سینڈریلا جو اپنا شہزادہ خود بنی

ہم ٹی وی کے ڈراموں نے ہمیشہ اپنے منفرد پلاٹ، مضبوط کردار نگاری اور معاشرتی مسائل کو بے لاگ پیش کرنے کی وجہ سے مقبولیت حاصل کی ہے۔ انہی میں سے ایک شاہکار ڈراما “مائی ڈئیر سینڈریلا” بھی ہے، جس نے 2021 میں اپنی پیشی کے دوران نہ صرف ناظرین کے دل جیتے بلکہ ایک ایسی کہانی پیش کی جو روایتی “شہزادی کو بچانے والے شہزادے” کے کلیشے کو توڑتی ہے۔ اس ڈرامے کی کہانی دراصل ایک ایسی لڑکی کی ہے جو اپنی محنت، ہمت اور خودداری سے اپنی زندگی کی کہانی خود لکھتی ہے۔

اس ڈرامے کے مرکزی کردار ہیں مہreen جبین (جو اپنے پیارے نام مہی سے جانی جاتی ہے) اور شہزاد۔ دونوں کرداروں کو بهلی طور پر یومنا زیدی اور عمران اشرف نے نبھایا ہے، جن کی پرکشش اداکاری نے ڈرامے کو چار چاند لگا دیے۔

پہلا ایکٹ: ایک پریشان کن شادی شدہ زندگی
کہانی کا آغاز ایک ایسی شادی سے ہوتا ہے جو بظاہر خوشگوار نظر آتی ہے لیکن اندر ہی اندر سے کھوکھلی ہے۔ مہی ایک متوسط گھرانے کی پرجوش، خواب دیکھنے والی اور محنتی لڑکی ہے۔ وہ فیشن ڈیزائننگ کی طالبہ ہے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا خواب دیکھتی ہے۔ دوسری طرف شہزاد، ایک امیر گھرانے کا واحد بیٹا ہے جو اپنے والدین، خاص طور پر اپنی والدہ کی لاڈلی اور جائیداد کا وارث ہے۔

=========================

============

شہزاد کی والدہ، ایک متمول اور طاقتور خاتون، اپنے بیٹے کی شادی ایک امیر گھرانے کی لڑکی سے کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن شہزاد اچانک اپنی مرضی سے مہی سے شادی کر لیتا ہے۔ یہ شادی دراصل شہزاد کی اپنی ماں کے مقابلے میں اپنی آزادی ثابت کرنے کی ایک کوشش ہے، نہ کہ محبت کی بنیاد پر۔ یہیں سے مسئلہ شروع ہوتا ہے۔

شادی کے بعد، مہی کو اپنے سسرال میں وہ مقام نہیں ملتا جس کی وہ حقدار ہے۔ شہزاد کی ماں اسے ہمیشہ کمتر سمجھتی ہیں اور ہر قدم پر اسے ذہنی اذیت دیتی ہیں۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ شہزاد، جو اس شادی کا آغاز کرنے والا تھا، ایک غیر ذمہ دار اور خود غرض انسان ثابت ہوتا ہے۔ وہ نہ تو مہی کا ساتھ دیتا ہے اور نہ ہی اپنی ماں کے رویے پر کوئی روک ٹوک لگاتا ہے۔ وہ مہی کو صرف ایک “ٹرافی وائف” سمجھتا ہے جسے وہ اپنی ضد منوانے کے لیے استعمال کر چکا ہے۔

مہی کی زندگی ایک ایسی سینڈریلا بن کر رہ جاتی ہے جس کا کوئی شہزادہ نہیں آیا۔ وہ گھریلو تشدد، جذاتی طور پر نظر انداز کیے جانے اور مسلسل توہین آمیز رویے کا شکار ہے۔ اس کی اپنی شناخت، اس کے خواب اور اس کی خودداری سب اس گھر کی دیواروں میں قید ہو کر رہ گئی ہیں۔

====================

==========

دوسرا ایکٹ: بغاوت اور آزادی کا سفر
ڈرامے کا
اس وقت آتا ہے جب مہی کو احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک مردہ تعلقات میں سانس لے رہی ہے۔ شہزاد کا رویہ بدستور سرد مہری اور لاپروائی پر مبنی ہے۔ یہاں تک کہ ایک واقعہ ایسا پیش آتا ہے جہاں شہزاد کی بے حسی عروج پر ہوتی ہے۔ مہی کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اگر اس نے اپنے آپ کو اس زہریلے ماحول سے نہ نکالا تو وہ خود کو مکمل طور پر کھو دے گی۔

