پاکستان میں چھاتی کے سرطان کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے
مہلک بیماری کی بلند شرح تشویشناک ہے، ڈاکٹر روفینہ،ڈاکٹر عمیمہ سلیم ودیگر کا جامعہ کراچی میں خطاب
بیماری کی کسی بھی غیر معمولی علامت کی صورت میں فوری طور پر ماہرِ صحت سے رجوع کرنا چاہیے
کراچی: ماہرینِ صحت نے ایک سیمینار میں اظہارِ تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں چھاتی کے سرطان (بریسٹ کینسر) کی شرح تشویشناک حد تک زیادہ ہے، اور ایشیا کے ممالک میں پاکستان میں اس مہلک مرض کے کیسزسب سے زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں۔ ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ بیماری کی کسی بھی غیر معمولی علامت کی صورت میں فوری طور پر ماہرِ صحت سے رجوع کرنا چاہیے، کیونکہ بیماری کی بروقت تشخیص ہی بہتر تحفظ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسمانی صحت یابی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اور جذباتی بحالی بھی نہایت اہم ہے کیونکہ بہت سی خواتین جسمانی خدوخال میں تبدیلی اور خوداعتمادی کے فقدان کا سامنا کرتی ہیں۔
ماہرین نے ان خیالات کااظہار پیر کی شام ایل ای جے نیشنل سائنس انفارمیشن سینٹر میں منعقدہ عوامی آگاہی سیمینار بعنوان ”بریسٹ کینسر آگاہی برائے صحت مند پاکستان“ میں خطاب کے دوران کیا۔ مقررین میں لیاقت نیشنل اسپتال و میڈیکل کالج کی پروفیسر آف سرجری و کنسلٹنٹ بریسٹ سرجن ڈاکٹر روفینہ سومرو،ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال کی بریسٹ سرجن ڈاکٹر عمیمہ سلیم اوراوکلے پاکستان کی حرا شہزادشامل تھیں۔ یہ سیمینار ڈاکٹر پنجوانی سینٹر برائے مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ (پی سی ایم ڈی)، جامعہ کراچی کی جانب سے سندھ انوویشن، ریسرچ اینڈ ایجوکیشن نیٹ ورک (سائرن)، حکومتِ سندھ، اور اوکلے پاکستان کے اشتراک سے منعقد کیا گیا۔ ڈاکٹر روفینہ سومرو نے اپنے لیکچر بعنوان ”بریسٹ کینسر سرجری اور جذباتی صحت“ میں کہا کہ چھاتی کا سرطان دنیا بھر میں خواتین میں سب سے عام کینسر ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں اس بیماری کی شرح ایشیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، جو کہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ انہوں نے کہا کہ بریسٹ کینسر سے بچاؤ اور علاج کی کامیابی بیماری کے سائز سے براہِ راست تعلق رکھتی ہے، جتنا چھوٹا رسولی کا سائز ہوگا، اس کے پھیلنے کے امکانات اتنے ہی کم ہوں گے، اور علاج کے کامیاب ہونے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چھاتی کے سرطان کی بروقت تشخیص کے بے شمار فوائد ہیں، جن میں زیادہ شرحِ صحتیابی، کم شدتِ علاج، بیماری کے پھیلاؤ میں کمی، بہتر معیارِ زندگی اور علاج کے کم اخراجات شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی مرحلے میں تشخیص شدہ سرطان کا علاج زیادہ کامیابی سے ممکن ہے اور مریض طویل مدت تک صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔ ڈاکٹر روفینہ سومرو نے یہ بھی کہا کہ چھاتی کے سرطان میں مبتلا خواتین کئی جذباتی مسائل کا سامنا کرتی ہیں، جن میں موت یا بیماری کے دوبارہ لوٹ آنے کا خوف، سرجری یا بال جھڑنے کے بعد جسمانی خدوخال میں تبدیلی کا احساس، رشتوں میں تبدیلی، مالی دباؤ، گھریلو ذمہ داریاں، احساسِ جرم، اور تنہائی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے میں خاندان اور دوستوں کا کردار مریضہ کے حوصلے اور جذباتی بحالی کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ڈاکٹر عمیمہ سلیم نے ”بروقت تشخیص اور باقاعدہ خود معائنہ“ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چھاتی کے سرطان کے خلاف جدوجہد میں آگاہی، بروقت تشخیص اور خود معائنہ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آگاہی مہمات میں اس بات پر زور دیا جانا چاہیے کہ بیماری کی ابتدائی مرحلے میں شناخت علاج کو کامیاب اور مؤثر بناتی ہے۔ انھوں نے کہا خواتین کو چاہیے کہ وہ ہر ماہ باقاعدگی سے خود معائنہ کریں اور ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق کلینیکل چیک اپ یا میموگرافی کروائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر چھاتی میں کسی غیر معمولی تبدیلی، جیسے گلٹی، موٹائی یا اخراج، کا احساس ہو تو فوری طور پر طبی معائنہ کروانا چاہیے، تاکہ بروقت علاج ممکن ہو اور بہتر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
میڈیا ایڈوائزر
























