یونیورسٹی رینکنگ واقعی فراڈ ہوتی ہیں
===========================
یونیورسٹی رینکنگ واقعی فراڈ ہوتی ہیں
=========================
یونیورسٹی رینکنگ واقعی فراڈ ہوتی ہیں
—–
اظہر شیخ، حیدرآباد
میں سندھ کی ٹاپ انجینیئرنگ یونیورسٹی سے گریجویٹ ہوا ہوں، جس کا شمار پاکستان کی ٹاپ 10 انجینیئرنگ یونیورسٹیز میں ہوتا ہے، 2013 میں ایچ ای سی نے سندھ کی ٹاپ اور پاکستان کی چوتھی بہترین انجینیئرنگ یونیورسٹی کہا تھا، 2010 میں QS نے دنیا کی 400 بہترین یونیورسٹیز میں شامل کیا تھا، 2020 میں QS نے 400 بہترین ایشیئن یونیورسٹیز میں شامل کیا تھا، یونیورسٹیٹ انڈونیشیا گرین میٹرک ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ نے دنیا کی 271 نمبر بہترین یونیورسٹی کہا تھا، پاکستان کی پبلک سیکٹر یونیورسٹی میں دوسرے نمبر پر ہے اور آئی ایس او 9000 سے سرٹیفائیڈ ہے۔
میں اپنا یونیورسٹی کا تجربہ بتاتا ہوں۔
ہماری یونیورسٹی کے سپلیمینٹری امتحان میں نقل ہوتی تھی، ٹیچرز خود بچوں کو نقل کرنے دیتے تھے، ٹیچرز امتحان کے شروع میں تھوڑی سختی کرتے تھے جیسے چیٹنگ مٹیریل نکلتا تھا تو چھین لیتے تھے ( کاپی کیس نہیں کرتے تھے ) پھر تھوڑی دیر کے بعد ٹیچرز اپنی باتوں میں لگ جاتے تھے اور بچے بینچ کے نیچے پھررے رکھ کر نقل کر رہے ہوتے تھے ٹیچروں کو معلوم ہوتا تھا لیکن وہ خود کچھ نہیں کرتے تھے، کبھی ایسا ہوتا تھا کہ ٹیچرز خود 30 یا 45 منٹ کے لیے کلاس سے باہر چلے جاتے تھے تاکہ بچے چیٹنگ کر لیں وہ اس کو پاور پلے کہتے تھے، کبھی ٹیچرز کھلم کھلا کہتے تھے کس کا انتظار کر رہے ہو کام شروع کرو۔
ہمارے ٹیچرز نے کبھی نہیں بتایا کہ کتاب پڑھنے کی اہمیت کیا ہے یا مضامین کے کانسپٹ کلیئر کرنے کے لیے ہمیں ایک سے زیادہ کتابیں پڑھنی چاہیں بلکہ ٹیچرز خود اپنا بتاتے تھے کہ انہوں نے خود کیسے پڑھا تھا اپنے وقت میں۔
ایک ٹیچر جو الیکٹرانکس ڈیپارٹمنٹ کے لیکچرار تھے، ماسٹرز کیا ہوا تھا اب اسسٹنٹ پروفیسر ہیں وہ ہمیں بتاتے تھے کہ آپ لوگوں کو سپلی کیوں لگتی ہے ہم تو پورا سیمسٹر نہیں پڑھتے تھے بس امتحان کی پریپریشن چھٹیوں میں دن رات ایک کر کے پڑھتے تھے اور امتحان کلیئر کر لیتے تھے یہی سر ہمیں BE/BS کا فرق بتاتے تھے کہ BE والے کے نام کے ساتھ انجینئر لگتا ہے کیونکہ BE کروانے والی یونیورسٹی PEC سے recognized ہوتی ہے باقی BS اگر آپ فاسٹ یونیورسٹی سے بھی کرتے ہو تو بھی آپ کے نام کے ساتھ انجینئر نہیں لگ سکتا کیونکہ فاسٹ یونیورسٹی PEC سے recognized نہیں ہے (یہ بات غلط تھی، ڈگری کوئی بھی ہو BE/BS/BSC/B۔ TECH اس کو پی ای سی سے ریکگنیشن مل سکتی ہے اور ریکگنیشن ملنے کے بعد آپ کے نام کے ساتھ انجینئر بھی لگتا ہے اور آپ آفیشل انجینیئر ہوتے ہو اگر سر کی بات مان لی جائے تو پھر UET لاہور جو بی ایس سی کی ڈگری دیتی ہے اور GIKi جو بی ایس کی ڈگری دیتی ہے وہاں کے بچے بھی انجینئر نہیں کہلائیں گے ) ۔ ایک ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے ٹیچر تھے جو اب سٹی یونیورسٹی آف ہانگ کانگ سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اب وہاں سے ہی پوسٹ ڈوک کر رہے ہیں وہ بتاتے تھے کہ ہم صرف تین دن پڑھتے تھے ( 3 دن ہر پیپر کے درمیان میں گیپ ملتا تھا) کیونکہ ہمیں پتا ہوتا تھا کہ پیپر نکالنا ہمارے لیے چٹکی بجانے جیسا کام ہے، viva میں ہم پڑھ کر نہیں جاتے تھے بس مائنڈ کی شارپنیس سے جواب دیتے تھے۔
ایک اور ٹیچر تھے جنہوں نے اس وقت ماسٹرز کیا ہوا تھا اور ماسٹرز کی ریسرچ پولی ٹیکنیک یونیورسٹی آف میلان اٹلی سے کی تھی اور اب UK سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، وہ بھی یہی بولتے تھے کہ کلاس میں صرف لیکچر اچھی طرح لے لو پھر گھر پر جا کر پڑھنا مت صرف لیکچر کو سرسری طور پر دیکھ لینا تم پیپرز آسانی سے کلیئر کر لو گے۔
