
ریڈیوکلینک میں نیورولوجسٹ ڈاکٹر عدنان اسلم اور نیوروسرجن ڈاکٹر عمار انور کی شرکت۔پروگرام مرگی کی بیماری کے عالمی دن کی مناسبت سے تھا جس میں اس بیماری کے ہونے ، اس کے بعد علاج اورخصوصی طور پر مرگی کے علاج کے لیے ہونے والی سرجری پر مفصل اظہار خیال کیا گیا،میزبان اور پروڈیوسر مدثر قدیر تھے۔پروگرام کے آغاز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر آف نیورالوجی ڈاکٹر عدنان اسلم کا کہنا تھا کہ مرگی جس کو جھٹکے دورے کی بیماری کہا جاتا ہے ، جس میں دماغ کے سیل شارٹ سرکٹ ہوتے ہیں اور ان سے بہت زیادہ مقدار میں برقیاتی اخراج ہوتا ہے ، اس کے نتیجے میں مریض کے جسم میں کچھ غیر ارادی حرکات رونما ہوتی ہیں جیسے کہ اچانک سے مریض کا ہاتھ پاؤں مڑ جانا، آنکھیں اوپر چڑھ جانا، زبان کا کٹ جانا اور پیشاب کپڑوں میں نکل جانا یعنی کچھ دیر کے لیے انسان کا بے حس وحرکت اور گم سم ہوجانا مرگی میں شمار ہوتا ہے۔ مرگی کی پانچ اقسام ہیں جن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔پوری دنیا میں 65 ملین لوگ اس بیماری کا شکار ہیں اور پاکستان میں موجود مرگی کےمریضوں کی تعداد پوری دنیا میں جو مرگی کے مریض ہیں ان کا 10 پرسنٹ ہے۔ پروگرام کے دوسرے حصے میں بات کرتے ہوئے نیوروسرجن ڈاکٹر عمار انور کا کہنا تھا لوگوں کو اس بارے میں پتہ ہی نہیں ہے کہ مرگی کے لیے آپریشن بھی ہوتا ہےمگر ان مریضوں کے لیے جن کو اس کی اشد ضرورت ہوتی ہے جن پر ادویات کام کرنا بند کردیتی ہیں اس لیے ایک پراسس کے ذریعے جدید آلات کا استعمال کرکے ان کی سرجری کی جاتی ہے ۔سرجری کے مریضوں کی پہلے ایم آئی آر برین ود ایپی لیپسی اور پیٹ اسکین کرایا جاتا ہے جس کی وجہ سے دماغ کا وہ حصہ سامنے آتا ہے جہاں پر اس بیماری کا اثر ہوتا ہے۔مرگی کی سرجری ایک تو دماغ کھول کر سرجری کی جاتی ہے جس کے بعد تین ماہ تک ادویات کھانا پڑتی ہیں ،دوسرے طریقے میں دماغ میں متاثرہ جگہ پیس میکر لگایا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے ادویات پہلے ہی دن سے ختم ہوجاتی ہیں ۔اس موقع پر آگاہی پیغام دیاگیا کہ اگر آپ کے اردگرد کوئی اس بیماری کا شکار ہے تو اسے کوالیفائیڈ ڈاکٹرز تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ وہ اس مرض کی شدت سے بچے اور اپنا علاج کرواکر معاشرے کا مفید شہری بنے۔























