ریاست جونا گڑھ کا ایشوصرف اسی ریاست کے لوگوں کا نہیں، پاکستان کا ایشو ہے

انٹرویو: یاسمین طہٰ عکاسی: سلطان چاکی

ہماری عوام چاہتی ہے کہ پاکستان جونا گڑھ کے مسئلے کو تمام بین الاقوامی فورمز پر اجاگرکرے
حکومت پاکستان ہمارے مرتبے کے لحاظ سے ہمیں پروٹوکول نہیں دیتی ہے،
جونا گڑھ اسٹیٹ کے 11 ویں نواب محمد جہانگیر خان جی سے انٹرویو


ریاست جونا گڑھ کا قیام 1748ء میں عمل میں آیا۔ اور 1818میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا لیکن سوراشرا کا علاقہ برطانوی راج کے انتظامیہ کے براہ راست تحت کبھی نہیں آیا۔ اس کی بجائے برطانیہ نے اسے ایک سو سے زیادہ نوابی ریاستوں میں تقسیم کر دیا، جو 1947تک قائم رہیں۔ قیام پاکستان کے وقت اس ریاست کے نواب محمد مہابت خان جی سوم نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ پاکستانی حکومت کی طرف سے 15 ستمبر1947 کو اس کی منظوری دے دی گئی۔اس ریاست کے ماتحت دوریاستیں تھیں (1)منگروال (2)بابری آباد۔ ان دوریاستوں نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا جس پر نواب جونا گڑھ نے ان دونوں ریاستوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کردی۔ ان دونوں ریاستوں کے حکمرانوں نے حکومت ہندوستان سے مدد کی،جس کے بعد ہندوستانی فوجوں نے 9 نومبر1947کو ریاست جوناگڑھ پر حملہ کر دیا۔ اس دوران ایک جلاوطن گروپ نے ایک عارضی حکومت قائم کی جس کا سربراہ سمل داس گاندھی کو مقرر کیا گیا جو مہاتما گاندھی کا بھتیجاتھا۔نواب جہانگیر خان کے دادا نواب محابت خان جی قائداعظم محمد علی جناح کی دعوت پر پاکستان تشریف لائے اس وقت حکومت پاکستان سے ایک معاہدہ طے پایا، ہندوستان کی ریاستوں کو برطانیہ کی حکومت نے تین آپشن دیے تھے یا تو آزاد حیثیت برقرار رکھیں یا بھارت کے ساتھ الحاق کرلیں یا پاکستان کے ساتھ جونا گڑھ اسٹیٹ نے اس حقیقت کی باوجود کہ اس کی سرحدیں پاکستان سے نہیں ملتی تھیں پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا اور قائداعظم کی دعوت پر نواب مہابت خان پاکستان آگئے۔ذوالفقار علی بھٹو کے والد شاہنواز بھٹو نواب محابت خان کے دیوان رہ چکے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے بھی مختصر عرصہ کے لئے نواب صاحب کے دیوان کے فرائض انجام دئے نواب جہانگیر خان کے والد دلاور خان زوافقار علی بھٹو کے دور میں گورنر سندھ رہ چکے ہیں۔ جب نواب مہابت خان نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تو اس کا پنڈت جواہر لال نہرو کو بہت صدمہ ہوا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ بھارت کی بائیس ارب پتی ریاستیں ہیں ان میں سے بیشتر کا تعلق جونا گڑھ سے تھا اور ارب پتی خاندانوں میں میمن خوجہ اور بوہری فرقے سے تعلق رکھنے والے بھی جونا گڑھ اوراس سے ملحقہ ریاستوں سے تھے۔ نہرو کو یہ اندازہ تھا کہ اگر نواب صاحب پاکستان چلے گئے تو ساری دولت بھی چلی جائے گی نواب محابت خان کے پاکستان منتقل ہونے کے ساتھ ہی بھارت میں موجود ارب پتی خاندان جس میں سہگل ولیکا اور آدم جی خاندان شامل تھا۔پاکستان شفٹ ہوئے اور پاکستان کے خزانے کو اپنی دولت سے بھر دیا۔جب کہ نواب مہابت خان کے دادا نے کئی من سونا پاکستان کو تحفے میں پیش کیا۔پاکستان کے لئے اپنی تمام دولت وقف کرنے والے نواب مہابت خان کے پوتے اور جونا گڑھ اسٹیٹ کے 11 ویں نواب محمد جہانگیر خان جی سے اوصاف نے خصوصی گفتگو کی۔گفتگو کے دوران یہ اندازہ ہوا کہ حکومت پاکستان کے ایک گزیٹ نوٹیفکیشن کی رو سے اسٹیٹ لیول کی تقریبات میں نواب آف جونا گڑھ کو مدعو کیا جانا چاہیئے، لیکن اب تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔جب کہ ان کے دادا نے اپنی تمام دولت پاکستان کے لئے وقف کردی تھی۔درج ذیل میں ان سے گفتگو کامتن پیش کیا جارہا ہے۔