ایک الیکٹریکل ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر تھے جو اب سول سروسز میں چلے گئے ہیں وہ بھی کہتے تھے کہ ہم لوگ صرف لیکچر اچھی طرح لیتے تھے باقی گھر پہ جا کر پڑھتے نہیں تھے۔ میرے اپنے batch کے پوزیشن ہولڈرز بھی ایسے ہی پڑھتے تھے اس لیے ان کو مضامین کی بنیادی چیزیں بھی نہیں آتی تھیں ان کو آسانی سے اسکول لیول کی طبیعات اور ریاضی میں بھی پھنسایا جاسکتا تھا۔
ہمیں جو ریاضی کی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں وہ ہماری یونیورسٹی کے پروفیسر کی لکھی ہوئی تھیں اور یہ بات خود ایک ریاضی کی لیکچرار نے بولی تھی کے اس کتاب کا کوئی معیار ہی نہیں ہے۔
ہماری مطالعہ پاکستان کی ٹیچر ہمیں لیکچر نہیں دیتی تھیں وہ ہم کو نوٹس ڈکٹیٹ کرواتی تھیں، وہ ہمیں بتاتی تھیں کہ میرے بچے مجھ سے کہتے ہیں کہ ہمارے بورڈز کے پیپرز کے مارکس بورڈز سے بڑھوا دو تو میں ان کو بولتی تھی کہ یہ مجھ سے نہیں ہو گا بھلے فیل ہو جاؤ پیپرز واپس دے دینا لیکن جب ہمارا سیشنل ٹیسٹ ہوا تو وہ کلاس سے باہر چلی گئیں تاکہ ہم نقل کر سکیں جب وہ کلاس میں داخل ہوئیں تو ایک بچہ دوسرے بچے سے کچھ پوچھ رہا تھا اپنی جگہ چھوڑ کر لیکن انہوں نے اس بچے کو پھر بھی کچھ نہیں کہا کہ تم اپنی جگہ سے کیوں اٹھے ٹیسٹ کے دوران۔ انہوں نے پورا سیمسٹر لیکچر نہیں دیا تھا صرف کبھی کبھی ڈکٹیٹ کروا دیتی تھیں اور سیمسٹر کے آخر میں کہنے لگیں کہ یہ سب آپ پہلے سے پڑھ کر آچکے ہو میں آپ کو کیا پڑھاتی (اب وہ یہ بات یونیورسٹی انتظامیہ کو کیوں نہیں بتاتیں کہ یہ مضمون بچوں نے پہلے سے پڑھا ہوا ہے آپ مجھے تنخواہ دے کر اپنے پیسے ضائع کر رہے ہو اس مضمون کو نصاب سے نکال دو ) ۔
ہمارے سینیئر نے بتایا کہ میٹ لیب (MAT LAB programming) پروگرامنگ پڑھانے والے ٹیچر کو خود پروگرامنگ نہیں آتی تھی وہ کچھ پروگرام لکھ کر کہتے تھے بس یہ لکھ لو سوال مت پوچھنا مجھے بھی نہیں پتا کہ یہ کیا ہے بس ان پروگرامز کو رٹ لینا باقی مارکس میں اچھے دے دوں گا۔
ایک الیکٹرانکس ڈیپارٹمنٹ کی اسسٹنٹ پروفیسر ہمیں ڈیجیٹل الیکٹرانکس سبجیکٹ پڑھاتی تھیں یہ آسان سبجیکٹ تھا اس لیے انہوں نے پڑھا دیا تھا لیکن سینیئرز بتاتے تھے کہ اس سے پہلے یہ ٹیچر ان کو جو سبجیکٹس پڑھاتی تھیں تو وہ سبجیکٹس ٹیچر کو خود نہیں آتے تھے اور سوال جواب کرنے پر وہ ہم کو ٹوپی کرا دیتی تھیں، وہ ہمیں پریکٹیکل کروانے آتی تھیں لیکن ان کو پریکٹیکل بھی نہیں آتا تھا تو پہلے وہ لیب اسسٹنٹ (پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سے B۔ Tech کیا ہوا تھا) کو کہتی تھیں تجربہ کرو پھر اس کا طریقہ دیکھ کر بچوں کو کرواتی تھیں۔
ایک سر جو اسسٹنٹ پروفیسر تھے، ماسٹرز کیا ہوا تھا، آٹھ سال سے پڑھا رہے تھے اور اب چائنہ سے پی ایچ ڈی ہونے والی ہے ان کی۔ وہ شیعہ مسلمان تھے، وہ کہتے تھے کہ ماتم کیا کرو بہت مزہ آتا ہے اور ماتم کرنے سے دل کے وال کھل جاتے ہیں (میں نے یہ سوال سائنس کی دنیا فیسبک گروپ پر کیا تو انہوں اس بات کو بالکل غلط کہا) ، انہوں نے فیس بک پر پوسٹ کیا (پی ایچ ڈی کے دوران) ہارپ ٹیکنالوجی طوفان اور زلزلے کی وجہ ہے (اس پر میں نے ان کو ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کی وڈیو بھیجی جس میں ڈاکٹر صاحب نے اس بات کو بالکل غلط بتایا ہے ) ، میں نے ان سے پوچھا کیا نظریہ ارتقاء پڑھنے سے ہمارا ایمان خراب ہوتا ہے تو انہوں نے کہا کہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس پر یقین کرنے میں مسئلہ ہے۔ ایک اور ٹیچر تھے جو کئی سال سے لیکچرر تھے اور اب (ہمارے پاس آؤٹ ہونے کے بعد ) اپنی پی ایچ ڈی پولی ٹیکنک یونیورسٹی آف میلان اٹلی سے کی ہے، ہمیں پریکٹیکل کروا رہے تھے بیٹس جنریٹ کرنے کا، تو بتانے لگے کہ سب سے زیادہ موسیقی آلات امریکہ میں سنے اور بجائے جاتے ہیں اسی لیے سب سے زیادہ پاگل خانے امریکہ میں ہیں اور اسی لیے موسیقی اسلام میں حرام ہے۔ (جبکہ مجھے جہاں تک معلوم ہے وہ یہ ہے کہ موسیقی ہمارے دماغ کے لیے دوائی کی طرح ہے یہ ہمارے ذہنی تناؤ کو کم کرتا ہے اور میوزیکل آلات بجانے سے بھی ہمارے دماغ کو فائدہ پہنچتا ہے ) ۔
