صدر بائیڈن سے وزیراعظم بلاول تک

دنیا میں مختلف ملکوں کے حکمرانوں سے زیادہ وہاں کے ابوزیشن رہنماؤں کی نظریں 20 جنوری پر لگی ہوئی ہیں جب امریکہ میں نئے صدر بائیڈن اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے ۔عام تاثر یہی ہے کہ جن ملکوں کے حکمرانوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی تھی وہاں کی اپوزیشن رہنماؤں کو نئے امریکی صدر بائیڈن کے دور میں رلیف ملے گا اور پاکستان ایسے ملکوں کی فہرست میں سب سے آگے ہے ۔
پاکستان کی موجودہ حکومت اور وزیراعظم عمران خان اور ان کے سلیکٹرز نے اپنا وزن ٹرمپ کے پلڑے میں ڈال رکھا تھا جب کہ ہماری اپوزیشن جماعتوں کی قیادت امریکی ڈیموکریٹ کے ساتھ تھی اور بالآخر امریکی الیکشن میں ٹرمپ شکست ہوئی اور ایک ڈیموکریٹک صدر منتخب ہو گیا ۔
ماضی میں پاکستان کے صدر آصف زرداری اپنے دور میں بائیڈن کو پاکستان کے اعلی اعزاز سے نواز چُکے ہیں سیاسی حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بائیڈن کے صدر بننے کے بعد پاکستان میں سیاسی تبدیلی کے لیے ہوا چل پڑے گی پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو فائدہ ہوگا ان کے لئے حالات بہتر ہوں گے ان ہاؤس تبدیلی کی صورت میں بلاول بھٹو زرداری اگلے وزیراعظم بن سکیں گے اگرچہ یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن پاکستان کے سیاسی حالات اور تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہاں پر کچھ بھی ہونا ناممکن نہیں ۔
عمران خان اس وقت وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے جب امریکہ میں ہیلری کلنٹن کو شکست ہوئی اور ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تب نواز شریف حکومت ہیلری کلنٹن کا ساتھ دے رہی تھی ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد پاکستان کے حکمران کے سب سے بڑے سیاسی مخالف عمران خان کو ریلیف دلایا پاکستان میں سیاسی تبدیلی ہوئی اور وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے فوری طور پر عمران خان وزیراعظم تو نہیں بن سکے شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے لیکن الیکشن کے نتائج کے ذریعے عمران خان کو حکومت مل گئی یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب امریکہ میں ٹرمپ برسراقتدار تھے ۔
اب امریکہ میں حالات بدل چکے ہیں ٹرمپ کی روانگی اور ایڈمن کی آمد ہے پاکستان پیپلز پارٹی سب سے متحرک اور فعال اپوزیشن جماعت کے طور پر آگے ہے اگرچہ پارلیمنٹ میں عددی طور پر مسلم لیگ نون سب سے بڑی جماعت ہے لیکن اس کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف جیل میں ہیں نواز شریف اور مریم نواز پر مقدمات ہیں اور وہ فوری طور پر اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ کسی بھی تبدیلی کا فائدہ اٹھا سکیں عام تاثر ہے کہ اگر مسلم لیگ نون اگلے وزیراعظم کے لیے کوشش بھی کرے تو شاید خاقان عباسی خواجہ آصف احسن اقبال اور رانا تنویر جیسے لوگ اس کے پاس موجود ہیں ماضی میں شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنایا جا چکا ہے شہباز شریف کو اس وقت بھی وزیراعظم بنانے کی کوشش نہیں کی گئی تھی جب میچ آسان تھا اور نواز شریف یہ فیصلہ باآسانی کر سکتے تھے ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس بھی ان ہاؤس تبدیلی کی صورت میں خود بلاول بھٹو زرداری یا ان کے نامزد کردار کسی بھی رکن اسمبلی کو وزیراعظم بنانے کا موقع ہو سکتا ہے سندھ سے اگر وزیراعظم بنایا گیا تو پھر سے اگلا صدر آنا مشکل ہوگا اگر آصف زرداری خود ایک مرتبہ پھر صدر بننا چاہتے ہیں تو پھر ممکن ہے کہ بلاول کو وزیراعظم بنانے کی بجائے پہلے مرحلے میں پنجاب سے قمر زماں کائرہ یا کسی اور پارٹی عہدیدار کو وزیراعظم بنایا جائے جس طرح ماضی میں یوسف رضا گیلانی اور پھر راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا ایسی صورت میں آصف زرداری خود صدر بن کر اپنے خلاف تمام مقدمات سے جان چھڑا سکتے ہیں اور بلاول کو 2023 کے الیکشن تک انتظار کیا جا سکتا ہے مسلم لیگ نون کی قیادت بھی اپنی اصل توجہ 2023 کے علاقے پر مرکوز رکھنا چاہتی ہے تب تک نواز شریف اور مریم کے خلاف مقدمات کا معاملہ بھی مسئلہ ہو جائے گا
———-
By-Salik-Majeed-