بھارت کی شمالی ریاست ہماچل پردیش کے ایک قبائلی گاؤں شیلائی میں ہاٹی قبیلے کے دو بھائیوں نے ایک ہی عورت سے شادی رچالی، جس میں مقامی لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق، یہ شادی علاقے میں رائج قدیم رسم و رواج کے مطابق عمل میں آئی، جس میں عورت کا بیک وقت دو یا اس سے زیادہ شوہروں کے ساتھ شادی کرنا قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ شادی کی تقاریب تین دن تک جاری رہیں اور اس موقع پر روایتی لوک موسیقی اور رقص کا اہتمام بھی کیا گیا۔
دلہن سنیتا چوہان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ فیصلہ مکمل آزادی سے کیا اور وہ اس رشتے کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ شادی کے دولہا پرادیپ اور کپیل نیگی بھائی ہیں، جن میں سے ایک سرکاری ملازم جبکہ دوسرا بیرونِ ملک ملازمت کرتا ہے۔
پرادیپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ قدم مقامی روایت کے مطابق اٹھایا اور اس پر انہیں کوئی پچھتاوا نہیں بلکہ فخر ہے۔ ان کے بھائی کپیل کا بھی کہنا تھا کہ یہ فیصلہ باہمی رضامندی سے ہوا ہے اور وہ اپنی شریکِ حیات کو ایک مضبوط اور مربوط خاندان کا حصہ بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔
یہ رسم ہاٹی قبیلے میں صدیوں سے چلی آ رہی ہے، جس کا مقصد عموماً وراثتی زمین کی تقسیم سے بچاؤ اور خاندان کو متحد رکھنا ہوتا ہے۔ تاہم، تعلیم اور سماجی تبدیلیوں کے باعث ایسی شادیاں اب ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہو چکی ہیں۔
ماہرین کے مطابق، اس روایت کی جڑیں معاشی و معاشرتی ضروریات میں پیوست ہیں۔ قبائلی معاشرے میں ایک ہی خاتون سے کئی بھائیوں کی شادی کا مقصد مشترکہ زمین کی تقسیم سے بچاؤ، خاندانی اتحاد، اور زرعی زندگی کو بہتر طریقے سے چلانا تھا۔
ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کے سرحدی علاقوں میں موجود ہاٹی قبیلے کی یہ رسم اب بھی کچھ دیہات میں دیکھی جا سکتی ہے، خاص طور پر ضلع سرمور کے 450 گاؤں میں، جہاں قبیلے کے تقریباً ایک لاکھ افراد آباد ہیں۔
یہ رسم مقامی طور پر “جوجدارا” کہلاتی ہے اور شادی کی تقریب میں مخصوص روایتی رسوم جیسے “سینج” اور دعائیہ بھجن بھی شامل ہوتے ہیں، جنہیں مقامی پنڈت انجام دیتے ہیں۔
کندریا ہاٹی سمیٹی کے جنرل سیکریٹری کندن سنگھ شاستری نے وضاحت کی کہ یہ رواج ہزاروں سال پرانا ہے اور اس کا مقصد معاشرتی ہم آہنگی اور معاشی استحکام کو فروغ دینا تھا، اگرچہ آج کے دور میں اس کی پیروی کم ہو گئی ہے۔


























