براڈ شیٹ کا تنازعہ ہے کیا ؟کس نے رشوت مانگی کس نے این آر او دیا ؟موسوی کی باتیں جھوٹی ہیں تو شہزاد اکبر کو بچا کرنا چاہیے ؟

جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ موسوی کی باتیں جھوٹی ہیں تو شہزاد اکبر کو پرچہ کرنا چاہئے،نمائندہ جیو نیوز مرتضٰی علی شاہ نے کہا کہ براڈشیٹ کے موسوی کیساتھ ملاقات ہوئی، بیرسٹر ظفرعلی ان سے ملے،میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ براڈ شیٹ کمپنی سے جڑا ایک اور تنازع اٹھ کھڑا ہوا ہے،ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ انجم ڈار کو میں نہیں جانتا ۔ انجم ڈار کے خلاف پرچہ دائر کرائیں 2012 ء میں اگر موسوی کو آفر ہوئی ہے تو انہیں اسی وقت پولیس کے پاس جانا چاہیے تھاا سطرح کی باتیں کرنے سے بات نہیں بنے گی۔اگر موسوی کی باتیں جھوٹی ہیں تو شہزاد اکبر کو پرچہ کرنا چاہیے ۔ براڈ شیٹ کی یہ حقیقت ہے کہ ساڑے چھ ارب روپے حکومت پاکستان کے خرچ کیے گئے صرف ایک شخص کے خلاف مواد ڈھونڈنے کے لیے اور آج بیس سال گزرنے کے بعد ایک پیسے کا بھی نوازشریف کے خلاف ثبوت نہیں ہے کیا موسوی نے نوازشریف کے بارے میں نیب کو کوئی ثبوت دیا ہے۔ 2017 میں موسوی نے ایک ارب ڈالر کے حوالے سے بتایا تھا اس کے جواب میں شاہد خاقان نے کہا کہ موسوی نے کہا ہے کہ میں نے نیب کو یہ بات کی تھی اور انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی جتنا عرصہ نوازشریف اقتدار میں رہے ہیں جتنا عرصہ میں رہا ہوں ہم نے کبھی نیب سے کوئی رابطہ نہیں کیا نا ان کو کہا کہ کسی پر کارروائی کریں یا نہ کریں میں دس مہینے وزیراعظم رہا ہوں جس میں میں نے کبھی نیب سے ملاقات نہیں کی نہ کوئی میٹنگ ہوئی۔ براڈ شیٹ کا معاہدہ بھی نیب نے کیا پیمنٹ بھی نیب نے کی اس کا کم از کم ہماری حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے موجودہ حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہم نے وزیر بھی رکھے ہوئے ہیں جواحتساب کرتے ہیں نیب سے مشاورت کرتے ہیں۔جو فیصلہ براڈ شیٹ کے حق میں برطانوی عدالت میں آیا ہے اس کو پبلک ڈاکیومنٹ کردیں اس کے اندر سب نام موجود ہیں اور یہ رپورٹ نیب کے پاس پہلے سے موجود ہے اور آج یہ عدالت کی کارروائی کا حصہ بھی بن چکی ہے۔ نوازشریف سے ہم نے 2018 ء کے الیکشن کے حوالے سے بات کی ہے اور اس الیکشن میں دھاندلی کی وجہ سے ملک میں خرابیاں ہیں اس کا کتنا اثر ہے، اگر ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ مناسب سمجھا ہے کہ وہ کہیں فوج ملک کی سیاست میں مداخلت نہیں کرتی تو یہ بہت اچھی بات ہے میں فوج کی بات کو فیس ویلیو کے طور پر قبول کرنا چاہتاہوں لیکن انہیں یہ بات عملاً ثابت کرنی ہوگی اور یہی پی ڈی ایم اور ہر پاکستان کی ڈیمانڈ ہے کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے۔آج سے تین دن پہلے کی بات بتاتا ہوں ہمارے تین ایم این ایز سے رابطہ کیا گیا اسٹبلشمنٹ کی طرف سے کہ آپ استعفیٰ نہ دیں یہی باتیں ثبوت ہوتی ہیں کہ اسٹبلشمنٹ کا انٹرسٹ ہے سیاست میں اور ملک کی خرابی کی بنیاد یہی مداخلت ہے ۔
https://jang.com.pk/news/871873?_ga=2.182815590.1944550781.1610591584-495937540.1610591584
——————-
لندن (مرتضیٰ علی شاہ) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر اس شخص کے ساتھ موجود نہیں تھے جس نے لندن میں گزشتہ موسم گرما کے دوران براڈ شیٹ کے مالک کے ساتھ ملاقات کی تھی تاکہ سیاست دانوں اور دیگر افراد کے مبینہ اثاثوں کا کھوج لگانے کیلئے نیا معاہدہ کیا جا سکے۔

براڈ شیٹ کے چیف ایگزیکٹو افسر کاوے موسوی نے دی نیوز اور جیو نیوز سے خصوصی بات چیت کی جس میں ان کے نیب کے ساتھ تمام معاملات اور پہلوئوں پر بات ہوئی تاہم انہوں نے تصدیق کی کہ پاکستانی عہدیدار نے جب اُن سے ملاقات کرکےنئے معاہدے کیلئے رشوت مانگی تھی تو اس وقت شہزاد اکبر موجود نہیں تھے ۔

موساوی نے شہزاد اکبر پر شدید تنقید کی کیونکہ انہوں نے درست انداز سے بات چیت نہیں کی جس کی وجہ سے مسائل کے حل کیلئے مذاکرات میں ناکامی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ شہزاد اکبر نے فیصلے کی رقم اور حکومت پاکستان کے اخراجات میں ’’ڈسکائونٹ‘‘ کا مطالبہ کیا تھا۔

موسوی نے کہا کہ انہوں نے شہزاد اکبر سے دو مرتبہ ملاقات کی جن میں سے ایک رائل گارڈنز ہوٹل اور دوسری چیلسی آرٹس کلب میں ہوئی جس میں مقدمہ بازی کے خاتمے پر بات ہوئی لیکن شہزاد اکبر اُس وقت موجود نہیں تھے جب کیفے رائوج میں ایک پاکستانی عہدیدار کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی جس میں پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ نئے معاہدے کے حوالے سے بات چیت میں اس افسر نے رشوت مانگی۔

شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ انہوں نے موسوی سے 2019ء میں ملاقات کی تھی تاکہ ادائیگی کی رقم میں کمی کرائی جا سکے۔

یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایک نامعلوم شخص شہزاد اکبر کے ساتھ مل کر موسوی سے ملنے گیا تھا اور یہ شخص مشتبہ افراد کیخلاف تحقیقات کی بجائے اپنے حصے میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔ براڈ شیٹ کے مالک نے جیو نیوز کو بتایا ہے کہ ان کی شہزاد اکبر کے ساتھ دو ملاقاتیں ہوئیں جن میں ادائیگی کی رقم طے کرنے پر مذاکرات ہوئے لیکن اس کوشش کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ پاکستان نے ادائیگی نہیں کی اور موسوی نے عدالتی فیصلے کے ذریعے پاکستان سے رقم وصول کی۔

مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق براڈشیٹ نے عمران خان حکومت سے ایک اور معاہدے کے لئے بات چیت کی‘ کمپنی کے نمائندے بیرسٹر ظفر علی نے وزیر اعظم عمران خان اور مشیر احتساب شہزاد اکبر سے ملاقات کی ‘کاوے موسی نے نمائندہ جیو نیوزسے گفتگو میں انکشاف کیاکہ شہزاد اکبر نے یہ بھی بتایاکہ علی ظفر سے ملاقات کے لئے انہیں پاکستان کی ایک بہت طاقتور شخصیت نے کہا تھا ۔

موسوی نے کہا کہ نوا زشریف خاندان یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہے کہ لندن عدالت میں انہیں ایون فیلڈ کیس سے بری کردیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس سلسلے میں عدالت میں دائر درخواست واپس لینی تھی ‘ شہزاد اکبر اگر یہ کہتے ہیں تو بالکل جھوٹ کہتے ہیں کہ میں نے براڈ شیٹ کو خریدا حقیقت یہ ہے کہ میں براڈ شیٹ کو شروع ہی سے مسلسل فنڈ کرتا رہا ہوں‘معاہدے کی خلاف ورزی مشرف حکومت نے کی لیکن اس کہ ذمہ دار پاکستانی ریاست ہے
https://jang.com.pk/news/871855?_ga=2.258288714.1944550781.1610591584-495937540.1610591584
———————
جیو کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہاہے کہ مشرف حکومت میں براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ ہوا اور جب وہ کسی نتیجے پر پہنچنے لگے تو پہلا این آر او آگیا اور انکوائری رک گئی، رہنما مسلم لیگ نون سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ ایک ایسی فرم جس کا کنٹریکٹ 2003 میں ختم ہوچکا ہے اس کو 2012 میں کوئی کیوں رشوت دے گا، پیپلز پارٹی رہنما ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ہماری طرف سے کلیئر ہے جو بھی لانگ مارچ ہوگا اسلام آباد کی طرف ہوگا۔تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی ویر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ مشرف حکومت میں براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ ہوا اور جب وہ کسی نتیجے پر پہنچنے لگے تو پہلا این آر او آگیا اور انکوائری رک گئی ، ہمیں اس وجہ سے براڈ شیٹ کو پیمنٹ کرنی پڑی کیوں کہ ان کے ڈیوز سیٹل نہیں کیے گئے تھے انہوں نے ایمبسی پر سوال اٹھا دیا اس لیے پیمنٹ کرنی پڑی۔ رہنما مسلم لیگ نون سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ اس کمپنی کو جب کنٹریکٹ دیا گیا تب یہ صرف چھ مہینے پہلے وجود میں آئی تھی اور کنٹریکٹ کے ساتھ دو سو لوگوں کی لسٹ دی گئی جو سیاسی حریف تھے مشرف کے اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیاکہ جو لوگ ان کے ساتھ مل گئے ہیں ان کے نام لسٹ سے ہٹا دیئے گئے پھر 2003 ءء میں یہ کنٹریکٹ ختم کر دیا گیا۔ پرویز مشرف کے دور میں کہا گیا کہ ہم نے اتنے ارب ڈالر یا روپے وصول کر لیے ہیں پکڑ لیے ہیں جیسے آج کل شہزاد اکبر آکر کہتے ہیں ہم نے اتنے پکڑ لیے ہیں بالکل وہی ماڈل فالو کیا گیا جو مشرف دور میں کیا گیا تھا اگر آپ نے بلین پکڑ لیے ہیں تو ان کے ساتھ جو کنٹریکٹ تھا کہ بیس یا پچیس فیصد دیں گے تو ان کا پچیس ملین ڈالر بنتا تھا انہوں نے اپنے ادائیگی کا مطالبہ کردیا

https://jang.com.pk/news/871872?_ga=2.258288714.1944550781.1610591584-495937540.1610591584

———————-
لندن ( مرتضیٰ علی شاہ… عمر چیمہ ) تحریک انصاف کی حکومت اور اسیٹس ریکوری فرم براڈ شیٹ کے درمیان شریف خاندان کے مبینہ ایک ارب ڈالرز کے حصول کی کوششیں کٹوتیوں پر تنازع کی نذر ہوگئیں ۔یہ کٹوتیاں مبینہ طور پر پاکستانی حکام نے طلب کی ہیں ۔

پیغامات کے تبادلے پر مشتمل دستاویز اور بات چیت کی تفصیلات کے مطابق حکومت نواز شریف کے سنگاپوری بینک میں جمع مبینہ ایک ارب ڈالرز کی بازیابی کے لئے براڈ شیٹ کی خدمات حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن پاکستانی حکام کی جانب سے کٹوتیوں کے مذکورہ ریکوری فرم آڑے آگئی ۔

یہ خفیہ تصفیہ کمیونیکیشن کے عنوان سے قانونی فرم کروویل اینڈ مورنگ نے تیار کی ہے ۔ جس کا اہتمام براڈ شیٹ اور پاکستان کی نمائندگی کر نے والی قانونی فرم ایلن اینڈ اووری نے کیا ہے ۔

دستاویزات کے مطابق براڈ شیٹ کے مالک کیوے ماسوی سے 2019 کے موسم گرما میں سید ظفر علی کو سی کے ذریعہ رابطہ کیا ۔

آکسفورڈ میں جولائی 2019 کو ایک ملاقات میں ظفر علی نے بتایا کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں ، دستا ویز میں اسلام آباد اور لندن میں ماسوی ، شہزاد اکبر اور ظفر علی کے درمیان متعدد ملاقاتوں کی تفصیل موجود ہے ۔

یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی نژاد ظفر علی وزیر اعظم عمران خان ، وزیر خزانہ اسد عمر ، شہزاد اکبر اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں ۔

ظفر علی نے ماسوی کو یہ بھی بتایا کہ حکومت میں ان کا قریبی رابطہ اسد عمر سے ہے اور جتنی ملاقاتیں ہوئیں ان سے میں نے یہی اندازہ لگایا کہ عمران خان سوائے اسد عمر کے کسی اور پر اعتماد نہیں کرتے۔

ان کا کہنا تھاکہ کہ انہوں نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں اسد عمر کی نمائندگی کی تھی ۔اپنی ذاتی خصوصیات بیان کر تے ہوئے علی نے ماسوی کو بتایا کہ عمران خان جو صوفی ہیں وہ ان سے خاصے متاثر ہوئے کیونکہ وہ سید بھی ہیں ۔

یہ وہ سطح تھی تھی جس سے وہ معاملہ کر رہے تھے ۔شہزاد اکبر نے ظفر علی سے اپنی ملاقات کی تصدیق کی اور کہا کہ ظفر علی نے تجویز دی جو قبول نہیں کی گئی ۔ کئی لوگوں نے بلند بانگ دعوئوں کے ساےھ حکومت سے رابطہ کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ہم مختلف حکومتوں کے تعاون سے متعدد مقدمات پر کام کر رہے ہیں اور ہمیں کسی کی خدمات کی ضرورت نہیں ہے ۔ ماسوی نے کہا کہ ان ملاقاتوں کے بعد ظفر علی سے مزید بات چیت کی ضرورت نہیں رہی ۔

رابطہ کر نے پر ظفر علی نے بتایا کہ براڈ شیٹ کے حوالے سے لندن میں کچھ ملاقاتیں لیکن تفصیلات نہیں بتائیں ۔جب پیغامات ماسوی کو مبینہ پیغامات کے بارے میں سوال کیا گیا تو ظفر علی نے کہا کہ اب ماسوی کے ساتھ ان کی کوئی بات چیت نہیں ہے ۔ تاہم ماسوی کے مطابق دونوں کے درمیان رابطے اصلی تھے ۔

فالو اپ ملاقات میں ماسوی نے تٖفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کس طرح نواز شریف کے اثاثے بازیزاب کرانے میں مدد کرتے اور سعادی عرب سے سنگاپور ایک ارب ڈالرز کی منتقلی کے بارے میں معلومات شیئر کرتے ۔

جب ظفر علی نے وزیر اعظم عمران خان کو مذکورہ ایک ارب ڈالرز کے بارے میں بتایا تو انہوں نے ماسوی کو تفصیلاتسے آگاہ کر نے کے لئے کہا ۔

پہلی ملاقات میں عمران خان نے نیب کا حوالہ دیتے ہوئے اسے غیر مفید قرار دیا اور کہا کہ وہ دیا گیا کام نہیں کر سکتے ۔ اسی دوران کچھ اور لوگوں نے پاکستان کی جانب سے کام جاری رکھنے کے لئے رابطہ کیا۔

تاہم ماسوی کا کہنا تھا کہ لندن میں ظفر علی جیسے لندن کے وکیل سے تمام بات چیت جاری رکھنی چاہئے ۔ لہٰذا ظفرعلی کو بات چیت میں شامل رکھا گیا تھا ۔

ماسوی کی رائے میں بات چیت شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے وکلا کی خدمات حاصل کر نی چاہئے کیونکہ بعد ازاں کئی لوگ سامنے آکر معملات کو اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے ہیں ۔ پھر رشوت اور کک بیکس کے دروازے کھل جا تے ہیں ۔ بعد کے مہینوں میں ظفر علی نے اسد عمر ، اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور ، شہزاد اکبر اور دیگر حکام سے ملاقاتیں کیں ۔

سرکاری حکام کے ساتھ مذاکرات جاری رہے ۔اس دوران براڈ شیٹ سے کہا گیا کہ وہ وہ دو غیر متعلقہ ثالثیوں میں تعاون کرے جن میں پاکستان کرپشن سے متعلق تنازعات میں ہار چکا تھا ۔

یہ آئی سی ایس آئی ڈی کے پاکستان کے خلاف ایوارڈز تھے جو کارکے اور ریکو ڈک نے جیتے تھے ماسوی کا کہنا تھا کہ پاکستان پہلے براڈ شیٹ کے ساتھ معاملات طے کرے اور پھر دیگر تنازعات کے حل کی بات کرے ۔

