کیس نمبر 09: وہ پراسرار معاملہ جو فائلوں کے ڈھیر میں دفن ہو کر رہ گیا
تحریر: ایک تحقیقاتی رپورٹ
انسپکٹر کمال نے اپنی چائے کا آخری گھونٹ پیٹ کے میز پر رکھی ہوئی بے ڈھنگی سی فائل کی طرف دیکھا۔ فائل کے پیلا پڑے ہوئے سرورق پر سرخ mürekkap سے لکھا ہوا تھا: “کیس نمبر 09″۔ یہ کوئی نئی فائل نہ تھی، نہ ہی اس میں حالیہ کوئی پیش رفت ہوئی تھی۔ یہ تو دھول کھاتی ہوئی، وقت کے بھولے ہوئے کونے میں پڑی ایک ایسی معما تھی جس نے اس کے کیریئر کے سب سے باصلاحیت انسپکٹر کو اپنے جال میں جکڑ رکھا تھا۔
یہ معاملہ تھا 1995 کا، جب انسپکٹر کمال ابھی نئے نئے تھانے میں تعینات ہوئے تھے۔ ایک سرد رات کو پرانی حویلی کے مالک، نواب صاحب، کے گھر سے ایک عجیب و غریب چوری کی اطلاع آئی تھی۔ چوری کا نشانہ بنا تھا نواب صاحب کا وہ کمرہ جسے وہ “کتبہ خانہ” کہتے تھے۔ لیکن اس کتبہ خانے سے کوئی قیمتی کتاب یا نوادرات نہیں چرائے گئے تھے۔ چوری ہوا تھا محض ایک پرانا، لکڑی کا بنا ہوا ایک صندوقچہ جس کے بارے میں خاندان کے بزرگ کہتے تھے کہ اس میں ان کے آباؤ اجداد کا ایک قلمی نسخہ محفوظ ہے۔ یہ کوئی مالیاتی طور پر قیمتی شے نہ تھی، مگر نواب صاحب کے لیے اس کی sentimental قیمت آسمان سے باتیں کرتی تھی۔
شروع میں تھانے کے دوسرے افسران نے اس معاملے کو معمولی سمجھا۔ چوروں کا نشانہ عموماً زیورات یا نقدی ہوا کرتے ہیں، نہ کہ پرانے کاغذات۔ مگر انسپکٹر کمال کی نظر میں اس واقعے کا ایک پراسرار پہلو تھا۔ انہوں نے تحقیقات شروع کیں۔
حویلی کے ملازمین کے انٹرویوز، مقامی لوگوں سے بات چیت، اور ہر ممکنہ سراغ کو ٹٹولنے کے بعد بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ کوئی finger prints نہیں، کوئی چشم دید گواہ نہیں، بس رات کی خاموشی میں گم ہو جانے والا ایک صندوقچہ۔ مگر انسپکٹر کمال نے ہار نہ مانی۔ انہیں محسوس ہوتا تھا کہ اس صندوقچے کے پیچھے کوئی بڑا راز چھپا ہوا ہے۔
انہوں نے نواب صاحب سے اس قلمی نسخے کے بارے میں مزید دریافت کیا۔ بوڑھے نواب صاحب نے گہری سانس لے کر بتایا، “بیٹا، یہ کوئی عام دستاویز نہیں تھی۔ یہ ہمارے خاندان کی ایک پرانی داستان تھی، جس میں 1857 کی جنگ آزادی کے دوران ہمارے ایک بزرگ کی بہادری کے واقعات درج تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی، اس میں ایک ایسے خزانے کا bhi ذکر تھا جو انہوں نے انگریزوں سے چھپا کر رکھا تھا۔ خزانہ تو شاید ایک کہانی تھی، مگر اس دستاویز میں خاندان کے کچھ ایسے راز درج تھے جنہیں دنیا کے سامنے آنے سے بچانا ضروری تھا۔”
یہ وہ لمحہ تھا جب “کیس نمبر 09” ایک معمولی چوری کے مقدمے سے کہیں بڑھ کر ایک پراسرار ڈرامے میں بدل گیا۔ کیا چور کو اس راز کے بارے میں پتہ تھا؟ کیا یہ کوئی اندرونی آدمی تھا؟ کیا خاندان کا کوئی دشمن اس صندوقچے کو blackmail کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا؟
انسپکٹر کمال نے خاندان کی تاریخ کو ٹٹولنا شروع کیا۔ انہیں پتہ چلا کہ نواب صاحب کے چچا زاد بھائی، جنہیں سب “ظفر میاں” کے نام سے جانتے تھے، ان کا خاندان کے ساتھ پرانا جھگڑا تھا۔ وہ جائیداد کے ایک تنازعے پر نواب صاحب سے نالاں تھے۔ انسپکٹر کمال نے ظفر میاں پر نظر رکھنی شروع کی، مگر کوئی ثبوت نہ مل سکا۔

