
سچ تو یہ ہے،
بشیر سدوزئی،
جواہر لعل نہرو فخر سے پنڈت لکھتا، کیوں کہ وہ کشمیری پنڈت تھا، اس کے والدین نے 19ویں صدی میں کشمیر سے ہندوستان ہجرت کی تھی۔ 14 فروری 1935ء کو الموڑا جیل میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنی ‘سوانح عمری’ مکمل کی جس میں اس نے کشمیر کا بڑی حسرت، محبت اور فخر سے ذکر کیا۔ ایک جگہ لکھا کہ “میرا خاندان کشمیر کے خوب صورت سرسبز پہاڑوں سے اتر کر ہندوستان کے میدانی علاقوں میں آیا”۔ کشمیر کے ساتھ نہرو کی محبت ساری زندگی اس کے ہر عمل سے چھلکتی رہی۔ وہ کشمیر اور کشمیریوں کو کبھی نہیں بھولا۔ شیخ عبداللہ کے ساتھ اس کی دوستی کا یہی مقصد تھا کہ وہ کشمیر کا مقبول لیڈر تھا اور اس کے تواسط سے نہرو کشمیر پر قبضہ کا کا خواب دیکھ رہا تھا۔ نہرو کو معلوم تھا کہ وہ گاندھی کے بعد کانگریس کا سنئیر لیڈر ہے۔ گاندھی مذہبی پیشوا ہے اس لیے اس نے وزیر اعظم نہیں بننا، وہی ہی بھارت کا وزیراعظم بننے والا ہے لیکن سب کچھ چھوڑ کر آخر دم تک کشمیر کے پیچھے پڑا رہا اور ایسے بھی شواہد ہیں کہ نہرو کو احساس ہوتا کہ کشمیر اسے نہیں مل رہا تو وہ روتا تھا۔ کشمیر کے ساتھ اس کے تعلق اور طلب کا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈوگرہ نے کشمیر میں داخلے کے لیے پرمنٹ(ویزہ) نہیں دیا تو وہ بلا اجازت داخل ہوا اور گرفتار کر لیا گیا بلآخر وائسرائے ہند لوئس ماؤنٹ بیٹن نے مداخلت کر کے اسے رہائی دلائی اور کشمیر بدر کر دیا گیا۔ لیکن نہرو پھر بھی چین سے نہیں بیٹھا وہ کشمیریوں اور کشمیر کے ساتھ چپٹا رہا۔ ڈوگرہ حکمران کو رام کرنے کے لیےکبھی لوئس ماؤنٹ بیٹن اور کبھی گاندھی کو کشمیر بھیجا۔ بلآخر نہرو کشمیر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی بھی کشمیر سے محبت کرتی تھی اور اب نہرو کی چوتھی نسل پرینکا اور راہل گاندھی بھی کشمیر آ کر کشمیریوں سے مخاطب ہوتے ہیں اور کہتے ہیں! “ہم آپ کا خون ہیں” ۔ سری نگر اسمبلی میں اندرونی خود مختاری کی بحالی کی کھلی حمایت کر کے ان بہن بھائی نے بھارت کے طول و عرض میں کانگریس کی سیاست کا بہت بڑا رسک لیا ہے۔ بھاجپا پورے ہندوستان میں کانگریس کے خلاف ڈول پیٹ رہی ہے کہ کانگریس بھارت میں دو پرچم بلند کر کے ملک کو دولخت کرنا چاتی ہے۔ لیکن پنڈت جواہر لعل نہرو کی نسل ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ نہ ہی کشمیریوں اور کشمیر کے ساتھ نسلی محبت کا اظہار کرنے میں لَیت و لَعَلَّ سے کام لیتی ہے۔۔ مسلم لیگی قیادت نے 1947ء میں بھی کشمیر کے مسلے میں اس نوعیت کی گرم جوشی نہیں دیکھائی تھی جس طرح کانگریس کی قیادت تڑپ رہی تھی اور نہ آج ان کے دلوں میں کشمیریوں کے مصائب کا کوئی فکر لاحق ہے۔ لیاقت علی خان نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ کشمیر کی پہاڑیوں کو کیا کرنا حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ لیں گے۔۔” نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم” میاں نواز شریف کیسے کشمیر النسل ہیں کہ ان کی زبان پر کبھی کشمیر اور کشمیری نہیں آتے۔ بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے مرے جا رہے ہیں تڑپ رہے ہیں۔ لگتا ہے صرف تجارت ہی نہیں اس حوالے سے ان کو کوئی خاص مسئلہ ہے، کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے کے وہ بھارت کے ساتھ دوستی کا دم نہ بھریں۔ لیکن اس دوستی میں کشمیر اور کشمیریوں کا کبھی نام نہیں لیتے۔ کبھی ان کے مسائل پر بات نہیں کرتے اور کبھی مودی کی مذمت نہیں کرتے حتی کہ بلاول جتنی ہمت بھی نہیں دیکھاتے کہ اتنا ہی کہہ دیں کہ پہلے کشمیریوں کے ساتھ انصاف کروں پھر دوستی کرتے ہیں۔ پڑوسیوں کے ساتھ دوستی کی اتنی ہی ضرورت ہے تو دو اسلامی ممالک افغانستان اور ایران بھی ہیں، صرف بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے اس قدر بے چینی کیوں؟۔۔ کبھی انہیں شنگھائی تنظیم اجلاس میں مودی کا پاکستان نہ آنے پر افسوس ہوتا ہے اور کبھی جاتی عمرہ میں جا کر کہتے ہیں کہ ہم ایک ہیں بس بیچ میں لیکیر ڈال دی گئی۔ کبھی کشمیریوں کے قاتل مودی کو گھر بلاتے ہیں اور کبھی بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کو فروغ دینے کی باتیں کرتے ہیں۔ میاں صاحب نے تازہ بیان لندن میں دیا ہے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ” پاکستان کے تعلقات ہمسایوں کے ساتھ بھی اچھے ہونے چاہئیں، بھارت کی ٹیم کو پاکستان ضرور آنا چاہیے تھا۔ بھارت کے ساتھ ماضی کے تعلقات سدھارنے کی ضرورت ہے، اچھی بات ہوتی بھارتی ٹیم پاکستان آکر کھیلتی، امید ہے جلد ایسا وقت آئے گا۔ بھارت کے ساتھ ماضی میں تعلقات اگر بگڑے ہیں تو انہیں سنوارنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات سنوارے جا سکتے ہیں مجھے کوئی مشکل نظر نہیں آتی، ہمیں کسی سے تعلقات خراب رکھ کے کرنا کیا ہے؟”۔۔۔ میاں صاحب نے کبھی یہ بھی سوچا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کبھی ٹھیک کیوں نہیں ہوئے۔ جو تھوڑے بہت تھے بھئ وہ خرابی کی اس انتہا کو کیوں پہنچے۔ بھارتی قیادت نے پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ وہ اکھنڈ بھارت‘ نظریے کے تحت بھارتی کی سرحدوں کو تین صدی قبل مسیح کی ریاست ہندوستان بنانا چاہتے ہیں۔ جب چندر گپت موریہ ہندوستان کا حکمران تھا اور اس کی حکومت میں جنوبی، مشرقی اور وسطی ایشیا کے وہ ممالک شامل تھے جن میں ہندو ازم یا بدھ مت موجود تھا۔ مئی 2023ء کو ہندو توا نے پارلیمنٹ میں اکھنڈ بھارت کا نقشہ آویزاں کیا۔ جس میں انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، کشمیر، تبت، نیپال، بھوٹان، افغانستان، سری لنکا، برما، انڈو نیشیا اور ملائیشیا کے کچھ حصے شامل ہیں۔ آج بھارت کے ان پڑوسی ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی اگر مثالی دوستی اور بہتر تعلقات نہیں ہیں تو اس کی یہی وجوہات ہیں کہ دونوں جانب سے دل صاف نہیں۔ بھارت کی خواہش ہے کہ ان ملکوں کا نام و نشان ختم ہو جائے اور ان ممالک کو معلوم ہے کہ یہ ہمیں ہڑپ کرنے چاتا ہے۔ تو اچھے ہمسایہ کے تعلقات کیسے بحال ہوں گے۔ پاکستان کے ساتھ تو دوسرا مسئلہ ہے۔ اس پر قبضے کی خواہش کا اعلانیہ اظہار کیا جاتا ہے۔ 5 اگست 2019ء کو مودی سرکار نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم اور ریاست کو 2 حصوں میں تقسیم کیا تو اس پر شیو سینا کے رہنما سنجے راوت نے لوک سبھا میں کہا ” آج جموں و کشمیر لیا ہے، کل بلوچستان اور آزاد کشمیر لیں گے، مجھے وشواس (یقین) ہے دیس کے پردھان منتری (وزیر اعظم) اکھنڈ ہندوستان کا سپنا پورا کریں گے”۔ چلے مانتے ہیں کہ یہ انتہا پسند ہندو تنظیم کی سوچ ہے جو آج کی دنیا میں عملی طور پر پورا ہونا مشکل ہے۔ نواز شریف صاحب کس خاطر میں بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے اتنے پریشان ہیں۔ کیا وہ اس بات پر خوش ہیں کہ مودی ازم نے ایک لاکھ کشمیری نوجوان کو سری نگر کے گلی کوچے اور سڑکوں چوراہوں کھیتوں اور کھلیانوں میں گھیر گھیر کر گولیاں ماریں۔ یا اس بات کی دوستی کہ 13 ہزار سے زائد خواتین کو چار دیواری پامال کر کے بھارتی فوجیوں نے ریپ گیا۔ نواز شریف صاحب کو کبھی ایک لاکھ 24 ہزار یتیم بچے یاد نہیں آئے جو مقبوضہ کشمیر کے گاوں گاوں میں موجود ہیں۔ ان کو کٹھوعہ کی آٹھ سالہ بچی کی چیخیں بھی سنائی نہیں دیتی اور نہ کنن پوش پورہ کی 100 خواتین کے ساتھ بھارتی فوجیوں کی اجتماعی آبروریزی۔ 24 ہزار بیوائیں اور چھ ہزار آدھی بیوائیں یاد نہیں آتی۔ کشمیری سیاسی اسیران آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، نعیم احمد خان، آسیہ اندرابی، ایاز اکبر، معراج الدین کلوال، پیر سیف اللہ، فاروق احمد ڈار، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، شاہد الاسلام، مولوی بشیر احمد عرفانی، بلال صدیقی، ڈاکٹر حمید فیاض، مشتاق الاسلام، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، عبدالاحد پرہ، امیر حمزہ، ایڈووکیٹ میاں عبدالقیوم، ایڈووکیٹ نذیر احمد رونگا، ایڈووکیٹ محمد اشرف بٹ، انسانی حقوق کے وکیل خرم پرویز سمیت ہزاروں کشمیری اس وقت بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔ کے ساتھ ناروا سلوک پر کوئی تشویش نہیں۔ یہ لوگ غیرانسانی حالات میں ایسی جیلوں میں قید ہیں جہاں پہلے ہی گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں۔ جیلوں میں اُنہیں علاج معالجے اور مناسب خوراک سمیت تمام بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جا رہاہے یاسین ملک نے 15 روز سے بھوک ہڑتال کر رکھی ہے اور نواز شریف یا مسلم لیگی قیادت کا اس پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ بھارتی جیلوں میں قید کشمیری نظربندوں کے اہلخانہ کو ہمیشہ اپنے پیاروں کی سلامتی کی فکر لاحق رہتی ہے۔ لیکن ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔۔ کوئی تو ہو جو ان کو تسلی ہی دے دے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ پڑوسیوں کے درمیان اچھے تعلقات ہونا چاہئے اور کشمیریوں نے ہمیشہ پاک بھارت تعلقات کی بحالی اور مذاکرات کی حمایت کی ہے لیکن کشمیریوں کی جان اور کشمیر کے سودے بازی پر نہیں۔ اگر کشمیریوں کو انصاف نہیں ملتا تو نہ صرف پاک بھارت بلکہ خطے میں بھی امن قائم رہنا مشکل ہے۔
===================================

