چترالی ملٹری روایات

چترالیملٹریروایات

قسط ١. (تحریر برگیڈیربشیرآراٸیں )
ایبٹ آباد سے بنیادی ملٹری ٹریننگ کے بعد پہلی پوسٹنگ پر 17 اگست 1984 کو چترال اسکاٶٹس میں دروش پہنچا اور میں آج تک یہی کہتا ہوں کہ اللہ کا شکر ہے مجھے پہلا کمانڈنٹ کرنل مراد خان نیر جیسا شخص ملا ۔ فوج میں چلنا پھرنا بولنا بات کرنا اور ایمانداری سے نوکری کرنا اسی شخص نے سکھایا ۔ اس لیجنڈ فوجی کی اپنے انڈر کمانڈ لوگوں کیلیے بیشک شفقت تو پدرانا تھی اور یہ کھلاتا سونے کا نوالہ تھا مگر دیکھتا شیر کی آنکھ سے تھا ۔ فوجی وردی میں بھی وہ انسان اچھا تھا ۔ لواری ٹاپ سے شندور تک کمانڈ تھی مگر نہ تکبر تھا نہ احساس برتری ۔ رعب داب بےتحاشہ مگر دل موم کا تھا ۔ ایک کمال اور تھا کہ جو سبق دیتا اسکا رول ماڈل بھی خود ہی ہوتا ۔ نہ جانے ہم اس سے ڈرتے زیادہ تھے یا اسکی عزت زیادہ کرتے تھے ۔ مگر کوشش یہ ہوتی تھی کہ کوٸی ایسا غلط کام نہ کر بیٹھیں جس سے وہ ناراض ہو ۔

میں چترال اسکاٶٹس ہیڈ کوارٹر کی آفیسرز میس کے معاملات سنبھالتا تھا ۔ مجھے اکثر کہتے کہ جونیر آفیسرز مہمان بنیں تو انکا زیادہ خیال رکھا کرو ۔ سینیرز تو ڈنڈے کے زور پر اپنا خیال کروا ہی لیتے ہیں ۔ انکا جینا مرنا خاکی وردی تھی ۔ جنرل ضیالحق سے زات مراسم تھے مگر کبھی کوٸی زاتی فاٸدہ نہ اٹھایا ۔ ڈی ایچ اے کے پلاٹ ۔ عسکری کے گھروں اور ریٹاٸرمنٹ پر زمینوں کی الاٹمنٹ سے انکا کوٸی سروکار نہ تھا اور یہی ہمیں سکھاتے تھے ۔ انکے ساتھ اڑھاٸی سال پلک جھپکتے گزر گٸے اور میری پوسٹنگ کوٸٹہ آگٸی ۔ کرنل مراد نے شادی نہیں کی تھی ۔ اپنوں سے ناراض تھے ۔ مجھ سے وردی میں کمانڈنٹ کی طرح بات کرتے مگر شام کو میس میں بیٹھ کر بیٹا بنالیتے ۔ میری پوسٹنگ پر زیادہ خوش نہ تھے ۔کہنے لگے چلے جاو مگر واپس آوگے ۔ میری چترال اسکاٶٹس میں دوبارہ بھی پوسٹنگ ہوٸی ۔ اسکا ذکر آگے کرونگا ۔

کور صوبیدار میجر کو بلوا کر کہا کہ کیپٹن بشیر کو چترال أسکاٶٹس کی روایات کے مطابق خدا حافظ کرنا ہے ۔ میں حیران رہ گیا کہ میری دعوتوں کا سلسلہ پورے سات دن تک پھیلا دیا گیا ۔ جوانوں کی طرف سے ہر ونگ میں ۔ ہیڈ کوارٹر میں جے سی اوز میس میں ۔ اپنے اسٹاف کی طرف سے ہاسپیٹل میں اور آفیسرز میس میں الگ الگ کھانے کا اہتمام ہورہا تھا ۔ پولو میچ بھی ہوا اور چھ سات راتوں میں اسٹوک (چترالی ڈانس) کا اہتمام الگ رہا ۔ یہ سب مجھے ہر لمحہ مغموم کر رہا تھا ۔ حد یہ تھی کہ ہر دعوت میں شہر سے بیشمار سول لوگ بھی بلاٸے جاتے کیونکہ میں انکے دکھ سکھ میں شریک ہونے اور علاج معالجے کیلیے ہر ہر گاٶں تک جاتا رہا تھا اور انکی محبتوں کے مزے لوٹتا رہا تھا اور اب وہ مجھے خدا حافظ کہنے کو جمع ہو جاتے تھے ۔

