
محترمہ سعدیہ راشد کا جیوے پاکستان آن لائن نیوز ویب سائٹ کو انٹرویو
محترمہ سعدیہ راشد کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے وہ اپنے والد فخر پاکستان شہید حکیم محمد سعید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان میں صحت تعلیم اور سماجی خدمات کے شعبے میں اُن کی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔آپ کی ان ہی خدمات کے اعتراف میںصدر پاکستان نےمحترمہ سعدیہ راشدکوسال ۲۰۲۵ء کے لیےاعلا ترین سرکاری اعزاز ہلال امتیاز کے لیے منتخب کیا۔ محترمہ سعدیہ راشد کا شمار ایسے دانشوروں میں ہوتا ہے جو فکر ِ رسا بھی رکھتے ہیں اور جوش عمل بھی۔آپ نے اپنے دن رات لوگوں کی خدمت بھلائی کے کاموں اور ملکی ترقی کے لیے صرف کر رکھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان ہمدرد سے آج ملک بھر کے لوگ قلبی تعلق رکھتے ہیں اور چاہے ملک میں ہوں یا بیرون ملک، خاندان ہمدرد کا نہایت احترام کرتے ہیں۔ہمدرد پاکستان نے ہمیشہ پاکستانیوں کو یہی سکھایا ہے کہ پاکستان سے محبت کرو اور پاکستان کی تعمیر کرو۔

ماہ فروری ۲۰۲۵ء کے دوران کراچی شہر میں چار روزہ ۱۶ویں انٹر نیشنل سمپوزیم آن نیچرل پروڈکٹ کیمسٹری کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ ہمدرد فائونڈیشن پاکستان کی صدر محترمہ سعدیہ راشد اپنی تمام تر کارپوریٹ اور سماجی خدمات کے باوجود ایسے معلوماتی سیمینار میں شرکت کے لیے ضرور وقت نکالتی ہیں۔ سمپوزیم کے دوران ’’جیوے پاکستان‘‘ آن لائن پبلی کیشن کے ایگزیکٹو ایڈیٹر اور سینئر صحافی محمد وحید جنگ صاحب نے خصوصی نشست میں ممتاز سماجی راہنما اور مدبرہ محترمہ سعدیہ راشد سے متفرق موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ انٹرویو جیوے پاکستان کی ویب سائٹ پربھی موجود ہے۔ تاہم قارئین کی دلچسپی کے لیے اسے خبرنامہ ہمدرد میں بھی شائع کیا جارہا ہے تاکہ پڑھنے والے خصوصاً نوجوان محترمہ سعدیہ راشد کے افکار کو جان سکیں۔
اس موقع پر محترمہ سعدیہ راشد نے بتایا کہ جب جب یہ سمپوزیم منعقد ہوتا ہے وہ اس میں شرکت فرماتی ہیں۔ یہ بہت مفید اور اہمیت کا حامل پروگرام ہے اور یہاں آ کر کافی باتیں سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔اصحاب علم و حکمت یہاں آتے ہیں یقینا کچھ نہ کچھ مفید باتیں سیکھا کر ہی جاتے ہیں۔محترمہ سعدیہ راشد نے بتایا کہ اس سمپوزیم میں شرکت کرنے والے غیر ملکی مندوبین متفرق موضوعات پر اپنی ذہانت محنت صلاحیت اور تجربے کا نچوڑ پیش کرتے ہیں،جو بہت سبق آموز ہوتے ہیں۔ ہمیں ایسے باعلم لوگوں کی قدر اور تقلید کرنی چاہیے۔انسان کو دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہیے۔ وہی معاشرہ آگے بڑھتا ہے جو علم کی قدرو منزلت سے واقف ہو۔
قومی معیشت میں قدرتی مصنوعات کی تیاری اور طلب/رسد سے متعلق سوال پر محترمہ سعدیہ راشد نے کہاکہ کوویڈ ۱۹ کے بعد سے دنیا بھر میں ہربل مصنوعات کی اہمیت اور استعمال کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی بدولت پاکستان اُن چند ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں متبادل ہیلتھ کیئر نظام موجود ہے۔ یقیناً ادویہ سازی کا تجارتی پہلو بھی ہے اس سے قطع نظر نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم اس کے لیے حکومتی سرپرستی کی اپنی اہمیت ہے۔ اگر ہماری قومی ہیلتھ پالیسی میں متبادل طریق علاج کو یکسر نظر انداز کردیا جائے تو پھر کیسے طب یونانی کی ترقی و ترویج ممکن ہوسکے گی۔ ہمیں اپنے سماج کے اُن طبقات کا ہر لمحے خیال ہونا چاہیے جو مہنگا طریق علاج نہیں اپنا سکتے۔ ابھی ایک مقرر ڈاکٹر مختار کی بات مجھے بہت اچھی لگی جب اُنھوںنے کہا کہ ہم جو کچھ بھی کریں یہ ضرور سوچیں کہ عام آدمی کا بھلا کس طرح ہو سکتا ہے تو کوشش ہماری یہی ہونی چاہیے کہ جو بھی ہم کام کریں اس میں ہمارے عام آدمی کا بھلا ہو۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ طب یونانی کو کون سے چیلنجز کا سامنا ہے اور ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے کیسی حکومتی سرپرستی درکار ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ ہمدرد پاکستان ایک ارزاں اور مفصل متبادل طریق ِعلاج فراہم کرتا ہے جو ہزاروں سالوں سے آزمودہ ہے۔ سیکڑوں اطباء کرام کے تجربے اور تحقیق نے اس میں بہت وسعت پیدا کی ہے۔ہمدرد پاکستان کا تو یہ روز اول سے مطالبہ ہے کہ حکومت طب یونانی کو اپنی ہیلتھ پالیسی میں شامل کرے۔ یہ ہمارے اسلاف کا بیش قیمت اثاثہ ہے۔ پڑوسی ممالک بہ شمول چین اور بھارت اپنی مقامی ادویہ سازی کی بھرپور انداز میں معاونت کررہے ہیں۔چین اپنی روایتی ادویہ سازی کے لیے پاکستان سمیت کئی ممالک میں منڈیاں تیارکررہا ہے۔ بھارت میں یونانی طب اور آئیورویدا کی معاونت و بہبود کے لیے وزارت قایم کردی گئی ہے۔ الحمدللہ پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا، کشمیر اور سندھ نباتات، فواکہات، جمادات وغیرہ سے مالا مال ہے۔ ہمیں اپنے اس خزانے کو صحت و شفا کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ جڑی بوٹیاں درحقیقت سبز سونا ہیں۔ لیکن ہم اس اہم اثاثے کی قدر نہیںکر رہے ہیں۔
طب یونانی کی ترقی کے حوالے سے ہمدرد کے کردار پر سوال کا جواب دیتے ہوئے اُنھوں نے کہاکہ اللہ کے فضل و کرم سے ہمدرد پاکستان میں اختیار کیے جانے والے آپریشنل طریق کار اور معیارات کو صنعت کےبنیادی اصول اور معیارات کا درجہ حاصل ہوا ہے۔تمام آپریشنز میں جدت ، سائنسی پیش رفت اور تکنیکی فروغ کے تقاضوں کا بھی خیال رکھا جاتا ہےتاکہ مستقبل میں ٹیکنالوجیکل تبدیلیوںسے ہم آہنگی میںکوئی دشواری سامنے نہ آئے اور آٹو میشن نیز کمپیوٹر کے عہد میں مرکبات اور مشروبات کی تیاری کو جدید تر رکھا جائے۔اس کے علاوہ بھی ہم منظم حکمت عملی کے تحت نئی مصنوعات تیار بھی کررہے ہیں اور اخلاقی تربیت پر مبنی تشہیری اقدامات بھی لیتے ہیں۔
ہمدرد پاکستان کی مصنوعات کے حوالے سے اُنھوں نے بتایانونہال ہمارا نہایت اہم برینڈ ہےلوگ نونہال کو ہمدرد سے جوڑتے ہیں۔ اس نونہال برینڈ میں ہم نے نونہال گرائپ واٹر کے ساتھ نونہال نیپی کریم، نونہال ڈراپس ، نونہال صابن اور نونہال ٹوتھ پیسٹ بھی متعارف کروائے ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی رُکا نہیں، نئی پروڈکٹس کے لیے ’’نیو پروڈکٹ ڈولپمنٹ‘‘ کے نام سے نیا محکمہ ترتیب دیاگیا ہے اور مجھے بہت خوشی ہے کہ اُس کے انتظامات نہایت قابل کارکنان کے ہاتھ میں ہیں۔اس کے علاوہ ہمدرد صافی بہت قابل بھروسہ اور مشہور برینڈ ہے۔ اُس برینڈ کے تحت نئے ہربل پروڈکٹس متعارف کروائے گئے ہیں جیسے صافی فیشل ماسک اور صافی فیس واش۔ ماشااللہ صافی برینڈکی نئی پروڈکٹس کی مانگ میں بہت اضافہ ہورہا ہے۔
روح افزا کی برآمدات اور برینڈ پوزیشن کے حوالے سے محترمہ سعدیہ راشد نے بتایا کہ روح افزا تو مسلسل مارکیٹ لیڈر ہے۔ دنیا کے ۳۶ممالک میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ ہمیں بہت خوشی ہے کہ یورپ اور امریکا میں بسنے والے برصغیر کے لوگوں کے ساتھ وہاں کی مقامی آبادی بھی روح افزا استعمال کررہی ہے اور اس کے فرحت بخش ذائقے سے مطمئن ہے۔
طلبہ کے طب یونانی کے حوالے سے رجحان کے سوال پر محترمہ سعدیہ راشد نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب طلبہ متبادل طریق علاج اور سائنسی مضامین میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تحقیق کی اہمیت کلیدی ہے، اگر ہم اچھے محققین پیدا نہیں کرسکتے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم اپنے شعبہ تعلیم کے ساتھ انصاف نہیں کررہے ہیں۔ طلبہ میں تحقیق کو فروغ دینے کے لیے اُنھیں ضروری سہولیات بھی فراہم کرنا ہوتی ہیں۔ ہمدر د یونی ورسٹی میں تو اس امر پر خصوصی توجہ ہے اور طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ تحقیق ضرور کریں۔