ایک بہت سینیئر ٹیچر جنہوں نے ہمارے وقت میں ماسٹرز کر رکھا تھا اور اب چائنہ سے پی ایچ ڈی کرلی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ پروفیشنل ڈگری کا مطلب کیا ہوتا ہے، انہوں نے کہا کوئی مطلب نہیں ہے بس ڈاکٹر اور انجینئر کو ٹائٹل دیا ہوا ہے(یہ بات غلط تھی پروفیشنل ڈگری کا مطلب ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کو سیدھا مخصوص فیلڈ کی تیاری کروائی جاتی ہے اور پروفیشنل ڈگری صرف یہی نہیں ہوتی اور بھی بہت سی ہوتی ہیں ) ۔
ایک انڈسٹریل ڈیپارٹمنٹ کے ٹیچر تھے، وہ اپنے وقت کے گولڈ میڈلسٹ تھے۔ ان کے ڈیپارٹمنٹ کے اسٹوڈینٹ بتاتے تھے کہ وہ ٹیچر ان کو بولتے ہیں کہ مجھے 1000 روپے دو اور میں اپنے مضمون میں فل مارکس دے دوں گا، وہ ٹیچر بولتے تھے یہ پوری دنیا دو ستون پہ کھڑی ہے ایک ڈاکٹر اور دوسرا انجینئر (یہ بات بھی غلط تھی کیونکہ دنیا بہت ساری فیلڈز پر کھڑی ہے اور اپلائیڈ سائنس اور پیور سائنس دونوں ایک دوسرے پر کھڑی ہیں ) ۔
اسلامیات کے سر بتانے لگے کہ ایک بار ایک بچے کو میں نے پیپر میں فیل کر دیا وہ بچہ یونیورسٹی کے ٹیچر کا بیٹا تھا تو اس ٹیچر نے مجھ سے پوچھا کے آپ نے میرے بیٹے کو فیل کیوں کیا، میں نے بتایا کہ میں نے سورہ الانفال کا ترجمہ پوچھا تھا لیکن آپ کے بیٹے نے سورہ الحجرات کا ترجمہ لکھ دیا تو اس پر اس نے جواب دیا کہ دونوں سورتوں میں اللہ کا نام ہی تو ہے تو ترجمہ کوئی سا بھی لکھ دو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہماری کلاس میں دو ہندو بچے بھی پڑھتے تھے لیکن ان کو بھی اسلامیات کا لیکچر لینا پڑتا تھا بس امتحان کے دنوں میں ٹیچر نے ان کو الگ سے نوٹس دے دیے تھے۔ اسلامیات کے ٹیچر ایک بار لیکچر دیتے وقت کہنے لگے کہ اسلام نے مرنے کے بعد بھی انسانوں کو عزت دی ہے ورنہ دوسرے مذاہب میں انسانوں کو جانوروں کو کھلا دیا جاتا ہے یا جلا دیا جاتا ہے (اب جو ہندو بچے تھے اس بات سے تو ان کی دل آزاری ہوگی کہ ان کی روایت کو ٹیچر برا بول رہا ہے ) ۔
یونیورسٹی کا اصول ہے اگر کسی ڈسٹرکٹ کی میرٹ پر سیٹ بچتی ہے تو اگر سیٹ اس ڈسٹرکٹ کے Urban کی ہے تو اسی ڈسٹرکٹ کے Rural امیدوار کو دے دی جاتی ہے اور اگر Rural کی ہے تو Urban کو دے دی جاتی ہے اور اگر دونوں میں لینے والا کوئی نہیں ہے تو سیٹ کو ضائع کر دیا جاتا ہے لیکن سیلف فنانس پر ایک ڈسٹرکٹ کی سیٹ دوسرے ڈسٹرکٹ کو دے دی جاتی ہے، اس سے یونیورسٹی کو تو فائدہ ہوتا ہے لیکن بہت سے بچوں کو نہیں ہوتا کیونکہ ہمارے یہاں پر یہ بات بہت بولی جاتی ہے کہ بس یونیورسٹی میں پہنچ جاؤ اس کے بعد آپ کی زندگی سیٹ ہو جائے گی اور یونیورسٹی سے بن کر ہی نکلو گے اسی وجہ سے ماں، باپ بچوں کا داخلہ کروا دیتے ہیں لیکن یونیورسٹی میں آنے کے بعد بچوں کو پڑھنے میں مسئلہ ہوتا ہے اور بہت سے بچے جنہوں نے 5 یا 10 لاکھ تک میں سیٹ لی ہوتی تھی وہ یونیورسٹی چھوڑ کر اپنے پیسے اور وقت ضائع کر دیتے ہیں، یونیورسٹی میں اکثریت میں ایسے بچے تھے جن کو بنیادی ریاضی یا بنیادی انگریزی کے اسپیلنگ تک بھی نہیں آتے تھے۔
یونیورسٹی کا ماحول اب پر امن ہے لیکن ہمارے وقت میں شروع کے دو سال تک سیاسی جماعتوں کی وجہ سے بائیکاٹ، دھرنا، نعرے بازی ہوتی تھی۔ اسٹوڈینٹ ڈرتے تھے، کلاس کے باہر اپنی کلاس کی فی میل اسٹوڈینٹ سے بات تک بھی نہیں کر سکتے تھے ایسا کرنے پر لڑکوں کو تھپڑ تک بھی مارا ہوا تھا، پروفیسر تک کو تھپڑ مارا ہوا تھا ان کی بات نہ ماننے پر ، ان کے لیے کسی کام کے لیے کسی قطار میں لگنا ضروری نہیں ہوتا تھا قطار کو توڑ کر اپنا کام کروا کر چلے جاتے تھے، ہاسٹل میں رات کے وقت اور آخری سال کی سیلیبریشن پر ہوائی فائرنگ کرتے تھے وہ جب تک چاہتے ہماری بسوں کو روک لیتے اور زبردستی پریس کلب بھی لے جاتے تھے۔
