ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے چیئرمین کے عہدے کے لیے دو روزہ انٹرویوز کا سلسلہ بدھ 26 نو مبر کو اسلام آباد میں شروع ہوا ۔ انٹرویوز وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں تلاش کمیٹی وفاقی وزارت تعلیم اسلام اباد کے دفتر میں لے رہی ہے ابتدائی 500 امیدواروں میں سے 30 امیدواروں کو شارٹ لسٹ کر کے انٹرویو کے لیے بلایا گیا پہلا دن کیسا رہا کمرہ انٹرویو سے واقف حال ذرائع نے جیوے پاکستان ڈاٹ کام کو بتایا کہ خود کو اس اہم عہدے کے
لیے اہل ثابت کرنے کا عزم لیے بہت سے امیدوار پراعتماد انداز میں آئے کچھ نہیں آئےکچھ نے 27 تاریخ کو پیش ہونے کا وقت مانگا جو انہیں دے دیا گیا انٹرویو لینے والی کمیٹی کا کورم مکمل ہوا ڈیجیٹل دور میں وزیر مملکت نے ڈیجیٹل حاضری لگائی یعنی آن لائن شمولیت اختیار کی امیدواروں کو تسلی بخش وقت دیا گیا سوال پوچھے گئے اور جواب دینے کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا وہ جتنی دیر چاہتے جواب دیتے رہے پورا موقع دیا گیا سب کو تسلی سے سنا گیا کچھ امیدوار جنہیں 26 نومبر کو پیش ہونا تھا وہ نہیں ائے اور 27 نومبر کو انے کا وقت مانگا ہے جو انہیں فراہم کیا گیا ہے
کہ وہ چاہیں تو 27 نومبر کو پیش ہو سکتے ہیں دونوں دن دروازے کھلے رہیں گے اور انٹرویوز لینے والے ان کا انتظار کریں گے تلاش کمیٹی کو ایک ایسے کوہ نور ہیرے کی تلاش ہے جو پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے معاملات کو عمدگی سے سنبھال سکے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کو کامیابیوں کی شاہراہ پر گامزن رکھتے ہوئے نئے سنگ میل عبور کر سکے یقینی طور پر امیدواروں کے لیے بہت سی سفارشات اور دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی اور ان کے تمام ساتھی ممبران نے ایک چیز کو واضح کر دیا ہے کہ کسی دباؤ اور سفارش کو قبول نہیں کیا جائے گا اور فیصلہ میرٹ پر ہوگا کیونکہ یہ اگلی نسلوں کے معاملات کو سنوارنے کا سوال ہے نوجوان پاکستان کا اثاثہ اور مستقبل ہیں ان کے مستقبل کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا ۔
salik majeed editor jeeveypakistan.com Karachi

================================
ضیاالحق چیئرمین ایچ ای سی کی دوڑ سے دستبردار، تین امیدواروں میں مقابلہ
کراچی(سید محمد عسکری) ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے چیئرمین کے عہدے کیلئے ایک مضبوط امیدوار ڈاکٹر ضیاالحق نے چیئرمین کے عہدے کی دوڑ چھوڑتے ہوئے انٹرویو کے عمل میں شرکت سے معذوری ظاہر کردی ہےاس طرح چیئرمین کے عہدے کے لیے اب تین امیدواروں میں سخت مقابلے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے جن میں سندھ سے ڈاکٹر سروش حشمت لودھی، اسلام آباد سے ڈاکٹر نیاز احمد اور پنجاب سے ڈاکٹر محمد علی شاہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر ضیاالحق جو خیبر میڈیکل کالج پشاور کے وائس چانسلر ہیں پہلے ہی ہائر ایجوکیشن کمیشن میں چار برس کے لیے ایگزیکٹو ڈائریکٹر (ای ڈی) مقرر ہوچکے ہیں تاہم ان کا نوٹیفکیشن جاری ہونا باقی ہے۔ پیر کو وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو لکھے گئے خط میں ڈاکٹر ضیاالحق نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر تعلیم کی سربراہی میں سرچ کمیٹی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چئیرمین کے عہدے کے لیے 500 سے زیادہ امیدواروں میں میں سے شارٹ لسٹ کرتے ہوئے میرا نام 30 امیدواروں میں شامل کیا جس کا میں تہہ دل سے شکر گزار ہوں اور میں اس سرچ کمیٹی پر بھرپور اعتماد کرتا ہوں تاہم میرا انتخاب ایچ ای سی میں بطور ای ڈی کیا جا چکا ہے لہذا یہ میرے لیے اخلاقی طور پر مناسب اور نہ ہی انتظامی طور پر بہتر ہوگا کہ میں ای ڈی منتخب ہونے کے بعد چئیرمین ایچ ای سی کے عہدے کے لیے انٹرویو میں شرکت کروں اس سے چیرمین کے انتخاب میں ممکنہ تاخیر یا ابہام پیدا ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے چناچہ میں بطور امیدوار چیرمین ایچ ای سی اپنا نام واپس لیتا ہوں۔ خط میں ڈاکٹر ضیاالحق نے ہائر ایجوکیشن کمیشن میں دو اہم ترین اسامیوں پر بروقت تقرری کے عمل کو بہترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں اس عمل کو ادارہ جاتی شفافیت، استحکام اور گڈ گورننس کے مفاد میں سمجھتا ہوں اور میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خدمت کے لیے اپنے مکمل عزم کا اعادہ کرتا ہوں اور اس کے ذریعے پاکستان کی تعلیمی برادری لگن، دیانتداری، اور قومی جذبے کے اٹل جذبے کے ساتھ کمیشن کے اصلاحاتی ایجنڈے میں بامعنی تعاون کرنے کا منتظر ہوں۔ ادہر وقاقی وزارت تعلیم کی سیکشن افسر کرشمہ تمام 30 امیدواروں کو انٹرویوز کے خطوط جاری کردئیے ہیں جن میں ڈاکٹر سروش حشمت لودھی، ڈاکٹر نیاز احمد، ڈاکٹر محمد علی شاہ، ڈاکٹر مدد علی شاہ، ڈاکٹر ضیاء الحق، ڈاکٹر سلیم رضا سموں، ڈاکٹر نیاز احمد، ڈاکٹر حبیب، ڈاکٹر جمیل احمد، ڈاکٹر ضیا القیوم، ڈاکٹر حیدر عباس ، ڈاکٹر روبینہ فاروق، ڈاکٹر ظہور بازئی، ڈاکٹر بشیر احمد، ڈاکٹر حسن شیر، ڈاکٹر زکریہ زاکر، ڈاکٹر گل زمان، ڈاکٹر حافظ محمد اسلم ملک، ڈاکٹر محمد طفیل، ڈاکٹر بخت جہاں، ڈاکٹر خالد حفیظ، ڈاکٹر مسعود بٹ، ڈاکٹر سرفراز خورشید، ڈاکٹر بشیر احمد، ڈاکٹر سلمان طاہر، ڈاکٹر محمد ادریس، ڈاکٹر محمد افضال، ڈاکٹر یاسر ایاز، اور ڈاکٹر محمد عبدالقدیر شامل ہیں۔ چیرمین ایچ ای سی کے لیے امیدواروں کے انٹرویوز 26 اور 27 نومبر کو وفاقی وزارت تعلیم اسلام آباد کے دفتر میں ہوں گے۔
===========================
چیئرمین ایچ ای سی، چار امیدواروں میں سخت مقابلہ کی توقع
کراچی(سید محمد عسکری) ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان میں چار ماہ بعد مستقل چیئرمین کی تعیناتی کے لیے ستائیس امیدوار چھبیس اور ستائیس نومبر کو انٹرویوز دے رہے ہیں۔ اس پورے عمل کے دوران چند امیدوار پس پردہ رابطوں، سیاسی اثرانداز ہونے کی کوششوں اور سفارشات کے استعمال میں بھی مصروف دکھائی دیتے ہیں جو کہ روایتی طور پر ایسے اہم تقرری مراحل میں دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کے برعکس سرچ کمیٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اس بار عمل کو مکمل طور پر میرٹ، شفافیت، اور مقابلے کی بنیاد پر آگے بڑھانے کے لیے نہایت پُرعزم ہیں۔ ان کا واضح مؤقف ہے کہ کسی قسم کا دباؤ یا غیر ضروری اثر قبول نہیں کیا جائے گا اور فیصلے پیشہ ورانہ معیار کے مطابق ہی ہوں گے۔ یہ طرز عمل پورے تعیناتی عمل کی ساکھ کو مضبوط کرتا ہے اور پالیسی سطح پر اعتماد سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگرچہ مجموعی طور پر 500 امیدواروں میں سے صرف تیس امیدواروں کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے تاہم ماہرین اس عمل میں اصل مقابلہ چند نمایاں شخصیات کے درمیان دیکھ رہے ہیں۔ سندھ سے ڈاکٹر سروش حشمت لودھی، اسلام آباد سے قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد، پنجاب سے جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ، اور حال ہی میں ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مقرر ہونے والے ڈاکٹر ضیا الحق مضبوط امیدوار تصور کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی متعدد قابل ذکر شخصیات اس دوڑ میں شامل ہیں جن میں ڈاکٹر مدد علی شاہ، ڈاکٹر سلیم رضا سموں، ڈاکٹر حبیب، ڈاکٹر جمیل احمد، ڈاکٹر ضیا القیوم، ڈاکٹر حیدر عباس، ڈاکٹر روبینہ فاروق، ڈاکٹر ظہور بازئی، ڈاکٹر بشیر احمد، ڈاکٹر حسن شیر، ڈاکٹر زاکرزکریہ، ڈاکٹر گل زمان، ڈاکٹر حافظ محمد اسلم ملک، ڈاکٹر محمد طفیل، ڈاکٹر بخت جہاں اور دیگر امیدوار شامل ہیں۔ چیئرمین کا عہدہ انتیس جولائی کو اس وقت خالی ہوا تھا جب ڈاکٹر مختار احمد کی توسیع شدہ مدت پوری ہوگئی تھی۔ اب یہ تقرری نہ صرف ایچ ای سی کے ادارہ جاتی تسلسل بلکہ ملک کی اعلی تعلیم کی آئندہ سمت کے تعین میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔
============================
مقبوضہ کشمیر: میڈیکل کالج میں مسلم طلبہ کے داخلوں پر ہندو انتہا پسندوں کی مسلم دشمنی بے نقاب
مقبوضہ جموں و کشمیر میں شری ماتا وشنو دیوی میڈیکل کالج میں داخلوں نے ایک بار پھر ہندو انتہا پسندوں کی مسلم دشمنی بے نقاب کر دی۔
مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے واضح کیا ہےکہ داخلے مکمل طور پر میرٹ کی بنیاد پر ہوئے ہیں، مذہب پر نہیں۔
عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ اگر بی جے پی کو مسلم طلبہ سے اتنا ہی مسئلہ ہے تو وہ اس میڈیکل کالج کو اقلیتی ادارے کا درجہ دے دے، مسلم طلبہ تعلیم کے لیے بنگلا دیش یا ترکی چلے جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق اس نئے میڈیکل کالج کے پہلے بیچ میں مقبوضہ کشمیر کے حصے کی 50 سیٹوں میں سے 42 پر مسلمان طلبہ کو میرٹ پر داخلہ ملا تھا تاہم اس پر ہندو انتہا پسند جماعتوں بی جے پی، وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے احتجاج کرتے ہوئے مسلمان طلبہ کے داخلے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہندو انتہا پسندوں کا کہنا ہےکہ داخلوں میں ہندو طلبہ کو ترجیح ملنی چاہیے۔
===========================
زکریا یونیورسٹی ملازمین کو ایمپلائی کارڈ لازمی پہننے کی ہدایت
شناختی نظام کو مضبوط کرنے ، سکیورٹی بہتر بنانے کے لئے انتظامی ہدایات جاری
ملتان (خصوصی رپورٹر)زکریا یونیورسٹی ملتان نے سکیورٹی اور نظم و ضبط کو بہتر بنانے کے لئے تمام اساتذہ، افسر اور ملازمین کو ڈیوٹی کے دوران ایمپلائی کارڈ لازمی طور پر پہننے کی ہدایت جاری کر دی ہے ۔ رجسٹرار آفس سے جاری کردہ سرکلر میں کہا گیا ہے کہ متعدد ملازمین دورانِ فرائض اپنے ایمپلائی کارڈ نہیں پہنتے ، جس کے باعث شناخت میں مشکلات پیش آتی ہیں اور ادارے کی مجموعی سکیورٹی متاثر ہو سکتی ہے ۔سرکلر کے مطابق گریڈ ایک سے لے کر 21 تک تمام اساتذہ، افسر اور ملازمین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ یونیورسٹی کے داخلی و خارجی مقامات سمیت ڈیوٹی کے دوران ہر وقت اپنا ایمپلائی کارڈ نمایاں طور پر پہنیں۔ اس اقدام کا مقصد یونیورسٹی میں شناختی نظام کو مؤثر بنانا اور سکیورٹی اقدامات کو مضبوط کرنا ہے ۔مزید ہدایت دی گئی ہے کہ ڈینز، پرنسپلز، ڈائریکٹرز، چیئرپرسنز، ایس ایم ٹیز، وارڈنز، ایڈمنسٹریٹو ہیڈز اور برانچ افسر اپنے ماتحت عملے کی سخت نگرانی کریں اور یقینی بنائیں کہ تمام افراد مذکورہ ہدایات پر مکمل عمل کریں۔یہ احکامات وائس چانسلر کی منظوری سے جاری کئے گئے ہیں اور ان پر مکمل عمل درآمد یونیورسٹی کے نظم و ضبط اور سکیورٹی کیلئے ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔























