
نوجوانوں میں دل کے دوروں کے کیسز خطرناک حد تک بڑھ رہے ہیں۔ماہرین امراض قلب
ہم ایک ایسی قوم ہیں جو تباہی کے بعد سنبھلنے پر یقین رکھتی ہے، مگر آفت سے پہلے احتیاط کو اہمیت نہیں دیتی۔وائس چانسلر جامعہ کراچی ڈاکٹر خالد محمودعراقی
پاکستان میں امراض قلب، ذیابیطس، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کے بڑھتے ہوئے کیسز کی بنیادی وجہ صحتمندانہ سرگرمیوں کا فقدان ہے۔ دنیا بھر میں طرزِ زندگی کو بہتر بنانے پر زور دیا جا رہا ہے اور لوگ قدرتی طریقوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں، تاہم پاکستان میں اب تک اس حوالے سے کوئی سنجیدہ تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔ طرزِ زندگی میں تبدیلی کے بغیر ان بیماریوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ ہم نے طبی علاج کے حوالے سے تو ترقی کی ہے اور ادویات کی کھپت میں اضافہ دیکھا ہے، لیکن طرزِ زندگی کی تبدیلی پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جا رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر ہم ورزش، متوازن غذا اور ذہنی سکون کے لئے وقت نکال کر اپنی روزمرہ کی عادات میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں تو بیماریوں کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔ماہرین ِ صحت نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ نوجوانوں میں دل کے دوروں کے کیسز خطرناک حد تک بڑھ رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس تشویشناک رجحان کی بڑی وجوہات میں ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا، تمباکوکے مختلف اقسام، فاسٹ فوڈ کا بڑھتا استعمال اور غیر صحت مند طرزِ زندگی شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں دل کے امراض زیادہ تر بڑی عمر کے افراد میں دیکھے جاتے تھے، مگر اب کم عمری میں دل کے دورے پڑنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ نوجوانوں میں جسمانی سرگرمیوں کی کمی، ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی بھی بتائی جا رہی ہے۔ماہرین نے نوجوانوں کو ہدایت کہ وہ متوازن غذا اختیار کریں، روزانہ ورزش کو معمول بنائیں، تمباکو نوشی سے گریز کریں اور باقاعدگی سے میڈیکل چیک اپ کروائیں تاکہ دل کے امراض سے بچاؤ ممکن بنایا جا سکے۔ان خیالات کا اظہارنامور ماہرین امراض قلب جن میں قومی ادارہ برائے امراض قلب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر طاہر صغیر،سربراہ پری وینٹو کارڈیالوجی پروفیسر ڈاکٹر خاور کاظمی،سربراہ ڈیپارٹمنٹ آف نیوٹریشن اینڈ فوڈ سروسز،کراچی یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے کنسلٹنٹ کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر اکمل وحید شامل ہیں نے جامعہ کراچی اور قومی ادارہ برائے امراض قلب کے زیر اہتمام چائنیزٹیچرمیموریل آڈیٹوریم جامعہ کراچی میں منعقدہ ”فینٹاسٹک 4 مہم کے تحت صحت کے بارے میں آگاہی کا سیشن ” سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لئے صرف ادویات اور ہسپتالوں پر انحصار کافی نہیں۔ ہمیں اپنی زندگی کے معمولات میں تبدیلیاں لانی ہوں گی، جیسے کہ مناسب ورزش کرنا، کھانے کی مقدار اور معیار پر دھیان دینا، اور ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے طریقے اپنانا۔ صرف اس طرح ہم اپنی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں اور مختلف بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صحت مند طرزِ زندگی کے فروغ کے لئے حکومت کو اقدامات اٹھانے ہوں گے اور عوام میں آگاہی پیدا کرنی ہوگی تاکہ لوگ اپنی صحت کے بارے میں بہتر فیصلے کر سکیں۔
قومی ادارہ برائے امراض قلب کے سربراہ پری وینٹو کارڈیالوجی پروفیسر ڈاکٹر خاور کاظمی نے مزید کہا کہ گزشتہ بیس پچیس سالوں میں دل کے امراض کے حوالے سے ہم یہ جان چکے ہیں کہ پاکستان میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہارٹ کی بیماریاں ہیں۔ تاہم، اس علم کے باوجود ہمارے اقدامات بہت سست اور ناکافی ہیں۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کے ساتھ مل کر آگاہی کے فروغ کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر جامعات اور کالجز کی سطح پر۔ یہ تعلیمی ادارے دل کی بیماریوں کی روک تھام اور اس حوالے سے آگاہی پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ہمیں اسکولوں اور کمیونٹی کی سطح پر بچوں میں یہ شعور پیدا کرنا ہوگا کہ ورزش اور متوازن غذا کتنی اہم ہے تاکہ دل کی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جا سکے۔
پروفیسر ڈاکٹر خاور کاظمی نے یہ بھی کہا کہ ہم بیماری کی تشخیص ہونے کے بعد علاج کراتے ہیں، جب کہ صحت کی دیکھ بھال کے بہترین طریقے میں بیماری کے آغاز سے پہلے ہی چیک اپ کرانا شامل ہونا چاہیے، جو بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں معدوم ہے۔ ذیابیطس، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی بروقت تشخیص سے ہم ان بیماریوں کی پیچیدگیوں سے بچ سکتے ہیں۔
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا ہے کہ دل کے امراض کے بارے میں آگاہی اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا صحت مند زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ہم ایک ایسی قوم ہیں جو تباہی کے بعد سنبھلنے پر یقین رکھتی ہے، مگر آفت سے پہلے احتیاط کو اہمیت نہیں دیتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی طرزِ زندگی میں تبدیلی لائیں اور صحت کے معاملے میں ڈاکٹر گوگلکے بجائے مستند ماہرین کی رہنمائی حاصل کریں۔
ڈاکٹر خالد عراقی نے کہا کہ ہماری روایتی خوراک میں کبھی اعتدال اور توازن تھا، مگر اب تیز رفتار طرزِ زندگی نے ہمیں مصنوعی اور جلد تیار ہونے والی غذاؤں کی طرف مائل کر دیا ہے، جس کا اثر براہِ راست ہماری صحت پر پڑتا ہے۔
ڈاکٹر خالدعراقی مزید کہا کہ اگر آپ کے پاس اپنی زندگی کے لیے وقت نہیں، تو اس سے بڑی بدقسمتی کوئی نہیں۔ زندگی کا مقصد صرف عمر پانا نہیں بلکہ بہتر معیارِ زندگی گزارنا ہے۔ کوئی بھی شخص آپ کی زندگی میں تبدیلی نہیں لا سکتا جب تک آپ خود اپنی اصلاح کی کوشش نہ کریں