یہ حالات تھے ہماری ورلڈ کلاس یونیورسٹی کے اگر ایسی یونیورسٹی کو اتنی اچھی رینکنگ مل سکتی ہے تو نسٹ، جی آئی کے، یو ای ٹی لاہور کو کیوں نہیں جو یقیناً ہماری یونیورسٹی سے بہت بہتر ہیں۔
About Latest Posts
===========================
جامعہ کراچی: شعبہ ٹرانسپورٹ میں پوائنٹ (بس)،کوسٹر،سیکیورٹی موبائل اور فائرانجن کا اضافہ
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر خالد محمودعراقی نے پیرکے روز شعبہ ٹرانسپورٹ جامعہ کراچی کا حصہ بننے والی گاڑیوں جس میں پوانٹ (بس)،کوسٹر،سیکیورٹی موبائل اور فائر انجن شامل ہیں کا افتتاح کیا۔
تفصیلات کے مطابق مذکورہ گاڑیاں سابق ایڈمنسٹریٹرکراچی ڈاکٹر سیف الرحمن کے تعاون سے کے ایم سی کی جانب سے جامعہ کراچی کو کُل10 بسیں (پوائنٹس)،موبائل وینز،ایک کوسٹر،ایک ایمبولینس اور ایک فائرانجن فراہم کی گئی تھی ان میں سے پہلی کھیپ کی مرمت اور تزئین وآرائش کے بعد انہیں شعبہ ٹرانسپورٹ کا باقاعدہ حصہ بنادیاگیاہے اور ان تمام گاڑیوں کی مرمت اور تزئین وآرائش جامعہ نے خود اپنے وسائل سے کی ہے۔
اس موقع پر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر خالد محمودعراقی نے کہا کہ جامعہ کراچی کے شعبہ ٹرانسپورٹ نے ان گاڑیوں کی تھوڑی بہت مرمت اور تزئین وآرائش کرکے انہیں قابل استعمال بنادیاہے جولائق تحسین ہے، جامعہ کے نامساعد مالی حالات میں ان گاڑیوں کا ملنا کسی نعمت سے کم نہیں۔
======================
ایک تھا ایمرسن کالج کا پروفیسر، شاہ جی۔
مدھر ملک
سگریٹ اور شاہ جی کا ”چولے“ دامن کا ساتھ ہے۔ ایک زمانہ تھا ہمارے یہاں دیہات میں عام رواج تھا کہ لڑکا سکول میں تب داخل کرایا جاتا جب وہ دو کپڑوں میں آ جاتا۔ اگر کبھی کوئی سنگدل باپ اصرار کرتا کہ بچہ بڑا ہو گیا ہے اسے سکول بھیجا جائے تو ماں اپنے لختِ جگر کو سینے سے لگا لیتی اور کہتی ہائے میرے لعل پر یہ ظلم نہ کریں ابھی تو ایک ”چولے“ میں ہے۔
شاہ جی ابھی ایک چولے میں ہی تھے کہ سگریٹ نوشی کی لت پڑ گئی۔ روپیہ دو جو بھی میسر آتا سگریٹ میں اڑا دیتے۔ اس لئے قد کاٹھ وہیں رک گیا اور بلوغت کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ محلے کے چند لڑکوں سے دوستی ہوئی تو والی بال، تاش اور فلم بینی پر بھی لگ گئے۔ عشرہ محرم کے جلوسوں میں شریک ہوتے اور سینہ کوبی بھی کرتے البتہ برچھی مارنے سے گریز کرتے کیونکہ اس کے لئے چولا اتارنا پڑتا تھا۔
شاہ جی کے آبا و اجداد نے بخارا مصغّر (چھوٹا بخارا) سے حصولِ رزق اور اشاعتِ دین کی غرض سے ہجرت کی اور ضلع لودھراں کے قصبہ دھنوٹ میں آ بسے۔ بخارا مصغّر دراصل ڈیرہ غازی خان کا ایک نواحی علاقہ ہے جہاں گوپانگ بلوچوں کی اکثریت آباد ہے۔ شاہ جی کے خاندان کی یہ دوسری ہجرت تھی۔ پہلی ہجرت انہوں نے محض اشاعتِ دین کے لئے روس کے شہر بخارا سے کی۔ اسی منا سبت سے بلوچوں کی سر زمین کے اس مخصوص خطے کو بخارا مصغر کہا جانے لگا۔ شاہ جی کی شخصیت میں روسی اشتراکیت اور بلوچوں کی حمیت کے مشترک آثار ملتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ موصوف نے ڈرائینگ روم میں، اپنی جو تصویر آویزاں کر رکھی ہے اس میں ایک ہاتھ میں نوک دار کلہاڑی اور دوسرے ہاتھ میں داس کیپیٹل کا نسخہ اٹھائے ہوئے ہیں۔
شاہ جی سے میری پہلی ملاقات ایمرسن کالج ملتان میں ہوئی جب وہ تقریبَا جوانی کی دہلیز کی پر قدم رکھتے ہی انٹرمیڈیٹ کے لئے کالج آ گئے۔ دو کپڑوں میں ملبوس، گھٹا ہوا قد، سڈول، بھرا بھرا جسم، تقریبَا مردانہ چال کے حامل اور مطلق بے ریش تھے۔ آنے والے چند سالوں تک ان کے مکمل جوان ہونے کا اندیشہ تو تھا مگر داڑھی کے مکمل ہونے کا معاملہ خارج از امکان تھا۔ لاہوری کٌلچے کی طرح ابھرا ابھرا گول چہرہ جس پر بیٹھی ہوئی معصوم ناک پھنکارتی تھی۔