ماسوی کی ظفر علی کے ذریعہ کوششیں اس وقت ختم ہو گئیں جب جب ظفر علی نے انہیں بتایا کہ پاکستان ماسوی کے بارے میں جاننا چاہتا ہے ، برسوں سے ان کے ساتھ معاملات ہوتے رہے اور آیا براڈ شیٹ کو آصف زرداری اور بھٹو خاندان پیسے دیتے تھے۔

ماسوی نے کہا کہ یہ سب کچھ بکواس ہے اور بتایا کہ سنگاپور میں شریفوں کے فنڈز کو حاصل کر نے کے لئے پاکستان میں دیگر بھی دلچسپی رکھتے تھے ۔شریف خاندان کے ترجمان نے کہا کہ کچھ لوگ شریف خاندان کی دولت کا کھوج لگانے کے لئے برسوں کوششیں کیں لیکن انہیں کچھ نہیں ملا ۔

ماسوی نے کہا کہ تب ایک اور طاقتور افسر نے رابطہ کیا جس کا نام دستاویز میں شامل ہے جسے ذریعہ کو تحفظ دینے کے لئے روک لیا گیا ہے ۔ لندن کے کیفے روگ میں ایک ملاقات کے دوران اس افسر نے ماسوی کو ظفر علی کے ذریعہ سمجھوتے پر وقت ضائع نہ کر نے کا مشورہ دیا کیونکہ اس کیس کو اب پاکستان میں دیگر حکام نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے

https://jang.com.pk/news/871854?_ga=2.220080217.1944550781.1610591584-495937540.1610591584
——————————

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اشرافیہ کی کرپشن پاکستان کی ترقی کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے‘ یہ اشرافیہ انتقام کارڈ کے پیچھے نہیں چھپ سکتی‘پہلے پاناما پیپرز اور پھر براڈ شیٹ نے ہماری حکمراں اشرافیہ کی کرپشن اور من لانڈرنگ کا پردہ چاک کیا۔

اشرافیہ نے این آر او کے ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنی دولت کو تحفظ دیا اور عوام کو خسارے میں رکھا‘ ایک پاکستانی سیاستدان نے سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر برطانیہ کے بینک میں منتقل کئے‘جب وزیراعظم چوری کریگاتو رجحان نیچے تک جائے گا‘جاننا چاہتے ہیں براڈشیٹ کو مزید تحقیقات سے کس نے روکا۔

بدھ کو اپنے بیان میں عمران خان نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں براڈ شیٹ مکمل شفافیت سےتحقیقات کرے‘کرپشن کے یہ انکشافات ابھی صرف آغاز ہیں۔یہ جب اقتدار میں آتے ہیں تو لوٹ مارکرتے ہیں‘ اس صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان عوام کوپہنچتاہے ۔

وزیراعظم نے کہا کہ کیوں بار بار یہ انکشافات ہورہے ہیں،یہی بات میں کرپشن کے خلاف اپنی 24 سالہ جدوجہد میں کرتا آرہا ہوں اور یہ کرپشن پاکستان کی ترقی کے لئے خطرہ ہے۔

اشرافیہ نے بعد میں این آر او کا سہارالیا، این آر دینے سے نہ صرف قوم کی لوٹی دولت بلکہ اس کی واپسی کے لئے عوام کے ٹیکس سے دیئے گئے پیسے بھی ضائع ہوئے،این آراو کی وجہ سے لوٹی دولت وصول نہ کی جاسکی اور ضائع ہوگئی۔

براڈ شیٹ واضح کرے کہ کس کے کہنے پر تحقیقات روکی گئیں،اشرافیہ بیرون ملک اثاثوں کے تحفظ کے لئے منی لانڈرنگ کرتی ہے تاکہ ان کے خلاف ملک میں کارروائی بھی نہ ہوسکے۔

دریں اثناءعمران خان نے کہا ہے کہ تبدیلی کے راستے میں ”اسٹیٹس کو“ سے چپکے لوگ رکاوٹ ہیں‘ رشوت اور کرپشن والے ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔
https://jang.com.pk/news/871851?_ga=2.153020281.1944550781.1610591584-495937540.1610591584
——————–