پھر ایک اور twist سامنے آیا۔ ایک پرانے آرکائیوز سے انسپکٹر کمال کو پتہ چلا کہ نواب صاحب کے دادا کو ایک انگریز افسر کے قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن خاندان والے ہمیشہ اسے ایک جعلی مقدمہ قرار دیتے رہے۔ کیا اس قلمی نسخے میں اس مقدمے کی کوئی حقیقت درج تھی؟ کیا کوئی اس حقیقت کو دنیا کے سامنے آنے سے روکنا چاہتا تھا؟
تحقیقات کے دھانے پھیلتے گئے۔ انسپکٹر کمال نے ایک بزرگ historian سے رابطہ کیا جو اس علاقے کی تاریخ کا ماہر تھا۔ اس historian نے انہیں بتایا کہ نواب صاحب کے خاندان کا تعلق دراصل ایک ایسی تحریک سے تھا جو انگریزوں کے خلاف خفیہ طور پر کام کرتی تھی۔ یہ قلمی نسخہ شاید اس تحریک کے کچھ اور اراکین کے نام بھی contain کرتا تھا۔
اب صورت حال اور بھی سنگین ہو گئی۔ یہ محض ایک چوری کا معاملہ نہیں رہا تھا، بلکہ یہ ایک قومی ورثے سے چھیڑ چھاڑ کا معاملہ بن چکا تھا۔ ممکن تھا کہ چور اس دستاویز کو کسی غیر ملکی ایجنٹ کے ہاتھوں فروخت کرنا چاہتا ہو۔
انسپکٹر کمال نے اپنی پوری ٹیم کو لگا دیا۔ انہوں ہر اس شخص کی movement کو چیک کیا جو اس خاندان یا اس کی تاریخ سے وابستہ تھا۔ انہیں ایک نامزد ملزم بھی ملا، ایک پرانا ملازم جسے نواب صاحب نے کچھ عرصہ پہلے چھٹی دے دی تھی۔ اس کے پاس سے کچھ چوری کے دیگر سامان کے ثبوت ملے، مگر وہ صندوقچہ کہیں نہیں ملا۔
پھر، ایک دن، ایک anonymous خط ملا۔ اس میں لکھا تھا، “اپنی تلاش روک دو۔ یہ تمہارے اپنے فائدے کے لیے ہے۔ یہ معاملہ تمہاری سمجھ سے بہت بڑا ہے۔” خط میں کوئی پتہ نہیں تھا، کوئی نشان نہیں تھا۔ یہ انسپکٹر کمال کے لیے ایک warning تھی۔
لیکن انسپکٹر کمال ڈرنے والوں میں سے نہ تھے۔ انہوں نے اپنی تحقیقات اور تیز کر دیں۔ انہیں ایک پرانے کتبے کی دکان سے ایک اور clue ملا۔ دکان کے مالک نے بتایا کہ ایک عجیب سی شخصیت نے کچھ عرصہ پہلے اسی قسم کے ایک پرانے صندوقچے کے بارے میں دریافت کیا تھا۔
رفتہ رفتہ، تمام threads ایک نقطے پر جمع ہونے لگے۔ ظفر میاں کا ایک پراسرار سفر، anonymous خط لکھنے والے کی ممکنہ شناخت، اور وہ پرانا ملازم جس کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ دراصل ظفر میاں کا ہی آدمی تھا۔
آخرکار، انسپکٹر کمال نے ایک چھاپے مار operation کا پلان بنایا۔ انہیں information ملی تھی کہ چور اسی شہر کے ایک پرانے ویران گودام میں چھپا ہوا ہے۔ رات گئے، جب چاند بادلوں میں چھپا ہوا تھا، انسپکٹر کمال اپنی ٹیم کے ساتھ اس گودام میں داخل ہوئے۔
اندر اندر، مٹی اور پھپھوندی کی بو تھی۔ ایک کونے میں ایک مدھم سی روشنی دکھائی دی۔ جیسے ہی وہ قریب پہنچے، انہوں نے دیکھا کہ ایک آدمی، جس کے چہرے پر scarf لپٹا ہوا تھا، وہی مطلوبہ صندوقچہ کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔

وہ آدمی چونکا۔ اس نے صندوقچے کو اٹھایا اور پیچھے کی طرف بھاگنے لگا۔ ایک brief chase کے بعد، پولیس نے اسے پکڑ لیا۔ جب اس کے چہرے سے scarf ہٹائی گئی تو وہ کوئی اور نہیں، بلکہ نواب صاحب کا وہی پرانا confidential secretary نکلا، جس پر کسی کو شک تک نہیں تھا۔ وہ دراصل نواب صاحب کے خاندان کا ایک distant relative تھا اور اسے خیال تھا کہ اس قلمی نسخے میں درج خزانے کا راز اس کا حصہ ہے۔ وہ اسے بیچ کر امیر بننا چاہتا تھا۔

صندوقچہ بحال ہو گیا۔ قلمی نسخہ محفوظ تھا۔ ملزم کو عدالت کے حوالے کر دیا گیا۔ مقدمہ حل ہو گیا۔
مگر انسپکٹر کمال کے دل میں ایک خلش رہ گئی۔ کیا واقعی معاملہ اتنا ہی سادہ تھا؟ کیا وہ anonymous خط لکھنے والا واقعی یہی secretary تھا؟ انسپکٹر کمال کو یقین تھا کہ اس معاملے کی تہہ میں ابھی بھی کچھ اور ہے۔ شاید وہ قلمی نسخہ وہ سب کچھ نہیں بتا رہا تھا جو اس میں درج تھا۔ شاید اس میں کوئی ایسا کوڈ تھا جسے اب تک کوئی نہیں سمجھ پایا تھا۔
اسی لیے، آج بھی، جب بھی انسپکٹر کمال کے پاس وقت ملتا ہے، وہ اس پیلی پڑتی ہوئی فائل “کیس نمبر 09” کو کھولتے ہیں، اس کے صفحات پلٹتے ہیں، اور اس پراسرار معما کے ان پہلوؤں پر غور کرتے ہیں جو شاید کبھی حل نہ ہو سکیں۔ کیونکہ کچھ معاملے ایسے ہوتے ہیں جو فائلوں میں بند ہو کر بھی زندہ رہتے ہیں، اور کچھ سچائیاں ایسی ہوتی ہیں جو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو کر رہ جاتی ہیں۔























