہ جب کبھی یہ صلح جوئی پر اتر آتیں اور چند روز کے لئے اچانک ایک دوسرے کے قریب آ جاتیں، ان کے جھگڑے تھم جاتے تو دفتر کا ماحول پھیکا پڑ جاتا اور سب کا مزہ بھی کرکرا ہو جاتا- میرے نوائے وقت چھوڑنے کے بعد جو حشر مجید نظامی صاحب کی لے پالک بیٹی رمیزہ بی بی نے اس تاریخ ساز ادارے کے ساتھ کیا وہ صحافتی تاریخ کا عبرت ناک باب ہے، اگر آج مجید نظامی زندہ ہوتے تو اپنی اس لاڈلی کو ہی ٹھکانے لگا دیتے- میں ابھی نوائے وقت میں ہی تھا کہ زیبا برنی ریٹائر کر دی گئیں، یوسف خان وفات پا گئے، عبدالقدوس فائق مستعفی ہو کر امریکا چلتے بنے- بچل لغاری اور محمد یوسف بھی جبری طور پر گھر بھیج دیئے گئے، اور ہاں نئی کراچی کا شیر محمد جو زیبا برنی کو جیبا برنی کہا کرتا تھا، اسے ریٹائر کیا گیا تو نوائے وقت کا نشہ چھوٹنے پر اللہ کو پیارا ہو گیا- پھر ہم بھی ادھر ادھر ہو گئے تو نوائے وقت کا آباد چمن چٹکیوں میں برباد ہو کر رہ گیا- مجید نظامی کی لے پالک بیٹی رمیزہ بی بی کی ٹیسٹ ٹیوب صحافت کئی گھروں کے چراغ گل کر گئی اور کئی ایک سڑکوں پر آ گئے- جب میں نے فروری 2017 میں 92 میڈیا گروپ جوائن کیا تو زیبا برنی ریٹائر منٹ کی زندگی گزار رہی تھیں-
چار سال قبل زیبا برنی شاہ راہ قائدین پر واقع اپنے گھر میں ایک حادثاتی ڈاکو کے ہاتھوں ماری گئی، اس کا قاتل الیکٹریشن تھا اور کام پڑنے پر اس کے گھر آیا جایا کرتا تھا، ایک روز اکیلی اور نہتی خاتون کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے لئے اسے جان سے مار کر مال و اسباب سمیٹ کر چلتا بنا، بعد میں زیبا کا قاتل پکڑا بھی گیا لیکن اس کے دھر لئے جانے سے زیبا برنی لوٹ کر نہیں آئی- آج زیبا برنی کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے چار سال بیت چکے ہیں لیک اس کی یادیں ہماری زندگی کا حصہ ہیں اور اس کی آوازیں اب بھی ہماری سماعتوں سے ٹکراتی رہتی ہیں-
“سہیل ذرا سنو”،
“خاور ذرا ادھر آنا”
“بھٹی صاحب! صفحہ تیار ہو گیا کیا؟”
“نسیم کہاں مر گئے؟”

————————-


Saeed-Khawer
—————