خالی پیٹ دماغ کی بتی نہیں جلتی….!!!

امجد عثمانی
پسرور سے مسلم لیگ ن کے رکن پنجاب اسمبلی رانا لیاقت علی کا چیلنج ہے کہ انہوں نے 8سال میں ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز سے ایک پائی کمیشن نہیں لی……مروجہ سیاسی کلچر میں یہ “بڑا دعوی “ہے مگر کیا کریں کہ استاد گرامی جناب ابن آدم پسروری بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں……معتبر و مستند صحافی،شاعر و ادیب اور ماہرتعلیم و تاریخ جناب پرویز باجوہ ادبی حلقوں میں ابن آدم پسروری کے نام سے مشہور ہیں ….روشن دل،روشن دماغ ،خوش شکل اور خوش گفتار باجوہ صاحب گل و بلبل،حسن و جمال ،ہجر و وصال کی باتیں کرنے والے آدمی ہیں…..حیرت ہے عین شباب میں لاہور کے “چاند چہرے” انہیں اپنی جانب کھینچ سکے نہ تاشقند کے” لالہ رخ” اپنے رنگ میں رنگ سکے……وہ پسرور کے “سرور” میں اتنے” مخمور و مستور “رہے کہ اسی” در” پر بیٹھے بیٹھے “ادھ بابے” ہوگئے……کہیں اور نہیں ،داتا کی نگری میں ہی ہوتے تو لوگ انہیں مرشد مان کر ان کے جوتے اٹھاتے، ہاتھ چومتے اور گھٹنے چھوتے…….گورنمنٹ مڈل سکول گڈگور میں یہی ہمارے رول ماڈل تھے جنہوں نے ہمیں بچپن میں ہی صحافت کی راہ دکھا دی تھی……..
جناب ابن آدم پسروری رانا لیاقت کی” وفا بھری کہانی” سناتے ہیں کہ وہ سیالکوٹ میں خواجہ آصف کیمپ کے ابھرتے ہوئے سیاستدان ہیں…. 2013 میں پہلی مرتبہ ن لیگ کے ٹکٹ پر ایم پی اے بنے…. 2018 میں جناب زاہد حامد آڑے آگئے….رانا صاحب آزاد ہی الیکشن لڑے اور جیت گئے….ان دنوں جناب جہانگیر ترین پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت کے قیام کے لیے دوڑ دھوپ کر رہے تھے…..جہاں کوئی” آزاد بندہ” ملتا جہاز لیکر پہنچ جاتے……مذاکرات کرتے اور بنی گالہ پیش کر دیتے…..خان صاحب اسے” جماعتی مفلر” پہناتے اور وہ تحریک انصاف کو “پیارا” ہوجاتا….. اس لحاظ سے رانا صاحب” بڑے قیمتی” تھے…..انہیں بھی مالی پیکیج اور وزارت کی پیشکش ہوئی…..دوستوں نے بہت سمجھایا کہ اچھا چانس ہے، مس نہ کریں مگر انہوں نے اپنے دل کی مانی اورخواجہ آصف کیساتھ لاہورپہنچ کر ن لیگ میں شامل ہوگئے……بلا شبہ پرکشش مراعات ٹھکرانے والے رانا لیاقت ایسے “انمول لوگ” ٹھیکوں سے کمیشن نہ لینے کا دعوی کرسکتے ہیں…یادش بخیر!کوئی چار سال پہلے شہر اقبال کے شاہین صفت صحافی دوست جناب ڈاکٹر شمس جاوید کی “قیادت” میں نامور اسلامی سکالر ڈاکٹر احمد علی سراج کیساتھ رانا لیاقت سے ان کی کینٹ رہائش گاہ پر چائے پینے کا اتفاق ہوا….وہ بڑے تپاک سے ملے اور واپسی پر خود دروازہ کھول کر ڈاکٹر سراج کو گاڑی میں بٹھایا……
ٹھیکوں والی کمیشن کی بات چلی تو اپنے سیاسی اکابرین کو کون سمجھائے کہ سینٹ الیکشن میں ووٹ بیچنا ہی نہیں،عوام کے لیے مختص سرکاری فنڈز سے” حصہ ” وصول کرنا بھی “کرپٹ پریکٹس” ہے…..آپ اسے رشوت کی” پولیٹیکل فارم “کہہ سکتے ہیں..عجیب “مغالطہ” ہے کہ رشوت کو ناجائز سمجھنے والے “حضرات گرامی” کمیشن کو جائز بلکہ حق سمجھتے ہیں….کیا حرام چیز لیبل بدلنے سے حلال کیسے ہو سکتی ہے….؟؟؟سندھ ،کے پی اور بلوچستان کا تو باوا آدم ہی نرالہ ہے ….پنجاب میں کتنے ارکان اسمبلی یہ حلف دے سکتے ہیں کہ وہ ترقیاتی فنڈز سے کمیشن نہیں لیتے….شاید رانا لیاقت ایسے گنتی کے چند لوگ ہی ملیں جو یہ قسم دے سکیں ورنہ تو یہاں تو چھوٹا موٹا منصب ملتے ہی اچھے بھلے دل و دماغ والے لوگ” معدے “سے سوچنا سمجھنا شروع کر دیتے ہیں…….ان” بے چاروں “کی حالت دیکھ کر بچوں کے کارٹون کا وہ” موٹو” یاد آتا ہے جو اپنے ساتھی “پتلو” کو بات بات پر کہتا ہے کہ پہلے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کرو کہ خالی پیٹ میرے دماغ کی بتی نہیں جلتی……کہتے ہیں کہ یہ” کمیشن” عام طور پر چار فیصد ہوتی ہے جبکہ” ٹین پرسنٹ ” خاص درجہ ہے…..یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کمیشن کلچر کے فروغ میں “ٹھیکیدار مافیا “کا بڑا ہاتھ ہے…..وہ سیاستدانوں کے “مزاج گرامی” کے مطابق ان کی” خدمت” کرکے “من کی مرادیں” پاتے ہیں…….. اسی “شعبے” سے وابستہ ایک صاحب کسی پر سود کھانے کا الزام لگا رہے تھے…. میں نے پوچھا کمیشن اوررشوت بارے کیا خیال ہے تو چپ سادھ گئے….خفیہ اداروں نے کبھی اس “موضوع”پر کام کیا تو ہوشربا انکشافات ہونگے…..الیکشن کمیشن نے کبھی انتخابی فارم میں اس “کھاتے” کیخلاف شق شامل کرلی تو بڑے بڑے صادق و امین بڑے بے آبرو ہو کر اس” کوچے” سے نکلیں گے..!!!