طوطے کی آنکھوں جیسی چھوٹی چھوٹی گول آنکھیں جو طوطے کے لئے تو باعثِ ننگ اور شرمندگی ہیں ہی، شاہ جی نے بھی ان سے ہمیشہ کوتاہ نگاہی کا کام ہی لیا۔ ابن الوقت اور زمانہ ساز اسی زمانے سے تھے۔ انگریزی زبان اور صحتِ تلفظ پر جان چھڑکتے تھے۔ ایسے اساتذہ اور طلباء پر فریفتہ ہو جاتے جو انگریزی بولتے۔ مستنیر افضل لودھی جو انگریزی تو بولتے تھے مگر ساتھ ساتھ چہرے پر عجیب طنزیہ مسکراہٹ کے نقوش بھی بناتے تھے، شاہ جی ان سے مرعوب ہو گئے۔
مگر لودھی صاحب طلباء سے زیادہ جرمن شیپرڈ کتوں سے پیار کرتے تھے۔ وہ تدریس سے زیادہ شکار کرتے اور بہت سی نا آسودہ خواہشات میں غلطاں و پیچاں رہتے تھے۔ شکار، فوج، یونی ورسٹی کا سراب، بچھڑی سہیلیاں، اور افسر شاہی کی خواہشِ ناتمام وغیرہ ان کا روزمرہ تھا اور شاید آج تک ہے۔ وہ آج بھی کسی ایک راستے کے راہی ہوئے اور نہ آسودگی پائی۔
انہی دنوں عاجز نے ایک بار کلاس میں، رٹا ہوا انگریزی کا ایک جملہ کچھ ایسے فرنگی آہنگ میں بولا کہ شاہ جی میرے بھی معتقد ہو گئے۔ اگرچہ شاہ جی کے اعتقادات وقت کی روانی کے ساتھ مسلسل بدلتے رہے ہیں اور ایک واقعہ یوں بھی ہے کہ دوستوں کی صحبتِ صالح کے زیرِ اثر پنپنے والے ان کے سارے روشن نظریات اور انقلابی افکار ایک ہی تبادلے اور ایمرسن کالج میں پوسٹنگ کے نشے میں ہوا ہو گئے۔ مزید برآں اگلے ہی سال کالج اساتذہ کی ٹریڈ یونین کا نہ صرف الیکشن لڑا بلکہ ”لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے“ وغیرہ جیسی کئی دوسری نظموں کی سی۔ ڈیز جلا ڈالیں، سگریٹ نوشی سے توبہ کی اور ہاف بالشت داڑھی بڑھانے کا غیبی وعدہ بھی کیا۔
کالج کے دنوں میں وہ کتابیں چرانے میں بھی طاق تھے۔ ایک بار بیکن بکس سے ایک لغت بڑے ہی لغو انداز سے چھپا کر لے آئے اور سارا دن ہاسٹل کے لڑکوں کو ان کے ناموں کے کئی کئی مطلب بتاتے رہے۔ اسی طرح ایک دن کسی دوست کو ملنے اس کے ہاسٹل گئے تو وہ کمرے میں موجود نہ تھا، ملے بغیر ہی لوٹ آئے لیکن خالی ہاتھ بالکل نہ نکلے، آتے ہوئے دوست کی نشانی ایک ملتانی لنگی اٹھا لائے۔ میں نے عرض کی آپ کی کتب بینی تو سمجھ آتی ہے یہ لنگی پوشی کا کیا شوق ہے؟ کہنے لگے کپڑا تو موسم کی مناسبت سے ہی بھلا لگتا ہے۔ تم نے شاید یونانی فلسفیوں کا یہ قول نہیں سنا کہ سردیوں میں کپڑا بڑھاؤ اور گرمیوں میں گھٹاؤ۔ میں لاجواب ہو گیا۔
اگلے دن صبح میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ موصوف فقط لنگی اوڑھے گہری نیند سو رہے ہیں۔ ستر پوشی صرف تیس فیصد تھی باقی گرمجوشی تھی۔ میں سیّد زادے کی دیدہ و دانستہ کرامت کا قائل ہو گیا۔
ایف۔ اے کے بعد شاہ جی دھنوٹ واپس چلے گئے اور بی۔ اے بہاولپور سے کیا۔ ان دنوں جب بھی شاہ جی سے بات ہوئی انہوں نے اپنے مالی حالات کا رونا رویا۔ مثل مشہور ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے مگر ملتان میں آ کر پڑھنے اور نوکری پیشہ ہو کر یہیں بس جانے والے ہر نوجوان کے پیچھے احمد شاہ ابدالی کا ہاتھ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو طالبعلم ابدالی روڈ پر واقع احمد شاہ ابدالی کی جائے پیدائش پر آنسو بہائے اور یہیں ایک رات بھوکا سو جائے وہ کبھی بھوکا نہیں مرتا۔ اکبر استرا نام کے شاہ جی کے ایک دوست تو اس ابدالی کرامت کے اس درجہ قائل تھے کہ اپنا واقعہ سناتے ہوئے ان پر رقت طاری ہوجاتی۔ غالباً ان کی پوری زندگی کا نچوڑ یہی ایک رات تھی۔
تھی ایک رات کی یہ زندگی نچوڑ چلے
شاہ جی نے ایم اے کی غرض سے دوبارہ ملتان کا سفر کیا تو اسی دوست کے بتائے ہوئے طریقے کے عین مطابق شب بسری کے لئے سیدھے یاد گارِ ابدالی پہنچے۔ شاہ جی کو تو نہ رونا آیا نہ نیند اوپر سے سگریٹ کی اشتہا بھی بڑھنے لگی۔ قریب بیٹھے ایک ملتانی ملنگ، جو کٌتیوں والے بابا کے نام سے مشہور تھے اور ان کے ساتھ ہمیشہ کتیوں اور ان کے مادہ بچوں کا ایک غول رہتا تھا، انہوں نے شاہ جی کو اپنا لباب لگا کر ایک سربمہر سگریٹ عطا کی جسے پی کر شاہ جی خوب روئے اور خوب سوئے۔ بعد میں جب بھی شاہ جی نے اپنے دن پھرنے کا واقعہ سنایا، تو انکے اعتقاد کے ترازو کا جھکاؤ شاہ ابدالی کی بجائے کتیوں والے بابے کی طرف رہا۔
