“پاکستانی بینک خواتین کو قیادت کے مواقع کیوں نہیں دے رہے؟”

“پاکستانی بینک خواتین کو قیادت کے مواقع کیوں نہیں دے رہے؟”

پاکستانی بینکوں میں جنسی تفاوت: خواتین کی اعلیٰ انتظامیہ میں نمائندگی کیوں نہ ہونے کے برابر ہے؟

پاکستان کے بینکنگ سیکٹر میں خواتین کی اعلیٰ انتظامیہ اور بورڈ ممبرز میں نمائندگی انتہائی کم ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بینکوں کی پالیسیاں صنفی مساوات کے اصولوں سے کس حد تک دور ہیں۔ اگرچہ بینک ملک بھر میں خواتین کو اکاؤنٹ کھولنے اور مالیاتی خدمات استعمال کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ وہی بینک اپنے ہی اداروں میں خواتین کو قیادتی عہدوں پر فائز کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ ایک واضح تضاد ہے جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔

حالیہ برسوں میں خواتین نے تعلیم، کاروبار اور دیگر شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن بینکنگ سیکٹر میں انہیں اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے کے مواقع بہت کم ملتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستانی بینک خواتین کو صارفین کے طور پر تو فروغ دیتے ہیں، لیکن انہیں فیصلہ سازی کے مراکز میں شامل نہیں کرتے؟ کیا یہ صنفی تعصب نہیں؟ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کو اس معاملے میں سنجیدہ اقدامات اٹھانے چاہئیں اور بینکوں کو ہدایات جاری کرنی چاہئیں کہ وہ خواتین کو قیادتی عہدوں پر فائز کریں۔
خواتین بینک چلا سکتی ہیں، مگر پاکستانی بینک انہیں موقع کیوں نہیں دے رہے؟”

اسٹیٹ بینک کا کردار اور ذمہ داری
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان بینکوں کو سراہے جو خواتین کو اعلیٰ انتظامیہ اور بورڈ ممبرشپ میں شامل کر رہے ہیں، جبکہ ان بینکوں کو نشاندہی کریں جو اس معاملے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ بینکنگ سیکٹر میں صنفی فرق کو کم کرنے کے لیے واضح پالیسیاں مرتب کی جانی چاہئیں، تاکہ آنے والے مہینوں میں چھوٹے اور بڑے تمام بینکوں میں خواتین کی نمائندگی بڑھائی جا سکے۔ خواتین کو بھرپور مواقع دیے جائیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکیں اور بینکوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں۔

مالیاتی خواندگی اور خواتین کی بااختیاری
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے حال ہی میں “پاکستان مالیاتی خواندگی ہفتہ” کے تحت ڈیرہ اسماعیل خان میں مختلف آگاہی سرگرمیاں منعقد کی گئیں، جن میں مالی شمولیت کو فروغ دینے کے لیے کیمپس، اسکولوں، بینکوں کے دورے اور خواتین کے لیے خصوصی سیشنز شامل تھے۔ اس موقع پر چیف منیجر اسٹیٹ بینک ڈیرہ اسماعیل خان، رومان علی نے کہا کہ “ہمارا مقصد ہر فرد تک مالیاتی معلومات کی رسائی کو یقینی بنانا ہے، خاص طور پر خواتین، نوجوانوں اور خصوصی افراد کو بااختیار بنانا ہے۔”

اگر مالیاتی خواندگی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ بینکنگ سیکٹر میں خواتین کی قیادت کو بھی یقینی بنایا جائے، تو پاکستان کا مالیاتی شعبہ نہ صرف زیادہ جامع ہوگا بلکہ معاشی ترقی میں بھی خواتین کا کردار نمایاں ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کو چاہیے کہ وہ صرف مالیاتی خواندگی تک ہی محدود نہ رہے، بلکہ بینکوں میں صنفی مساوات کو یقینی بنانے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات اٹھائے۔

آخری بات: تبدیلی کا وقت آ چکا ہے!
پاکستانی معاشرے میں خواتین کی صلاحیتوں کو نظرانداز کرنا اب گزرے دور کی بات ہونی چاہیے۔ بینکنگ سیکٹر کو چاہیے کہ وہ خواتین کو فیصلہ سازی کے مراکز میں شامل کرے، تاکہ ملک کی معاشی ترقی میں ان کا کردار بھی موثر ہو سکے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو چاہیے کہ وہ بینکوں پر پابندیاں عائد کریں یا مراعات دیں، تاکہ صنفی فرق کو ختم کیا جا سکے۔ خواتین کو موقع دیں، وہ ثابت کریں گی کہ وہ کسی سے کم نہیں!