بیگم شمیم اختر۔ایک مثالی ماں تھیں


تحریر: سہیل دانش
وہ ایک انتہائی شفیق اور مہربان خاتون تھیں۔ ایک مثالی ماں تھیں اور اس اعتبار سے بہت خوش قسمت تھیں کہ اولاد ان پر جان چھڑکتی تھی۔ انکے چہرے پر شفیق مسکراہٹ اور آنکھوں میں دلوں تک پہنچنے والی ایک روشنی تھی۔سچی بات تو یہ ہے کہ ماں ہماری امید، ہماری خوشی اور ہمارا سرمایہ ہوتی ہیں۔ ہماری بہن عاصمہ شیرازی بتا رہی تھیں کہ وہ انتہائی رحم دل، ملنسار، سلجھی ہوئی اور وضعدار خاتون تھیں۔ ان سے مل کر سچ مچ دل خوش ہو گیاتھا کیونکہ ان کی ہر ادا میں ماں کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔


ماں بھی کیسی ہستی ہے، اپنی اولاد کے لئے کیا کیا جتن کرتی ہے۔ وہ بچے کو سب سے پہلے چلنا سکھاتی ہے اور جب اسکے بچے کھانا کھاتے ہوئے اپنے ننھے ہاتھ ماں کے کپڑوں پر مل دیتے ہیں تو وہ مسکرا دیتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کو رنگ برنگے کے کپڑے پہناتی ہے اور جتنی بار کپڑے گندے ہو جائیں اتنے ہی بار وہ کپڑے بدلواتی ہے اور اس چیز کی فکر نہیں کرتی کہ کپڑے دھونے کے لئے تو محنت اسے ہی کرنا پڑے گی۔اپنے بچوں پر واری جاتی ہے اور اپنی بانہوں کے حلقے میں اپنے بچے کو گرنا اور سنبھلنا سکھاتی ہے۔ اپنی ننھی اولاد کو اسکی خواہش اور پسند پر ایک ہی کہانی سو بار سناتی ہے مگر بور نہیں ہوتی۔ وہ برسوں محنت کرکے اولاد کو کھانا پینا، چلنا پھرنا، ملنا جلنا، لکھنا پڑھنا اور رہنے سہنے کے تہذیب سکھاتی ہے۔
پھر ذرا سوچیں کہ جب ماں پر جیتے جیتے ایسے دن آ جاتے ہیں کہ جب اس کے جیون کی روح رخصت ہو جاتی ہے اور صرف سانس کی ڈوری رہ جاتی ہے تو وہ اولاد کو دیکھ کر سوچتی ہے کہ اس کے دامن میں جو کچھ تھا اس نے اپنے اولاد پر وار دیا اور اسے سچے پیار سے نہا ل کر دیا۔ جب اس دار فانی سے رخصت ہونے کا وقت آتا ہے تو ماں کی بس یہی خواہش ہوتی ہے کہ اسکی اولادان کے لئے ہمیشہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھا تی رہے اور پھر اسکی اولاداللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتی ہے کہ یا اللہ کریم! میر ی ماں پر رحم و کرم کر دے، جیسے ماں نے بچپن میں ہم پر رحم و کرم کیا تھا۔ ماں جب اپنی اولاد سے ہمیشہ کے لئے بچھڑنے لگتی ہے تو اپنی اولاد سے کہتی ہے کہ دیکھو بچوں جب تک میری رگوں میں لہو دوڑ رہا تھا، سینے میں دل دھڑک رہا تھا تو میری ہر سانس میں تمہارے لئے خیر اوردعا تھی مگر اب میں چلی اورمیرے بعد اپنا خیال رکھنا۔اس دار فانی سے جاتے ہوئے بھی ماں دعا دیتے ہوئے رخصت ہو تی ہے کہ جیتے رہو میرے بچو، تمہیں کبھی تتّی ہوا نہ لگے۔
یہ ہے ماں جو سب کی سانجھی ہے مگر ماں تو ماں ہوتی ہے،ایک سچی اور حقیقی پیار کی علامت، بے لوث اوربے غرض خدمت کی مثال اوراولاد کے لئے ایک بہت بڑی نعمت۔ جن کی مائیں بقیہ حیات ہیں اللہ ان کا سایہ اپنی اولادوں کے سر پر قائم رکھے اور جنکی مائیں اس دنیا میں نہیں ہیں انہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں میں رکھے۔ آمین
محترمہ شمیم اختر اس اعتبار سے خوش نصیب تھیں کہ انہیں فرمانبردار اور خدمت گزار اولاد ملے۔ نواز شریف اور شہباز شریف گھر سے باہر جاتے تو ان کے قدموں میں بیٹھ کر ان کی دعائیں اور ماتھے پر بوسہ لیکر گھر سے باہر قدم رکھتے۔ نواز شریف جب جدہ میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے وہ جتنی بار اپنے والد محترم میاں محمد شریف کو عمرہ پر لے جاتے تو ملازم کو لے جانے کے بجائے خود ان کی وہیل چیئر چلاتے،اپنے والدین کا خاص خیال رکھتے اور اتنی عزت و احترام دیتے جس کی مثال دی جاسکتی ہے۔
یہ خاندان بڑا خوش قسمت ہے۔ جب میں سوچتا ہوں کہ وہ کونسی طاقت ہے جس نے ایک چھوٹی سی فاؤنڈری کے مالک کو پاکستان کا بڑا صنعتکار بنا دیا۔ وہ کونسی طاقت ہے جس نے گمنامی کے پردوں میں چھپے اس خاندان کو عالمی میڈیا کا مرغوب ترین موضوع بنا دیا۔ وہ کونسی طاقت ہے جس نے عام ذہنی سطح اور واجبی تعلیم کے مالک اس کشمیری خاندان کو پاکستان کا کامیاب ترین سیاسی گھرانہ بنا دیا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مرحومہ شمیم اختر کے درجات بلند کرے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین