افغان مہاجرین کی واپسی: پاکستان کے لیے نیا چیلنج

کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہونے اور امریکی افواج کی واپسی کے بعد، افغانستان کے چھ لاکھ سے زائد شہری پاکستان کی سرحد پار کر کے یہاں پہنچ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کسی تیسری ملک میں پناہ کے منتظر تھے اور انہوں نے ویزا اور سفر کی اجازت کے لیے درخواستیں جمع کروائی ہوئی تھیں۔ تاہم، امریکہ نے ان منتظر افغان درخواست داروں کے لیے اپنی پالیسی میں تبدیلی کر دی ہے، جس کے بعد اب ان کے لیے امریکہ جانے کے راستے بند ہو گئے ہیں۔ اس صورتحال نے پاکستان کے سامنے ایک نیا بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے کہ وہ ان افغان شہریوں کے ساتھ کیا سلوک کرے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے حال ہی میں واضح کیا ہے کہ ان افغان شہریوں کی حیثیت غیر قانونی ہو گی اور قریبی مستقبل میں انہیں افغانستان واپس بھیجنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان انہیں یہاں رہنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس طرح، چھ لاکھ افغان شہریوں کو افغانستان واپس جانا ہو گا۔ یہ فیصلہ نہ صرف ان مہاجرین کے مستقبل کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، بلکہ پاکستان کے لیے بھی ایک بھاری ذمہ داری بن گیا ہے۔

طورخم سرحد پر کشیدگی

طورخم سرحد پر پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان گزشتہ رات شروع ہونے والی کشیدگی بدستور برقرار ہے۔ پاکستانی فورسز نے افغان اہلکاروں کو سرحد کے متنازع علاقے میں چیک پوسٹ تعمیر کرنے سے روکا، جس پر افغان فورسز نے مورچے سنبھال لیے۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق، بارڈر پر تجارتی سرگرمیاں اور پیدل آمدورفت تاحال معطل ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ رات طورخم سرحدی گزرگاہ پر حالات اس وقت کشیدہ ہوئے جب افغان فورسز سرحد کے متنازع علاقے میں چیک پوسٹ تعمیر کر رہی تھیں۔ پاکستانی فورسز نے افغان اہلکاروں کو تعمیراتی کام سے روکا، جس پر افغان فورسز نے مورچے سنبھال لیے۔ سرحدی کشیدگی کے باعث علاقے میں سیکورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے، جبکہ دونوں ممالک کے درمیان بارڈر مکمل طور پر بند ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی تاریخی پس منظر

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ سے ہی پیچیدہ رہے ہیں۔ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی افغانستان نے پاکستان کی سرحدوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ افغانستان نے پشتونستان کے نام سے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا، جو دونوں ممالک کے درمیان تنازع کا باعث بنا۔ 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد، پاکستان نے افغان مجاہدین کی حمایت کی، جس نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔

1990 کی دہائی میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد، پاکستان نے طالبان کو تسلیم کرنے والے چند ممالک میں سے ایک تھا۔ تاہم، 2001 میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد، پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعاون کیا اور طالبان حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کے بعد سے، افغانستان میں امن و استحکام کی کوششیں جاری ہیں، لیکن طالبان کی طاقت میں اضافہ ہوتا رہا۔

امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد کی صورتحال

2021 میں امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج کو مکمل طور پر واپس بلا لیا، جس کے بعد طالبان نے دوبارہ کابل پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس کے بعد سے، افغانستان میں ایک نئی حکومت قائم ہوئی ہے، لیکن ملک میں معاشی اور سماجی بحران بدستور برقرار ہے۔ افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے ملک چھوڑنے کی کوشش کی، جن میں سے بہت سے لوگ پاکستان پہنچ گئے۔

ٹرمپ کی دوسری مدت اور نئی امریکی پالیسی

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت میں، امریکہ نے افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی میں کئی تبدیلیاں کیں۔ انہوں نے افغانستان سے فوجیوں کی واپسی کا عمل تیز کر دیا اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا۔ تاہم، افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد، امریکہ نے افغان شہریوں کے لیے اپنی پناہ گزین پالیسی میں تبدیلی کر دی ہے۔ اب، افغان شہریوں کے لیے امریکہ جانے کے راستے بند ہو گئے ہیں، جس نے پاکستان کو ایک نئے بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

پاکستان کی معیشت پر اثرات

افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ پاکستان کی معیشت پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ پاکستان پہلے ہی معاشی مسائل کا شکار ہے، اور چھ لاکھ افغان شہریوں کی واپسی کے عمل میں بھاری اخراجات آ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، سرحدی کشیدگی اور تجارتی سرگرمیوں کے معطل ہونے سے بھی پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

آخر میں

افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ نہ صرف انسانی المیہ ہے، بلکہ یہ پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے اور اس بحران کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی مدد درکار ہو گی۔ پاکستان کو اپنی معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہوں گے، تاکہ اس بحران کے اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے۔

رپورٹ-سالک مجید-جیوے پاکستان ڈاٹ کام