ایمرسن کالج میں ایم اے کے دوران ان کی ایک کلاس فیلو نے، جو خاصی پختہ عمر اور تجربے کی مالک تھی، تین چار لڑکیوں کو اپنے پروں تلے چھپا کر ایک گروپ تشکیل دیا۔ شاہ جی اس گروپ کا حصہ بن گئے۔ اس خاتون نے اپنے گھونسلے کی ایک ایک فاختہ کو گروپ میں موجود ہر ایک لڑکے کے لئے اپنے ذوق کے مطابق مخصوص کر دیا۔ شاہ جی اپنی مخصوص کلاس فیلو کے ساتھ عجز و انکساری سے پیش آئے اور اپنے خاص ملائم نسوانی لہجے کے تلفظات کی مار دی۔
مگر وہ مائی مرد قسم کی عورت تھی، شاہ جی کی زبان دانی اسے قائل نہ کر سکی اور چند روز بعد شاہ جی نے دیکھا کہ ایک مشکی اس فاختہ پر کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ مشکی شاہ جی کا کلاس فیلو اور گروپ فیلو تھا۔ شاہ جی نے یہ نام اسے اس سانحہ کے بعد عطا کیا اور کہا کرتے تھے کہ ایک تو اس کا رنگ کالا ہے اوپر سے کرتوت کا بھی کالا نکلا۔
اس واقعے نے شاہ جی کے دل پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کی تو دنیا ہی لٹ گئی۔ ابھی ایم۔ اے فائنل ائر میں ہی تھے کہ ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔ انہی دنوں انہیں معلوم ہوا کہ ان کے مردانہ سینے میں ابھار پیدا ہونے لگے ہیں۔ شاید کوئی گلٹیاں نمودار ہونے لگی تھیں۔ انہوں نے ذکر کیا کہ سرجری کرانا چاہتا ہوں۔ میں نے سرجری سے منع کیا اور سمجھایا کہ شاہ جی آج کل تو رواج ہے۔ اور اس پوسٹ ماڈرن ورلڈ میں لوگ مرد عورت کے اس روایتی تصور سے اکتا چکے ہیں۔
آپ ٹیوشن سے زیادہ تو شادی بیاہ کے فنکشنز اور رقص کی محافل سے کما لیں گے۔ گرائمر کی کتاب لکھ کر کوئی پروفیسر اتنا مشہور نہیں ہوتا جتنا آپ اپنے رقص کی سی۔ ڈی نکلوا کر ہو سکتے ہیں۔ مگر انہوں نے میری ایک نہ مانی اور اپنے ایک کولیگ کے بھائی کی خفیہ کلینک سے جو کسی پوش دیہات میں تھا آپریشن کرا لیا۔ مجھے تو خبر بھی تب دی جب گلٹیوں کا سیمپل لاہور کی کسی لیبارٹری کو بھجوا چکے۔
اس سرجری کے بعد شاہ جی خاصے مردانہ مردانہ ہو گئے۔ پھر ان کی کالج میں نوکری ہو گئی اور تبدیل ہو کر شہر کے بڑے کالج میں آ گئے۔ انہی دنوں انہیں یہاں ایک پرانا کولیگ مل گیا جو اب اس کالج میں اردو پڑھاتا تھا۔ دوستی پختہ ہونے لگی اور اس کے گھر آنا جانا ہو گیا۔ بزبانِ خود ایک واقعہ انہوں نے مجھے سنایا جس کی صحت پر شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن وہ پروفیسر صاحب کے گھر موجود تھے اور دونوں اکیلے تھے، کہ پروفیسر کی حا لت غیر ہو گئی۔ اس کی آنکھوں میں سرخی تیرنے لگی، گال تمتمانے لگے اور سانسیں اکھڑ گئیں۔ دل کی دھڑکن اتنی تیز تھی کہ شاہ جی پلنگ پر بیٹھے بیٹھے ہی سن رہے تھے اور وہ موا فرش پہ بچھے قالین پر بلک رہا تھا۔ شاہ جی نے اس زضمن میں اپنی معذوری پیش کی اور یہ شعر پڑھا۔
”دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں،
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں، ”کیوں“ سلگائیں تمہیں۔ ”
سگریٹ سلگانے کا شاہ جی کا اپنا ہی انداز تھا، اس میں شاہانہ تمکنت، باغیانہ روش اور رئیسانہ بانکپں سبھی یکجان تھا۔ انہی دنوں گول باغ میں انہوں نے مجھے سگریٹ ان ہیل کرنا سکھایا۔
انہوں نے ایک ہاتھ میں سگریٹ اور دوسرے ہاتھ میں چائے کا کپ تھام رکھا تھا۔ ادھر سگریٹ کا گہرا کش کھینچتے اور ادھر چائے کی چسکی لگاتے۔ اور مجھے فرمایا ایسے ایسے دھراؤ۔ میں نے جب سگریٹ کا ایک گہرا کش کھینچا تو ترتیب یاد نہ رہی اور آج تک بھی سمجھ نہیں آتا کہ اگلی باری کس کی ہے چسکی کی یا کش کی۔ ایک عجیب بے اعتمادی نے جڑ پکڑ لی۔ اس لئے اب بھی جب سگریٹ پیؤں تو سگریٹ کپکپاتی ہے، اور چائے پیؤں تو پیالی تھرتھرانے لگتی ہے۔ یہ تو کئی سال بعد نیئر مصطفیٰ کے منہ سے سگریٹ کی بے حرمتی ہوتی دیکھی تو میرا بھی اعتماد بحال ہوا لیکن اب ہاتھ کثرتِ سگریٹ نوشی سے ویسے ہی کانپتے ہیں۔