اوصاف:اقوام متحدہ میں جونا گڑھ کے حوالے سے قرارداد کس مرحلے میں ہے؟
نواب جہانگیرخانجی:میں اوصاف اخبار کا بے حد شکرگزار ہوں کہ مجھے یہ موقع دیا کہ میں اپنا نکتہ نظر عوام تک پہنچاؤں اور میں اوصاف اخبار کا بڑا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے جونا گڑھ کے حوالے سے ہمیشہ ہی ہمارے موقف کو عوام کے سامنے پیش کیا۔میں سب سے پہلے آپ کو جوناگڑھ کی تاریخ کے حوالے سے بتانا چاہوں گا 1947 میں جب ہمارے دادا حضور نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ریاست کا الحاق پاکستان کے ساتھ کرنا چاہ رہی ہیں جونا گڑھ اسٹیٹ کونسل میں ہندو اور مسلمان دونوں موجود تھے اس وقت ہم نے دونوں قومیت سے رائے لی کہ جونا گڑھ کو کس ملک کا حصہ بننا چاہیئے جس پر دونوں نے ہمارے دادا حضور پر اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ ہماری آئندہ نسلوں کیلئے بہتر ہوگا 9 نومبر 1947 کو بھارت نے اپنی فوجیں بھیج کر جونا گڑھ پر قبضہ لے لیا اس سے قبل 25 اکتوبر 47 میں ہمارے دادا نے قائداعظم سے ملاقات کی تھی ہم نے پاکستان سے الحاق کا جو معاہدہ کیا تھا وہ ایک بین الاقوامی معاہدہ تھا اس معاہدے میں ہم نے پاکستان کو فارن افیئرز اور ڈیفینس اور مواصلات کا شعبہ پاکستان کے حوالے کیا تھا۔سرظفر اللہ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ تھے انہوں نے جونا گڑھ کے پاکستان سے الحاق کا کیس اقوام متحدہ میں داخل کیا۔ 1948 میں سلامتی کونسل نے ایک رولنگ دی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ہم علاقے کی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے کشمیر کو دیکھیں گے اس کے بعد ہم جونا گڑھ کے مسئلے پر کام کریں گے۔


اوصاف:کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی ابتداء سے ہی نیت صاف نہیں تھی کیوں کہ دونوں مسئلے اب تک حل نہیں ہوسکے؟
نواب جہانگیرخانجی:مجھے نہیں معلوم کہ اقوام متحدہ نے یہ رولنگ کیوں دی، لیکن میرا یہ خیال ہے کہ یہ کام اسی وقت ہوجانا چاہیئے کشمیر پر تو دو قراردادیں آچکی ہیں لیکن ہندوستان اس کو ماننے کو تیار نہیں ہے ہندوستان نے تو جونا گڑھ کے حوالے سے ایک صحافی سمل داس گاندھی نے بمبئی میں عارضی حکومت کا نعرہ لگایا ہے جو ہندوستان کی چال تھی اور ہندوستان نے ہی اسے اس صحافی کو اس حوالے سے تیار کیا ہے اور اپنے لشکر کو لیکر جونا گڑھ کا قبضہ لینے کا کہا اگر وہ جوناگڑھ میں داخل ہوتا تو قتل و غارت کردیتا یہ اور بات ہے کہ ہندوستانی فوجوں نے بھی وہاں قتل و غارت کیا جس طرح آج کشمیر میں کر رہے ہیں۔
اوصاف:بھارت کشمیر کی قرارداد کے حوالے سے ہمیشہ ردعمل دکھاتا ہے تو کیا جونا گڑھ کی قرارداد جب بھی آئے گی تو بھارت کا طرز عمل یہی ہوگا؟
