کوئٹہ کے جان محمد جِنھوں نے 4 بیویوں سے 33 بچے پیدا کر کے مردم شماری والوں کا نظام درہم برہم کر دیا!

کوئٹہ کے جان محمد جِنھوں نے 4 بیویوں سے 33 بچے پیدا کر کے مردم شماری والوں کا نظام درہم برہم کر دیا!

پاکستان میں آبادی کی شرح میں اضافے کی ایک بڑی وجہ اولاد نرینہ کی خواہش ہے ۔بیٹے کی خواہش میں ماں باپ کئی بیٹیاں پیدا کر چکے ہیں ۔ملکی اور بین الاقوامی ماہرین کے حوالے سے اپنی ریسرچ پیش کر چکے ہیں پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں خاندان کی کفالت مدد کرتے ہیں مرد کماتے ہیں اور پورا گھرانہ اس آمدنی پر گزارہ کرتا ہے یہاں پر عام سوچ بھی یہی ہے کہ گھر میں بیٹا پیدا ہونا چاہیے جب تک گھر میں بیٹا پیدا نہ ہو یا وارث جنم نہ لے لے تب تک اولاد پیدا کرنے کی دوڑ جاری رہتی ہے اس دور میں کئی خاندانوں نے متعدد بیٹیاں پیدا کی ہیں یقینی طور پر بیٹی بھی اللہ کی رحمت ہے اور اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے جتنا بیٹا ۔لیکن کمال گھرانوں میں اور پرانی سوچ رکھنے والے خاندانوں میں بیٹے اور بیٹی کی پیدائش میں فرق سمجھا جاتا ہے اور جائیداد زمین و جاگیر کی وراثت میں بھی بیٹے کو اہمیت دی جاتی ہے اور بیٹے کی پیدائش کی خواہش رکھی جاتی ہے ۔پاکستان کے مختلف علاقوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بیٹے کی خواہش میں نہ صرف متعدد بیٹیاں پیدا ہوئی بلکہ دوسری اور تیسری شادی بھی اس لیے کی گئی تاکہ بیٹے کی پیدائش ممکن ہو سکے لیکن ہر کیس میں ایسا نہیں ہوسکا اور بعض مواقع پر دوسری اور تیسری بیوی بھی اولاد نرینہ نہیں دے سکیں اور مزید بیٹیاں پیدا ہوئی ۔پاکستان جیسے معاشرے میں ایسے خاندانوں کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ بیٹے کی خواہش میں زیادہ اولاد پیدا کرنے کی بجائے جو بیٹی اللہ کی رحمت بن کر آئی ہے اس کی اچھی صحت اور پرورش پر توجہ دیں بیٹیوں کو بھی اعلی تعلیم یافتہ بنائیں انہیں بھی اچھے ہونے تعلیم اور تربیت سے آراستہ کریں آج کے ترقی یافتہ دور میں لڑکیاں بھی تعلیم اور ہنر کے ہر شعبے میں زبردست خدمات انجام دے رہی ہیں اور کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں اور اپنی قابلیت صلاحیت اور ذہانت سے اپنے خاندان اور علاقے اور ملک و قوم کا نام روشن کر رہی ہیں لہذا خواتین کو بھی معاشرے میں آگے بڑھنے کے مواقع میسر ہیں ماں باپ کو صرف بیٹی کی خواہش میں مزید اولاد پیدا کرنے کی دوڑ جاری رکھنے کی بجائے اس بات پر اکتفا کرنا چاہیے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ قدرت نے انہیں بیٹی کی صورت میں اولاد سے نوازا اور بیٹی کو ایک رحمت سمجھ کر اس کی تعلیم و تربیت پرورش اور زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ماں باپ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے معاشرے میں بھی اس قسم کا رجحان پرورش پانا چاہیے کی لڑکیوں کو بھی برابری کے اور یکساں مواقع فراہم کئے جائیں اور آگے بڑھنے سے نہ روکا جائے ان کا اعتماد دیا جائے ان پر کسی قسم کا طنز تفریق اور امتیازی رویہ اختیار نہ کیا جائے لڑکیوں کو بھی لڑکوں کی طرح اپنی صلاحیت و قابلیت و ذہانت ثابت کرنے کے مواقع ملنے چاہیے ۔
پاکستان میں فیملی پلاننگ اور پاپولیشن کنٹرول کے حوالے سے کام کرنے والی سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر مختلف شخصیات اور تنظیموں نے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر رکھا ہے یہ بات قابل تعریف اور لائق تحسین ہے کے شہروں اور دیہاتوں میں لوگوں کو اس بات کا شعور دیا جارہا ہے کہ وہ بیٹے کی خواہش میں اولاد پیدا کرنے کی دوڑ میں زیادہ آگے نہ بڑھیں کم بچے خوشحال گھرانہ ایک معروف اور مشہور سلوگن ہے اس کے علاوہ پیدائش میں وقفہ لازم ہے اولاد کی پیدائش میں مناسب وقفے سے ماں اور بچے کی صحت پر توجہ دینے میں مدد ملتی ہے پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر فیملی پلاننگ اور پاپولیشن کنٹرول کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں ملکی اور غیر ملکی ادارے شخصیات تنظیمیں اس سلسلے میں فعال موثر کردار ادا کر رہے ہیں لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان میں ازدواجی زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ ری پروڈکٹو ہیلتھ سروسز کی فراہمی اور ان تک ہر شخص کی رسائی یقینی بنانے کے لیے ابھی بہت سے مزید اقدامات کی ضرورت ہے یہ بات باعث مسرت ہے کہ پاکستان میں سپریم کورٹ نے پاپولیشن کنٹرول کے معاملے پر سوموٹو ایکشن لیا تھا چیف جسٹس کے حرکت میں آنے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس سلسلے میں ٹاسک فورس اور ضروری اقدامات اٹھانے میں تیزی دکھائی ٹاسک فورس کی سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہر حکومت اور سرکاری شخصیت کی ذمہ داری ہے عالمی ادارے بھی اس معاملے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں غیر ملکی فنڈنگ بھی اس سلسلے میں اپنا کام کر رہی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ غلط تاثر اور غلط سوچ کی نفی کی جائے اور مثبت خیالات کو اجاگر کیا جائے فیملی پلاننگ کوئی بری بات نہیں ہے اس کے فوائد کو سامنے رکھا جائے اس سلسلے میں مذہبی رجحانات اور علماء کی خدمات بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں کالج یونیورسٹی کی سطح پر بھی بالخصوص نوجوانوں کو اپنی شادی شدہ زندگی شروع کرنے سے پہلے چھوٹی فیملی کے فوائد سے روشناس کرنا ان کے آنے والے دنوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے ۔پاکستان میں صوبائی سطح پر پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اس حوالے سے اہم کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان ۔ماری اٹاپس سوسائٹی ۔گرین اسٹار ۔سمیت متعدد این جی اوز اور ادارے اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جن کے کام کو ملکی اور عالمی سطح پر سراہا گیا ہے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان جیسے ملکوں میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ری پروڈکٹو ہیلتھ کے پروڈکٹس کی باآسانی دستیابی یقینی بنائی جائے اور ہر شخص کی باآسانی رسائی کے لیے اقدامات کیے جائیں اس حوالے سے دعوے بہت کیے جاتے ہیں لیکن زمینی حقائق ان دعوؤں کے برعکس ہیں کیونکہ ریپروڈکٹو ہیلتھ کیئر سروسز دور دراز علاقوں میں دستیاب نہیں ہیں گنجان آباد علاقوں گلی محلوں میں خواتین کے لیے ان سروسز کا حصول اور ان تک رسائی سماجی رکاوٹوں کی وجہ سے مشکل ہے اس سلسلے میں میڈیا کو بھی اپنا کردار زیادہ جارحانہ انداز سے موثر بنانا ہوگا ۔سرکار اکیلی اس سلسلے میں مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکتی اسے سول سوسائٹی معاشرے کے بااثر اور ذمہ دار حلقوں اور میڈیا ۔سیاسی و مذہبی جماعتوں اور علماء کے تعاون کی ضرورت ہے ۔خواتین کو اس سلسلے میں زیادہ متحرک اور فعال کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنی بہنوں اور دیگر خواتین کو گائیڈ کرنا ہوگا ۔لیکن ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں اولاد پیدا کرنے کے معاملے میں مرد کی مرضی کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے یہاں پر خواتین کو فیملی پلاننگ پر آمادہ کرنے سے زیادہ مردوں کی ایجوکیشن ضروری ہے مردوں کو اولاد میں وقفہ کی اہمیت اور طریقہ کار اور محفوظ ری پروڈکٹو ہیلتھ کیئر سروسز کی تعلیم اور تربیت دینا ضروری ہے ۔
————————-
—————————
پاپولیشن کنٹرول کے لیے سرگرم اداروں کو چیلنج ۔23 بچوں کے والد محمد انور کھوکھر سے خصوصی گفتگو ۔
————
پاکستان میں پاپولیشن کنٹرول کے لیے سرگرم اداروں اور شخصیات کے لیے ریٹائرڈ سرکاری ملازم محمد انور کھوکھر چیلنج بنے ہوئے ہیں ۔