بد قسمتی سے معاشرے میں مجموعی طور پر کمیشن اور رشوت کلچر عام ہوتا جا رہا ہے…..لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ جائز کام بھی پیسوں کے بغیر نہیں ہوسکتا…..اگر کہیں کوئی ایسا” عجوبہ “ہوجائے تو وہ ایسی” حرکت”کرنے والے بندے کو “مشکوک” سجھنے لگتے ہیں….ایسے ایسے “معاشرتی نمونے” دیکھنے کو ملتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے……. میرے ایک ملنے والے ماتحت عدالت میں زمین کا کیس ہار گئے…..وہ ہائیکورٹ میں اپیل کرنا چاہتے تھے….میں انہیں ایک نامور وکیل کے پاس لے گیا…..وہ صاحب کچھ عرصہ جج بھی رہے تھے…..انہوں نے محبت بھری چائے پلائی اور بولے آپ بڑے معتبر ریفرنس سے آئے ہیں …..سچی بات ہے کہ آپ کا کیس بہت کمزور ہے….میں کوئی لالی پاپ نہیں دے سکتا…..پوری دل جمعی سے کیس لڑوں گا ،باقی آپ کی قسمت…….میرے ملنے والوں کو سچ کڑوا لگا….انہوں نے مجھے لاہور پریس کلب اتارا اور چکر کاٹ کر پھر ہائیکورٹ کسی اور وکیل کے پاس چلے گئے….پھر مجھے فون کیا کہ ہماری ایک بڑے وکیل سے چار پانچ لاکھ میں بات طے ہو گئی ہے…..ایک دو مہینے میں کیس ہمارے حق میں ہوگا……آج اس بات کو پانچ چھ سال ہو گئے ہیں وہ ادھر ہی اٹکے ہوئے ہیں………
ایک اور ملنے والے کا کسی کے ساتھ پراپرٹی کا تنازع تھا…..فرمانے لگے کہ آپ کے فلاں دوست چاہیں تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے….میں نے اپنے متعلقہ صاحب کو فون کر دیا…..کچھ دن گذرے وہ بھائی تشریف لائے…..میں نے پوچھا کیا بنا…بولے آپ کے بندے کا تو کوئی حال نہیں……. فلاں “پھنے خان” کو ایک لاکھ دیے……میں نے ایک دو مرلے چھوڑ دیے….مسئلہ حل اور صلح ہو گئی ہے……
ایک نمازی پرہیزی دوست کی ٹرانسفر کا مسئلہ تھا…..کہنے لگے آپ کے فلاں دوست یہ کام کر سکتے ہیں….میں نے انہیں لیکر ان کے پاس گیا….انہوں نے درخواست لے لی اور پروسیجر شروع ہو گیا…..کوئی مہینہ گذرا ہوگا کہ وہ صاحب پھر اگئے…..کہنے لگے کہ یہ کام پیسوں کے بغیر نہیں ہوگا …….میں نے کہا کہ ایسی بات نہیں وہ ذاتی دلچسپی سے معاملہ دیکھ رہے ہیں…..کہنے لگے ٹھیک ہے مگر بڑے لوگ منہ سے تو نہیں مانگتے….کسی کی کوئی عزت بھی ہوتی ہے…..پھر دلیل دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے دوست نے ایک دن باتوں باتوں کہا تھا کہ میری گاڑی کے ٹائر پرانے ہوگئے ہیں…..آپ سیدھے سادے آدمی ہیں….یہ اشارے ہوتے ہیں…..میں ان کے اس” اشاراتی ابلاغ” پر حیران رہ گیا…….پھر وہ کام ایک پائی خرچ کیے بغیر ہو گیا…………کسی ایک سے کیا شکوہ ،زندگی کے ہر شعبے میں عام سے خاص تک یہی چلن عام ہے……جیسی روح ویسے فرشتے….!!!