خلا ئی سفر میں چین پاک دوستی

اعتصام الحق
31 جولائی کی صبح بیجنگ وقت کے مطابق, 10 بجے چین نے شی چھانگ سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے، کوائی چو-1 اے کیریئر راکٹ کے ذریعے پاکستانی ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ PRSS-1 کو کامیابی سے لانچ کیا ۔ یہ سیٹلائٹ اپنے مقررہ مدار میں داخل ہو چکا ہے ۔ یہ سیٹلائٹ بنیادی طور پر لینڈ سروے اور قدرتی آفات کی روک تھام کے میدان میں استعمال کیا جائے گا ۔یہ مشن کوائی چو -1 اے کیریئر راکٹ کی انتیسیویں پرواز ہے۔اس خبر کو پڑھتے ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ چین پا ک کلائی دوستی کی داستان کو چھیڑا جائے ۔
پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کی جڑیں تاریخ، ثقافت، معیشت اور سفارتکاری تک محدود نہیں بلکہ یہ رشتہ اب زمین سے اوپر خلا کی وسعتوں تک پھیل چکا ہے۔ خلائی سائنس اور ٹیکنالوجی میں چین اور پاکستان کا تعاون ایک ایسی مثال ہے جو نہ صرف تکنیکی ترقی کی علامت ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور دیرینہ دوستی کا عملی اظہار بھی ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان خلائی تعاون کا سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے جو دونوں ممالک کے درمیان گہرے سائنسی اور تکنیکی روابط کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ تعاون 1960 کی دہائی سے شروع ہوا جب چین نے اپنا پہلا مصنوعی سیارہ ڈونگ فانگ ہونگ-1 1970 میں خلا میں بھیجا۔ اس وقت پاکستان بھی خلائی ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنے ابتدائی قدم رکھ رہا تھا۔ 1990 کی دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان خلائی تحقیق اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے شعبے میں باقاعدہ معاہدے ہوئے جو اس تعاون کو ایک نئی جہت دینے کا باعث بنے۔چین نے پاکستان کو سیٹلائٹ ٹیکنالوجی، راکٹ لانچنگ، اور زمینی مشاہداتی نظاموں کے میدان میں تربیت اور تکنیکی معاونت فراہم کی۔
اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی پاک چین خلائی تعاون میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 2003 میں چین کے پہلے انسان بردار خلائی مشن شینزو-5 کی کامیابی کے بعد پاکستان نے چین کی خلائی کامیابیوں کو سراہتے ہوئے مزید تعاون کی خواہش کا اظہار کیا۔ 2011 میں پاکستانی ادارے سپارکو اور چائنا نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن کے درمیان ایک جامع معاہدہ طے پایا جس کے تحت سیٹلائٹ ڈیولپمنٹ، خلائی تحقیق اور خلائی تربیت کے شعبوں میں تعاون کو مزید وسعت دی گئی۔
دونوں ممالک کے درمیان خلائی تعاون کی سب سے بڑی کامیابیوں میں چین کی جانب سے پاکستان کے لیے تیار کردہ اور لانچ کیے گئے سیٹلائٹس شامل ہیں۔ 2011 میں چین نے پاکستان کا مواصلاتی سیٹلائٹ PAKSAT-1R خلا میں بھیجا جو پاکستان کی مواصلاتی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ 2018 میں پاکستان ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ (PRSS-1) کو کامیابی سے خلا میں بھیجا گیا جو پاکستان کا پہلا خود ساختہ ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ تھا۔ اس سیٹلائٹ کا بنیادی مقصد زراعت، موسمیاتی تبدیلی اور دفاعی نگرانی کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنا تھا۔ اسی سال PAK TES-1A نامی تجرباتی سیٹلائٹ کو چین کے لانگ مارچ-2C راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا گیا جو سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے مخصوص تھا۔
چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت پاکستان کو خلائی ٹیکنالوجی میں بھی مدد فراہم کی گئی ہے۔ اس منصوبے کے تحت دونوں ممالک نے خلائی انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے، سیٹلائٹ کمیونیکیشن نیٹ ورکس کو مضبوط کرنے اور خلائی تحقیق کے لیے مشترکہ مراکز قائم کرنے پر کام کیا ہے۔ چین نے پاکستانی سائنسدانوں اور انجینئرز کو خلائی ٹیکنالوجی کی تربیت فراہم کر کے پاکستان کے خلائی پروگرام کو خود مختار بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سپارکو کے اہلکاروں کو چین میں جدید خلائی تربیت دی گئی جس سے پاکستان کو اپنے خلائی پروگرامز کو ترقی دینے میں مدد ملی۔
مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے بھی دونوں ممالک کے درمیان تعاون مزید گہرا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ چین اپنے چھانگ عہ چاند کے مشنز اور تھیان وین-1 مریخ مشن میں بھی پاکستان کو شامل کرنے پر غور کر رہا ہے۔ پاکستان نے چین کے چاند کے مشنز کے لیے سائنسی ڈیٹا اکٹھا کرنے میں تعاون کی پیشکش کی ہے۔ آنے والے سالوں میں دونوں ممالک مزید جدید ریموٹ سینسنگ اور مواصلاتی سیٹلائٹس لانچ کرنے پر کام کر رہے ہیں جو پاکستان کو زراعت، آفات کے انتظام اور دیگر شعبوں میں مدد فراہم کریں گے۔
اس کے علاوہ خلائی تحقیق کے مشترکہ مراکز قائم کرنے کے منصوبے بھی زیر غور ہیں جہاں سائنسدان خلائی ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا اینالیٹکس پر کام کریں گے۔ ان مراکز کے قیام سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان سائنسی تعاون کو فروغ ملے گا بلکہ یہ خطے کی خلائی تحقیق کو بھی نئی بلندیوں پر لے جائیں گے۔ پاکستان اور چین کا خلائی تعاون نہ صرف دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے بلکہ یہ علاقائی اور عالمی سطح پر خلائی سائنس کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان خلائی تعاون کی یہ داستان دراصل ایک ایسی شراکت داری کی عکاسی کرتی ہے جہاں ایک ملک کی تکنیکی مہارت اور دوسرے ملک کی جغرافیائی اہمیت نے مل کر ایک مضبوط تعاون کی بنیاد رکھی ہے۔ چین کی جدید خلائی ٹیکنالوجی اور پاکستان کی اسٹریٹجک پوزیشن نے مل کر اس تعاون کو مزید مستحکم کیا ہے۔ آنے والے سالوں میں جب چاند اور مریخ کے مشنز پر کام تیز ہوگا تو پاک چین خلائی تعاون کے نئے باب کھلیں گے جو نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