چترال اسکاٶٹس سے میری الوداعی تقریب کے منظر مجھے آج بھی رلا دیتے ہیں ۔ مجھے چترال اسکاٶٹس ہیڈ کوارٹر نے لنچ کے بعد الوداع کہنا تھا ۔ آفیسرز میس میں لنچ ہوا ۔ کیپٹن انجم پرویز کے ساتھ مجھے کوارٹر گارڈ پر سلامی دی گٸی اور جب میں کوارٹر گارڈ کے جوانوں سے گلے مل رہا تھا تو نہ وہ ضبط کرسکے نہ میں ۔ سب رو دٸیے ۔ کرنل مراد بھی دور کھڑے چشمہ اتار کر آنکھیں صاف کرتے رہے ۔ میں سب دیکھ رہا تھا اور وردی کو دنیا کی سب سے بڑی نعمت سمجھ رہا تھا کہ یہ محبتیں باقی اداروں میں کہاں ۔ جب دروش قلعے کے گیٹ سے باہر نکلا تو سامنے فوجی بینڈ بجنے لگا اور حد نظر تک سڑک کے دونوں طرف جوان پھولوں کے ہار لیے کھڑے تھے ۔ میں نے کرنل مراد کی طرف دیکھا تو میری آنکھوں سے محبت اور عقیدت کے آنسو رواں ہو گٸے ۔ مجھے انہوں نے بڑھ کر یوں گلے سے لگایا جیسے کوٸی باپ اپنے چھوٹے سے بچے کو شدت جذبات سے مضبوط گرفت میں لے لے ۔ بینڈ یک دم خاموش ہوا اور قلعہ کے چاروں کونوں پر پکٹس سے فاٸر شروع ہوگیا اور اگلے دو منٹ تک ہم صرف گولیوں کی گونج سنتے رہے ۔ قلعے کے دروازے سے دروش بازار تک ایک فرلانگ کا راستہ میں نے دو گھنٹوں میں طے کیا اور تب جاکر میں کر جیپ میں بیٹھا تاکہ چترال جا سکوں ۔ میرے گلے میں ڈالے جانے والے ہار نہ جانے کتنی دفعہ زیادہ ہوجانے پر اتارے گٸے اور جوانوں کو ڈانٹا گیا کہ اب بس کردو ۔ اسے چترال جانے دو ۔

یہ تھیں وہ فوجی روایات جن کی وجہ سے وردی والے اپنے ملک وقوم کے لیے ہنستے کھیلتے شہید ہوجاتے ہیں اور سبز پرچم میں شہید گھر پہچتا ہے تو باپ سینہ تان کر کہتا کہ میں شہید کا باپ ہوں ۔ اب سب بدل سا رہا ہے ۔ وردی والے بھی اور پوری قوم بھی ۔ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ کیسے تین چار دہاٸیوں کو واپس کھینچ لاوں ۔ وہی فوجی ہوں اور وہی قوم کی محبتیں ۔

میں نے جیپ میں بیٹھنے سے پہلے آفیسرز کو خدا حافظ کہا اور کمانڈنٹ کو سیلیوٹ کیا تو وہ ہنس کر کہنے لگے یہاں نہیں چلو چترال چلتے ہیں ہم تمہیں وہاں خدا حافظ کہیں گے ۔ دروش سے چترال کا سفر ان دنوں دو گھنٹوں کا ہوتا تھا ۔ ہم سب چترال پہنچ گٸے ۔ رات کو چترال ونگ نے دوبارہ ڈنر اور اسٹوک کا اہتمام کر ڈالا ۔ خوب مزے کیے ۔ جوانوں کے ساتھ میں نے بھی خوب ڈانس کیا ۔ 27 دسمبر 1986 کی صبح مجھے اٸیرپورٹ پر سب خدا حافظ کہنے جمع ہوٸے تو نہ جانے میں کتنی ہمت کرکے چپ چاپ پشاور کیلیے جہاز میں جا بیٹھا ۔
(جاری ہے)