افریقہ اور ایشیا کی تہذیبیں: نوآبادیاتی طاقتوں کے اثرات اور آزادی کے بعد کی شاندار ابھار

دنیا کے مختلف خطوں کی سیاسی تقسیم اور خانہ بندی کا تعلق صدیوں سے بڑی طاقتوں کی حکمتِ عملی سے رہا ہے۔ مشرق اور مغرب، پہلی، دوسری اور تیسری دنیا، شمال و جنوب، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک جیسے زمروں میں دنیا کو تقسیم کیا گیا، جس کا مقصد اکثر مجبور اور پس ماندہ ملکوں کے وسائل اور ثقافت پر کنٹرول رکھنا رہا۔

ماہرین کے مطابق ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک نوآبادیاتی اور سیاسی دباؤ کے تحت مجبور ملکوں کی صف میں شامل رہے، جبکہ دیگر طاقتور ممالک نے عالمی سیاست اور اقتصادیات میں غلبہ حاصل کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دولت مند ممالک امیر سے امیر تر اور غریب ممالک غریب سے غریب تر ہوتے گئے، اور ساتھ ہی نوآبادیاتی اثرات نے پس ماندہ ملکوں کی تہذیبی اور ادبی شناخت کو بھی مسخ کیا۔

اس سلسلے میں اردو کے معروف ترقی پسند ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے ایک مضمون شائع کیا، جس میں انہوں نے افریقہ اور اس کے باشندوں پر نوآبادیاتی طاقتوں کے اثرات پر روشنی ڈالی۔ قاسمی نے لکھا کہ قوموں کی پہچان ان کی تہذیب، ادب، شاعری، موسیقی اور دیگر ثقافتی مظاہر سے ہوتی ہے۔ نوآبادیاتی دور میں افریقہ اور ایشیا کے لوگ مغربی سامراج کی کتابوں اور تعلیمات کے ذریعے مسخ شدہ اور محدود معلومات کے زیر اثر رہے، جس سے دنیا میں یہ غلط تاثر قائم ہوا کہ ان ملکوں کی اپنی کوئی تہذیب نہیں۔

قاسمی کا کہنا ہے کہ افریقہ کے تاریک تصور کو مغربی مورخین نے مسلط کیا، اور لوگوں کو تعلیم سے محروم رکھا گیا تاکہ وہ اپنے استحصالیوں پر سوال نہ اٹھا سکیں۔ تاہم، آزادی کے بعد افریقہ نے اپنی تہذیب، شاعری اور ادبی شناخت کو بھرپور انداز میں اجاگر کیا۔ افریقی لوگوں کی ثقافت اور حوصلہ مندی نے دنیا کو حیران کر دیا کہ ان کی تہذیب میں کتنی توانائی اور تخلیقی قوت موجود ہے۔

قاسمی کے مطابق مغربی ممالک نے آزادی کے بعد افریقہ کے شاعروں کا انتخاب اس وقت کیا جب ان کا سیاسی جوش خطرناک لگنے لگا، لیکن یہ انتخاب اکثر محدود اور خود ساختہ رہا تاکہ استحصالی ردعمل کا اظہار کرنے والے اشعار شامل نہ ہوں۔ آزادی کے بعد افریقہ کی ادبی اور ثقافتی شناخت پوری طرح منظر عام پر آئی، جس نے ثابت کر دیا کہ افریقہ کی تہذیب اپنی مخصوص اور خود مختار حیثیت رکھتی ہے، جس کا ماضی صدیوں پر محیط ہے اور مستقبل بھی عالمی سطح پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