ایم اے کے دوران شاہ جی کا اساتذہ اور کلاس فیلوز کو سلام کرنے کا انداز بڑا ہی مؤدبانہ تھا، نظر پڑتے ہی جھک کر اصحاب کے گھٹنوں کو اچھی طرح چھوتے اور پھر ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جاتے۔ گندھارا اور وادیٔ سندھ کی تہذیبی اقدار میں شاید ان کی کوئی معنویت ہو لیکن اکیسویں صدی کے اس ملتانی پس منظر میں یوں گماں ہوتا جیسے سامنے والا اولادِ نرینہ کا مرتکب ہوا ہے اور شاہ جی ختنہ سازی کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ لیکن یہ زمانہ طالبعلمی کی باتیں تھیں، اب شاہ جی ایک محنتی اور قابل استاد ہیں، کسی بھی کلاس کو پڑھانے میں عار محسوس نہیں کرتے، البتہ علمِ نافع کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک علمِ نافع وہی علم ہے جو ٹیوشن فیس کی مد میں نفع بخش ہو۔ شاہ جی بڑے ہی ٹیکنیکل آدمی ہیں انہیں یہ بہت جلد معلوم ہو گیا کہ حضرت مبشر مہدی کی طرح مارک ٹوین کے ناول پڑھ کر سرد راتوں میں موٹر سائیکل پر گھومنے سے کہیں بہتر ہے کہ ورکنگ نالج کے زور پر گاڑی پہ سفر کیا جائے۔
ایک عرصہ تک شاہ جی کا یہ طریق رہا کہ کہیں سے بھی کچھ خریدتے تو بدترین حد تک رعایت ضرور طلب کرتے۔ سیلز مین سے اس کا نام، پتا، سکونت، ولدیت، زبان، قومیت، تنخواہ غرض کہ سونے جاگنے کے اوقات تک معلوم کرتے۔ پھر اسے کہتے اگر یہاں ایک اور سیلز مین کی ضرورت ہو تو مجھے کام پر لگوا دو ۔ جب اس سے اس درجہ بے تکلفّی پیدا کر لیتے تو آخری حد تک رعایت طلب کرتے۔ یہاں تک کہ وہ سیلز مین اپنے مالک کی نمک حرامی پر اتر کر ممکن الوجود رعایت کر چکتا تو کاؤنٹر پر بیٹھے دکان کے مالک کا اسی زاویے پر روزمرہ درست کرتے۔ یوں سمجھئیے شاہ جی کو مطلوبہ چیز مفت پڑتی۔
شاہ جی اعلیٰ شاپنگ کرنے کے بھی تمام رموز جانتے تھے۔ حسین آگاہی بازار کی لنڈا مارکیٹ زمانہ طالبعلمی میں ہم سب دوستوں کا نقطٰؑہ اتصال تھا سوائے عدنان صہیب کے۔ وہ کہا کرتا تھا کی میری نانی کہتی ہے لوگوں کو بے شک پتہ نہ چلے کہ یہ کوٹ یا جرسی لنڈے کی ہے مگر تم تو حقیقت جانتے ہو، اس لئے خوداعتمادی نہیں آتی۔ مگر شاہ جی میں خود اعتمادی کوٹ کوٹ بھری ہوئی تھی۔ ابھی کل ہی کی بات ہے یونی ورسٹی روڈ پر مل گئے۔ اپنی نئی ماڈل کی وٹز گاڑی سے اتر رہے تھے مجھے دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔
گلے لگ کر ملے تو میں نے شکوہ کیا کہ شاہ جی اب تو آپ کے دن پھر گئے ہیں اب تو آپ وہ مارکیٹ چھوڑ دیں۔ شاہ جی کے لب تھرتھرائے، پلکوں جھپکیں اور آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ کہنے لگے جب دھنوٹ سے چلے تھے تو قرض داروں نے ہمارے مکان کے دروازے پر اپنے اپنے حصے کا تالا ڈال دیا تھا۔ بگے میاں کہتے تھے کہ آٹھ تالے تو انہوں نے اپنی گنہ گار آنکھوں سے خود گنے تھے۔ گھر کے ہر فرد کے پاس ایک ایک تسبیح اور کھیس کے سوا کچھ نہ تھا۔
جاڑے کے دن تھے ملتان میں تو سوتی کھیس سردی جذب کر کے الٹا بدن کے درجہ حرارت کو بھی ڈاؤن کر دیتا تھا۔ آج اوپر والے کا کرم ہے۔ مہمان خانے میں بھی بھاپ والے حمام ہیں۔ سردیوں کے آتے ہی میں اسی مارکیٹ سے ہر سال ایک کوٹ خریدتا ہوں۔ یہ کوٹ مجھے وہ آٹھ تالے بھولنے نہیں دیتا۔ اماں نے وہ کھیس بھی سنبھال کر رکھے ہیں۔ آپ کبھی تشریف لائیں ناں میرے غریب خانے۔ ہاں ضرور کبھی۔ یہ کہہ کر میں رخصت ہوا تو ذہن کا ملٹی میڈیا آن ہوا، اور بمبے ٹاکیز۔ ایک پرانا صندوق، چمڑے کا خستہ جوتا، پھٹے ہوئے میلے کپڑوں کا ایک جوڑا، اور صندوق پر جلی حروف میں لکھا تھا، ”قدرِ ایاز“ ۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اور ایک اونچے منچ پر شاہ جی شاندار تلفظ اور فرنگی آھنگ میں با آوازِ بلند کچھ پڑھ رہے تھے، جو جملے سمجھ آئے وہ کچھ یوں تھے۔
To-morrow, and to-morrow, and to-morrow
Creeps in this petty pace from day to day
…Life is but a walking shadow…
It is a tale told by an idiot, full of sound and fury
=============================
