پروفیسر امجد سراج میمن، بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود کی طرح کسی کریش لینڈنگ میں معجزاتی طور پر نئی زندگی حاصل کرنے والے انسان تو ہرگز نہیں ہیں لیکن جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی کرسی پر ان کی لینڈنگ راستے میں آنے والی کافی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے بعد ایک نئی زندگی کی صورت میں ضرور ہوئی ۔ ان کے مخالفین انہیں اسی طرح وزیراعلی سندھ کا لاڈلا سمجھتے ہیں
جس طرح آج کل عمران خان کے سیاسی مخالفین انہیں بعض قوتوں کا لاڈلا قرا ر دیتے ہیں ۔پروفیسر سراج میمن قسمت کے دھنی ہیں ، ان کی لاٹری نکلی ہے یا وہ واقعی اپنی ذہانت و قابلیت صلاحیتوں اور تجربے کی بدولت میرٹ پر
اس کرسی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ؟ اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں ۔ البتہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وہ زندگی بھر پوشیدہ امراض کا بہترین صلاحیتوں کے مطابق علاج فراہم کرتے ہوئے
کئی لوگوں کی زندگیاں ضرور بچا چکے ہیں جس کے لئے ان گنت لوگوں کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں اس حوالے سے اللہ کا ان پر خاص کرم رہا ہے بعض اوقات مریض ان کے پاس اتنا وقت ضائع اور مرض بگاڑ کر پہنچتے ہیں کہ پھر بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ۔اس کے باوجود ڈاکٹر اپنی پوری کوشش کرتا ہے ۔
عام تاثر ہے کہ پروفیسر امجد سراج میمن کو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے
بہت پہلے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کرنے کا ذہن بنا لیا تھا اور اس حوالے سے دو مرتبہ ان کا نوٹیفیکیشن جاری کرنا پڑا ۔پہلی مرتبہ ڈاکٹر لبنی انصاری بیگ ان کی راہ میں بڑی رکاوٹ
بن کر سامنے آگئیں ان کی تقرری کو چیلنج کیا گیا معاملہ عدالت میں گیا اور پروفیسر امجد سراج میمن کو وائس چانسلر کی کرسی پر بیٹھنے سے روک دیا گیا
۔جب تک عدالت فیصلہ کرتی تب تک جناح اسپتال کے ڈاکٹر شاہد رسول کو
نگران وائس چانسلر مقرر کیا گیا اور پھر قانونی لڑائی کے بعد ایک مرتبہ پھر گیند جب وزیر اعلی سندھ کی کورٹ میں گئی تو وہاں سے حسب توقع
بالکل اسی انداز سے فیصلہ صادر فرمایا گیا جس طرح حمزہ شہباز اور پرویزالٰہی کی سیاسی لڑائی کے بعد تین رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا ، یو پروفیسر امجد سراج میمن جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن گئے اور 25 مارچ 2022 کو پروفیسر امجد سراج میمن نے وائس چانسلر کا چارج سنبھالا ۔ان کی تقرری اور چارج سنبھالنے پر یونیورسٹی کے پروفیسرز اور ملازمین نے ان کو مبارکباد پیش کی اور ان کی کامیابی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ۔ڈاکٹر شاہد رسول نے بھی ان کا خیر مقدم کیا اور خوش دلی سے چارج ان کے حوالے کیا ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس عرصے میں وہ عدالتی فیصلے کا انتظار فرما رہے تھے اور میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا پر کچھ عناصر کے خلاف ایک مہم چلا رہے تھے تب ان کے قریبی لوگوں کے مطابق ایک مرحلے پر وہ کافی دل برداشتہ ہو گئے تھے اور انہیں دکھ اپنے خلاف چلائی جانے والی مہم کا نہیں تھا بلکہ اس بات کا افسوس تھا کہ ہمارے یہاں چیزوں کو میرٹ اور قابلیت پر جانچنے کی بجائے
زبان رنگ و نسل اور لسانیت کی بنیادوں پر جانچنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جو ہر لحاظ سے ایک منفی رجحان ہے اور اس کی شدید مذمت ہونی چاہیے اور تمام حلقوں کو اس کی مذمت کرنی چاہیے لیکن ایسا ہو نہیں رہا ۔
پروفیسر امجد سراج میمن کوڈاو کالج اور یونیورسٹی کے ساتھ منسلک رہنے اور سول اسپتال کے ساتھ SIUT کے معاملات میں گہری دلچسپی لینے اور پھر ساوتھ سٹی ہسپتال جیسے جدید اور پرائیویٹ ہسپتال میں سرجن کنسلٹنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کی وجہ سے مجموعی طور پر کراچی کے مختلف میڈیکل کالجوں یونیورسٹیز اور اسپتالوں کے بارے میں وہ وہ سچ معلوم ہے جو بہت سے لوگوں سے آج بھی چھپا ہوا ہے ۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ ہمارے میڈیکل کالجوں یونیورسٹیز اور اسپتالوں کی کمزوریوں خامیوں اور نقائص سے پوری طرح واقف ہیں اور
مسائل کو ان کی جڑ سے جانتے ہیں چاہے وہ انتظامی نوعیت کے ہوں یا دیگر ۔۔۔جناح ہسپتال کے بارے میں بھی وہ بہت سے مثبت اور منفی حقائق سے باخبر ہیں لہذا وائس چانسلر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کی حیثیت سے انہوں نے آنے والی نسل کے ڈاکٹروں کو تیار بھی کرنا ہے اور ان کو درپیش مشکلات ، مسائل کا حل بھی تلاش کرنا ہے یونیورسٹی اور اسپتال سے جڑے ہوئے بہت سے مسائل بالکل سامنے اور صاف صاف دکھائی دے رہے ہیں اور اب تک انہیں یونیورسٹی کی جانب سے بریفنگ بھی مل چکی ہوگی ، مسائل پر قابو پانے کے حوالے سے اب ان سے
توقعات بہت زیادہ ہیں شاید ان کے پاس دستیاب وسائل کم ہو ں؟ لیکن اپنی ذہانت اور تجربے کی بنیاد پر انہوں نے مسائل کا حل تلاش کرکے ان پر قابو پانا ہے اور آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ ان چیلنجوں سے کس انداز میں نبرد آزما ہوتے ہیں اور کیا نتائج سامنے لاتے ہیں ان کی کامیابی کے لیے نیک تمنائیں ۔۔۔۔۔۔!۔
===========================================