Sohaib Super Store
·
اجرک سوٹ 3 پیس
سندھی کڑاھی شرٹ دوپٹہ کڑھائی کے ساتھ
3,000/- روپے ……
( 03094386375 )
WhatsApp

8 رنگ والا بلوچی کڑاھی سوٹ
قیمت 4,000 روپے
( 03094386375 )
WhatsApp

Embroidery Ladies Suit
( 3,000/- )روپے
For Order Please Contact
( 03094386375 )
WhatsApp
=====================================


بیرون ملک بہترین تعلیم کے لیے کنسلٹنٹ سے رہنمائی حاصل کریں ،ابھی رابطہ کریں
بیرون ملک بہترین تعلیم کے لیے کنسلٹنٹ سے رہنمائی حاصل کریں ،ابھی رابطہ کریں۔
تفصیلات کے مطابق ایسے نوجوان طلبا طالبات جو بیرون ملک اعلی تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں اور بہترین انٹرنیشنل یونیورسٹیز اور کالجز میں داخلہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اسٹڈی ویزا یا اسٹوڈنٹ ویزے پر باہر جانا چاہتے ہیں انہیں کب کہاں کیسے داخلہ مل سکتا ہے

ان کی مطلوبہ کوالیفیکیشن کیا ہے کون سی دستاویزات درکار ہوتی ہیں مختلف یونیورسٹیز اور کالجز کی فیس کتنی ہے ادائیگی کیسے ہوتی ہے کتنے عرصے
کا کورس ہوتا ہے اور کتنے عرصے کا ویزا ملتا ہے جو اسٹوڈنٹ پاکستان سے جا کر باہر بڑھ رہے ہیں ان کے تجربات کیا ہیں جو بیرون ملک جانا چاہتے ہیں ان کو کیا تیاری کرنی چاہیے بہترین اعلی تعلیمی مواقع کہاں کہاں پر میسر ہیں پاکستانی اسٹوڈنٹس ان مواقع سے کب کیسے کہاں فائدہ اٹھا سکتے ہیں یہ اور اس طرح کے اور بہت سے سوالات کا جواب حاصل کرنے اور مستقبل کے کیریئر کی رہنمائی کے
لیے ہمارے پاکستان اور بیرون ملک موجود کنسلٹنٹ سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے ابھی رابطہ کریں اپنے کوائف فون نمبر اور ای میل جیوے پاکستان کے ای میل
Jeeveypakistan@yahoo.com
اور واٹس ایپ
03009253034
پر ارسال کریں ۔ کنسلٹنٹ کی ٹیم خود آپ سے رابطہ کرے گی اپنی دستیابی اور وقت کی سہولت کے حوالے سے آپ خود بتائیں ۔
=========================