یہ وہ لمحہ ہے جب “سینڈریلا” نے فیصلہ کیا کہ اسے کسی شہزادے کے انتظار کی بجائے اپنے لیے خود اپنی کہانی لکھنی ہے۔ اس نے ہمت کر کے شہزاد کو طلاق دے دی۔ یہ قدم اس کی زندگی کا سب سے مشکل اور سب سے بہادر فیصلہ تھا۔ اسے معاشرے کے طعنوں، مالی مشکلات اور ایک نامعلوم مستقبل کا سامنا تھا، لیکن اس نے ہار نہیں مانی۔

اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لیے، اس نے اپنے شوق، فیشن ڈیزائننگ کو اپنا ہتھیار بنایا۔ اس نے اپنا ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا۔ محنت، لگن اور اپنے کام کے معیار کی بدولت وہ آہستہ آہستہ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ وہ ایک مضبوط، خود مختار اور کامیاب کاروباری خاتون بن کر ابھری۔ اس سفر میں اسے اپنی دوست زبیدہ کا بھرپور ساتھ ملا، جو ہمیشہ اس کی ہمت بندھاتی رہی۔

تیسرا ایکٹ: تبدیلی اور حقیقی محبت کی تلاش
دوسری طرف، شہزاد کی زندگی مہی کے جانے کے بعد تباہ ہوتی چلی گئی۔ اس کی ماں نے اس کی دوسری شادی کروانے کی کوشش کی، لیکن شہزاد اب پہلے والا خود غرض نوجوان نہیں رہا تھا۔ مہی کی غیر موجودگی میں اسے اپنی غلطیوں کا احساس ہوا۔ اسے اندازہ ہوا کہ اس نے ایک قیمتی رشتہ کی قدر نہیں کی۔ وہ مہی کی خودداری، اس کی ہمت اور اس کی مضبوطی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔

===========

================

شہزاد میں ایک تبدیلی آئی۔ اس نے اپنی غلطیوں کو مانا اور مہی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دیں۔ لیکن یہاں کہانی نے ایک اور خوبصورت موڑ لیا۔ مہی اب وہ کمزور لڑکی نہیں رہی تھی جو کسی کے دباؤ میں آ جاتی۔ اس نے شہزاد کی ہر اداکاری اور ہر بات کو ٹھکرا دیا۔ اس نے واضح کر دیا کہ وہ کبھی بھی اس زہریلے ماحول میں واپس نہیں جائے گی۔

شہزاد کو اپنی محبت ثابت کرنے کے لیے ایک طویل اور صبر آزما سفر طے کرنا پڑا۔ اس نے اپنی عادات اور اپنا رویہ بدلا۔ آخرکار، اس کی حقیقی توبہ اور مسلسل کوششوں نے مہی کے دل کو نرم کیا۔ لیکن یہ راضی خوشی کسی مرہم رنج کے طور پر نہیں تھی، بلکہ ایک برابر کے شراکت دار کے طور پر تھی۔ مہی نے شرط رکھی کہ وہ الگ سے اپنے گھر میں رہیں گی، اپنے کیرئیر کو جاری رکھیں گی، اور شہزاد کو اس کی ماں کے غلط رویے سے بچانا ہوگا۔

نتیجہ: ایک جدید ترین پرچھائیں
“مائی ڈئیر سینڈریلا” صرف ایک رومانوی ڈراما نہیں ہے۔ یہ ایک طاقتور سماجی پیغام ہے۔ یہ ڈراما ان تمام خواتین کے لیے ایک آواز ہے جو زہریلے رشتوں میں پھنسی ہوئی ہیں۔ یہ سکھاتا ہے کہ:

==============

==============

خودداری سب سے بڑی دولت ہے: کسی بھی تعلق میں اپنی خودداری قربان نہیں کرنی چاہیے۔

محنت ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے: عورت اپنی محنت اور عزم سے اپنی منزل خود حاصل کر سکتی ہے۔

شادی ہی زندگی کا آخری مقصد نہیں: ایک ناکام شادی کو ختم کر کے ایک نئی شروعات کرنا ہی عقل مندی ہے۔

تبدیلی ممکن ہے: انسان اپنی غلطیوں سے سیکھ کر خود کو بدل سکتا ہے، لیکن یہ تبدیلی حقیقی ہونی چاہیے۔

==================

===========

یومنا زیدی نے مہی کے کردار میں جان ڈال دی، جو ایک کمزور لڑکی سے ایک مضبوط عورت بنتی ہے۔ عمران اشرف نے شہزاد کے کردار کو اس کے تمام تر اتار چڑھاؤ کے ساتھ پیش کیا، جس سے ناظرین کو ایک وقت پر اس سے نفرت ہوتی ہے اور پھر اس پر ترس آتا ہے۔

آخر میں، “مائی ڈئیر سینڈریلا” ایک ایسی کہانی ہے جو ناظرین کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ حقیقی زندگی میں “ہیپی ایور آفٹر” حاصل کرنے کے لیے، کسی شہزادے کے منتظر بیٹھنے کی بجائے، اپنے اندر کی سینڈریلا کو مضبوط بننا