نواب جہانگیرخانجی:میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا ہم صرف اس وقت دیکھو اور انتظار کی پالیسی پر گامزن ہیں جوناگڑھ کا ایشو ستر سال پرانا ہے پانچ سو باسٹھ ریاستوں میں سے یہ امیر ترین ریاستوں میں دوسرے نمبر پر ہے اس پوری ریاست پر ہندوستان سے قبضہ کرلیا اس کے بعد بھارت نے خاموشی اختیار کرلی،اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارت میں اقلیتیوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
اوصاف:اقوام متحدہ آپ کو جونا گڑھ کے مسئلے کے حوالے سے کتنا سنجیدہ لگتا ہے اور آپ کی مستقبل کی کیا حکمت عملی ہے؟
نواب جہانگیرخانجی:دراصل ہمارا امور خارجہ کا شعبہ پاکستان کے پاس ہے اس لیئے یہ میرا مسئلہ نہیں ہے کہ جونا گڑھ کے مسئلے کو کس طرح اٹھایا جائے اور پاکستان کی کیا پالیسی ہونا چاہیئے یہ پاکستان ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی کیا پالیسی ہونا چاہیئے اس لیئے ہم اس میں مداخلت نہیں کریں گے۔
اوصاف:اس مسئلے پر پاکستان کے کردار کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
نواب جہانگیرخانجی:1960 میں جب ایوب خان کا دور تھا اس میں جونا گڑھ کو نقشوں میں پاکستان کا حصہ بتایا گیا تھا 80 کی دہائی کے بعد لوگوں نے کمرشل طور پر نقشے بنانا شروع کردیئے جو اسٹیشنری شاپ پر دستیاب ہوتے ہیں اور اس میں جونا گڑھ کو پاکستان کا حصہ نہیں دکھایا گیا،اس مسئلے کو ہم نے 1985 میں اٹھایا بھی کہ جونا گڑھ کو پاکستان کے نقشے میں کیوں نہیں دکھایا گیا اسکے بعد پاکستان نے یہ قدم اٹھایا کہ جونا گڑھ کے بغیر پاکستان کا نقشہ جو بھی دکھائے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور اسے سزا دی جائے گی جو ہمارے لیئے باعث تسکین ہے۔
اوصاف:حکومت پاکستان آ کو کتنا پروٹوکول دیتی ہے اور سندھ گورنمنٹ آپ کو کتنی اہمیت دیتی ہے کیا آپ کو تقریبات میں مدعو کیا جاتا ہے؟
نواب جہانگیرخانجی: ہمارے مرتبے کے حساب سے ہمیں پروٹوکول نہیں دیا جاتا ایک گزیٹ نوٹیفکیشن موجود ہے جس کی رو سے اسٹیٹ لیول کی تقریبات میں ہمیں بھی مدعو کیا جانا چاہیئے کیا چاہے وہ وفاقی نوعیت کی تقریبات ہوں یا صوبائی اس میں نواب آف جونا گڑھ کو مدعو کیا جانا چاہیئے لیکن اب تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
اوصاف:اس حوالے سے اور کچھ کہنا چاہیں گی؟
نواب جہانگیرخانجی:جونا گڑھ کا ایشوا صرف جونا گڑھ کے لوگوں کا نہیں یہ تمام پاکستان کے لوگوں کا ایشو ہے میں آپ کے اخبار کے توسط سے یہ کہنا چاہوں گا کہ میڈیا کے تمام ادارے ہمارا ساتھ دیں جونا گڑھ کا ایشو ایک اہم مسئلہ ہے جس کے حل کیلئے ہمیں میڈیا کا تعاون چاہیئے ہماری ریاست کے لوگ پاکستان کی محبت میں ہجرت کرکے یہاں آئے ہیں اور انہوں نے اپنے گھر بار قربان کردیئے ہیں اور ہم تو خالی ہاتھ وہاں سے آئے ہیں پاکستانیوں کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں۔
اوصاف:آپ حکومت پاکستان کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
نواب جہانگیرخانجی: ہم پاکستان کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے جونا گڑھ کو اپنا حصہ بنایا اور ہماری عوام چاہتی ہے کہ پاکستان جونا گڑھ کے مسئلے کو دنیا کے سامنے لائے اور تمام بین الاقوامی فورمز پر اس کے حوالے سے بات کرے جیسے کشمیر کیلئے کر رہا ہے اور جونا گڑھ کا مسئلہ بھی دنیا کے سامنے اجاگر کرے۔
————Ausaf———–