ایجوکیشن رپورٹرز ایسوسی ایشن پاکستان کا سید ذوہیب کی ساس کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار
*کراچی(اسٹاف رپورٹر)ایجوکیشن رپورٹرز ایسوسی ایشن پاکستان صدر قاسم خان ،سیکٹری رانا جاوید اور مجلس عاملہ نے کے ٹوئنٹی ون کے ایجوکیشن رپورٹرسید ذوہیب کی ساس کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ سید ذوہیب و اہل خانہ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں ۔دعاگو ہیں اللہ پاک مرحومہ کو اپنے جوار رحمت میں اعلی مقام اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے آمین یا رب العالمین
ترجمان
ایجوکیشن رپورٹرز ایسوسی ایشن پاکستان
===========================
فاریکس ٹریڈنگ عالمی سطح پر سب سے بڑی مائع مالیاتی مارکیٹ ہے۔۔سمیع اللہ خان
فاریکس ٹریڈنگ عالمی مالیاتی استحکام کی عکاسی کرتی ہے۔۔ڈاکٹر عمادالحق
سرسید یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام فاریکس ٹریڈنگ آگاہی سیمینار کا انعقاد
کراچی، 7/جولائی 2024ء۔ سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن نے طلباء کو فاریکس ٹریڈنگ انڈسٹری
(Forex Trading Industry) میں ترقی کے مواقعوں سے روشناس کرانے کے حوالے سے ’دورِ حاضر کے کاروباری افراد کے لیئے فاریکس ٹریڈنگ سے آگاہی‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔
فاریکس مارکیٹ کے دائرہ کار، اہمیت اوراس کے مختلف انداز پر ایک جامع جائزہ پیش کرتے ہوئے معروف ماسٹر ٹریڈر اور مالیاتی تجزیہ کار محمد سمیع اللہ خان نے کہا کہ فاریکس مارکیٹ پیسوں اور مواقعوں کے باہمی ملاپ کا ایک مرکز ہے جس سے بھرپور استفادہ کرنے کے لئے آپ کو متعلقہ کاروبار کے اسرار و رموز سے پوری طرح واقف ہونا بہت ضروری ہے۔ تجربہ کار اور کاروباری امور میں ماہر افراد کی رہنمائی میں آپ کے کاروبار کو ٹیکنالوجی کے ذریعے تقویت دینے کے لیئے ہم نے واضح اہداف مقرر کئے ہیں۔
سمیع اللہ خان نے اس بات پر زور دیا کہ کاروبار کی ترقی و کامیابی کا دارو مدار آپ کے جذبات کے نظم وضبط پر ہے۔فاریکس ٹریڈنگ میں صبر و تحمل سے کام لیں اور طریقہ کار پر بھروسہ رکھیں۔ فارن ایکسچینج مارکیٹ میں ملکی و غیر ملکی کرنسیوں کی خریدوفروخت شامل ہے۔یہ عالمی سطح پر سب سے بڑی مائع مالیاتی منڈی ہے جس کا یومیہ اوسط تجارتی حجم 6 ٹریلین ڈالر ہے۔
اس موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن کے سربراہ ڈاکٹر عماد الحق نے کہا کہ فاریکس ٹریڈنگ عالمی مالیاتی استحکام کی عکاسی کرتی ہے جو روزگار اور معیارِ زندگی پر اثر انداز ہونے کی بھرپور طاقت رکھتی ہے۔کاورباری افراد مارکیٹ کی پیش گوئیوں کے لئے کینڈل اِسٹک پیٹرن استعمال کرتے ہیں۔مذہب،اقتصادی فیصلوں اور کاروبار میں نقصان کا خطرہ مول لینے والے رویوں پراثر انداز ہو سکتا ہے۔ فاریکس ٹریڈنگ معلومات اور وسائل تک رسائی کے لحاظ سے معاشی تفاوت کو بڑھا سکتی ہے۔
سینٹرفار کنٹینیونگ پروفیسنل ایجوکیشن(Centre for Continuing Professional Education) کے ڈائریکٹر نعمان علی خان نے طلباء کو فاریکس انڈسٹری کے تیکنیکی پہلوؤں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ فاریکس ٹریڈنگ میں میٹا ڈیٹا لینگویج ضروری ہے۔آٹومیٹک روبوٹ یا چیٹ بوٹ کا انحصار مصنوعی ذہانت پر ہوتا ہے۔ آپ کے ساتھ پورا ایکسپرٹ سسٹم موجود ہوتا ہے مگر آپ کو اس بات کی سمجھ ہونی چاہیے کہ کون سا پیرامیٹر کس وقت منتخب کرنا ہے۔انڈیکیٹرز کیا ہیں۔فاریکس ٹریڈنگ میں پوری دنیا آپ کے سامنے ہے۔ آپ گوگل ویلیج کے اندر کام کررہے ہیں۔کلاؤڈ کمپیوٹنگ کا فائدہ ہی یہ ہے کہ آپ پوری دنیا سے جُڑے ہوئے ہیں اور سرحدوں کی پابندیوں سے مُبَرّا ہوکر آزادی کے ساتھ پوری دنیا سے راابطے میں ہیں۔
عبدالحامد دکنی
ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن
کیپشن: مالیاتی امورکے ماہر سمیع اللہ خان، ڈاکٹر عماد الحق اور نعمان علی خان فاریکس ٹریڈنگ آگاہی سیمینار سے خطاب کررہے ہیں۔