وقت کی غیر موجودگی میں زندگی کا تصور

ذرا ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کریں اور تصور کریں… اگر گھڑی کی سوئیاں کبھی وجود میں نہ آتیں، اگر دیوار پر لٹکے کیلنڈر کے صفحات کبھی پلٹتے نہ، اگر لمحے اور گھنٹے کسی حساب کتاب کے تابع نہ ہوتے، تو ہماری زندگی کیسی ہوتی؟

شاید سورج کا طلوع صرف روشنی کا لمحہ ہوتا اور غروب ایک مدھم سایہ۔ صبح اور شام کے بیچ کوئی واضح لکیر نہ ہوتی، دن اور رات صرف احساس کی شدت سے پہچانے جاتے۔ زندگی ایک بے کنار دریا کی مانند بہتی، جہاں صرف موجیں ہوتی اور کوئی سمت نہ ہوتی۔

ایسی دنیا میں انسان کا معمول بھی مختلف ہوتا۔ دفتر جانے کی جلدی نہ ہوتی، امتحانات کی گھنٹی نہ بجتی، ملاقاتیں گھڑی کے اشارے پر نہ ملتیں۔ لوگ بھوک کی شدت پر کھاتے، نیند کے بوجھ تلے سوتے، اور جاگنے کی خواہش پر اٹھ کھڑے ہوتے۔ گویا انسان بیرونی گھڑیوں کا پابند نہیں بلکہ اپنے اندر کے موسموں کا اسیر ہوتا۔ شاید یہ آزادی جنت جیسی محسوس ہوتی، مگر نظم و ضبط کے بغیر یہ جنت بھی ایک خاموش جنگل کی طرح ہوتی۔

محبت کا انداز بھی بدل جاتا۔ محبوب کے انتظار کو دن یا مہینوں میں نہیں گنا جاتا بلکہ دل کی دھڑکن میں ہر لمحہ شمار ہوتا۔ جدائی کا درد کیلنڈر کی قید میں نہیں بلکہ دل کی ویرانی سے ماپا جاتا۔ ملاقاتیں کسی مقررہ وقت میں نہیں ہوتیں، بلکہ اچانک کسی ہوا کے جھونکے، بارش کی خوشبو یا کسی پھول کے کھلنے کی طرح دل پر چھا جاتی ہیں۔ محبت وقت سے آزاد ایک ابدی کیفیت بن جاتی، جس میں نہ ماضی کے زخم ہوتے، نہ مستقبل کی دھند، صرف دل کا مسلسل ارتعاش رہتا ہے۔

لیکن وقت صرف محبت کا پیمانہ نہیں، یہ عبادت کی ترتیب بھی ہے۔ اذان کے اوقات، نماز کے وقفے، روزے کی شروعات و اختتام، اور حج کے دن، یہ سب وقت کی ڈور سے بندھے ہیں۔ اگر وقت نہ ہوتا تو عبادتیں صرف دل کی کیفیت پر منحصر رہ جاتیں۔ کوئی پرندوں کی چہچہاہٹ پر سجدہ کرتا، کوئی ہوا کے تھمنے پر روزہ کھولتا، کوئی دل کی شدت میں دعا کرتا۔ لیکن امت کیسے ایک وحدت میں جڑتی؟

وقت وہ سنہری زنجیر ہے جو انسانوں کو ایک صف میں کھڑا کرتی ہے اور کائنات بھی وقت کے بغیر ادھوری رہ جاتی ہے۔

آئن اسٹائن کہتے ہیں کہ وقت صرف گھڑی کی ٹک ٹک نہیں، بلکہ کائنات کا ایک بنیادی عنصر ہے۔ وقت نہ ہوتا تو زمین کی گردش بے معنی ہو جاتی، موسم اپنی ترتیب کھو دیتے، کہکشائیں اپنی روشنی کھو بیٹھتیں، ستاروں کی پیدائش اور موت کے قصے ادھورے رہ جاتے۔ کائنات ایک جامد تصویر بن جاتی جس میں حرکت، ارتقاء اور زندگی کی ہلچل موجود نہ ہوتی۔

ہم اکثر وقت کو دشمن سمجھتے ہیں کہ یہ تیز دوڑتا ہے اور ہمیں پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ مگر یہی وقت ہماری کہانی میں تسلسل پیدا کرتا ہے۔ یہی لمحے خوابوں کو حقیقت بناتے ہیں، یہی دن یادوں میں ڈھلتے ہیں، اور یہی سال تاریخ کے صفحات میں رقم ہو جاتے ہیں۔ وقت کے بغیر زندگی ایک آزاد پرندہ ضرور ہوتی، مگر اس کی پرواز بے سمت، گیت بے سُرا اور رنگ بے اثر ہوتا۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ وقت ہماری قید بھی ہے اور ہماری آزادی بھی۔ یہ چراغ کی لو کی طرح ہر لمحہ گھٹتا ہے، مگر اسی گھٹتی روشنی میں ہم محبت کے چراغ جلاتے ہیں، عبادت کے رنگ بھرتے ہیں اور جدوجہد کے راستے تراشتے ہیں۔ وقت دراصل زندگی کا دریا ہے جس کی موجوں پر ہم تیرتے ہیں، کبھی خوابوں کی ناؤ میں، کبھی جدوجہد کے بیڑے پر۔ اور اگر یہ دریا نہ ہوتا، تو زندگی ایک بے آواز نظم رہ جاتی، مگر وقت کے ساتھ یہ نظم ایک لازوال گیت بن جاتی، جو دل سے کائنات کے سینے تک گونجتی ہے۔