قیام پاکستان کے وقت ان کا خاندان جونا گڑھ سے ہجرت کرکے کراچی آیا ۔وہ چودہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے ۔
خود محمد انور کھوکھر 23 بچوں کے والد ہیں ان کی چار بیگمات ہیں ۔67 سالہ محمد انور کھوکھر سندھ حکومت کے محکمہ صحت سے ریٹائرڈ سیکشن افسر ہیں اب ان کے بچوں کی اولاد بھی ان کی خوشیوں کا سامان ہے ۔
جیوے پاکستان ڈاٹ کام سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے محمد انور کھوکھر نے بتایا کہ انہوں نے چار شادیاں کیں اور ان کے 23 بچے ہیں جن میں 19 بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں ۔وہ خود یکم مئی انیس سو چون کو دس محرم کے روز پیدا ہوئے ۔ان کی پہلی شادی دو جنوری 1970 کو کراچی میں ہوئی اس وقت ان کی عمر محض 16 برس تھی ۔ان کی پہلی بیگم کا تعلق کراچی کی میمن بانٹوا فیملی سے ہے پہلی بیگم سے ان کے دو بچے ہیں ۔
انہوں نے دوسری شادی انیس سو ستاسی میں ایک کشمیری خاتون سے کی جس سے ان کے پانچ بچے ہیں ۔
انہوں نے تیسری شادی انیس سو بانوے میں ایک پختون فیملی کی خاتون سے کی جہاں سے ان کے پانچ بچے ہیں ۔ان کی چوتھی شادی 2005 میں ایک سندھی اسپیکنگ لڑکی سے ہوئی جس سے چار بچے ہیں ۔

محمد انور کھو کھر 2014 میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے ۔
آج ان کی سب سے بڑی بیٹی اڑتالیس سال کی ہے اور سب سے چھوٹا بیٹا انیس سال کا ہے ۔اپنی 23 اولادوں میں سے انہوں نے اب تک 9 بچوں کی شادیاں کی ہیں وہ بتاتے ہیں کہ گھر میں سب ان سے اردو زبان میں بات کرتے ہیں لیکن سب بچے اپنی اپنی ماؤں سے اپنی مادری زبان میں بولتے ہیں جب ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آیا تو انہیں کراچی کے علاقے لیاری میں نیا آباد میں پٹنی کمپاؤنڈ میں رہائش اختیار کرنے کا موقع ملا ۔انیس سو ستر میں سرکاری ملازم بننے ان کے خاندان کا ایک کھانے پینے کا ہوٹل بھی کاروبار میں شامل تھا انیس سو ستر میں انہوں نے ایس ایم کالج سے انٹر میڈیٹ کیا اور اسی وجہ سے ان کی پہلی شادی ہوئی ۔
ان کا بتانا ہے کہ زیادہ بیگمات اور زیادہ اولاد ہونے کے باوجود انہیں کبھی معاشی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ان کے مطابق کبھی پاپولیشن ڈیپارٹمنٹ سے کوئی نمائندہ یا این جی او ان کے پاس نہیں آئی ۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے تمام بچوں کی اچھی تعلیم کی اور کم از کم انٹرمیڈیٹ اور زیادہ سے زیادہ بچوں کو ماسٹر بھی کرایا ۔
زیادہ اولاد ہونے کے باوجود ان کی تمام بیگمات اور تمام بچے بالکل صحت مند اور ٹھیک ٹھاک ہیں ۔سب کا ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک بھی مثالی ہے ۔
زیادہ شادیوں اور اولاد کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں حسن کا شوقین ہوں عورت کا حسن مجھے اچھا لگتا ہے اور میں جائز طریقے سے نکاح کرکے شادی کرتا ہوں اس میں کوئی غلط بات نہیں ۔
اس سوال پر کہ ایک دن ہاتھ سے چار بیویاں اور گھر کیسے چلاتے رہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ میں دو جگہ پرائیویٹ پارٹ ٹائم جاب بھی کرتا تھا آصف زرداری کے والد کے سینما پر بھی گیٹ کیپر کا کام کیا اور آصف زرداری کے دور میں سات سال کام کرتا رہا ۔
ایک بیگم سرکاری ملازم ہے اور وہیل پارلیمنٹ میں نوکری کرتی ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ انھیں سرکاری وابستگی کی وجہ سے بعض سیاسی معاملات میں گرفتار بھی کیا گیا اور انہیں قید بھی کاٹنا پڑی ۔
ان کا کہنا ہے کہ اللہ پر بھروسہ ہو زندگی میں کوئی چیز مشکل نہیں ہوتی ۔رزق دینے کا وعدہ اللہ نے کیا ہے زیادہ اولاد سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ۔
————–
e -amil—–jeeveypakistan@yahoo.com
whatsapp—–92-3009253034