جشن کراچی 2024“ کے دوسرے روز”میں ہوں کراچی “میں معروف اداکارہ ماہرہ خان کے نام سیشن کا انعقاد

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ” سترہویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی 2024“ کے دوسرے روز”میں ہوں کراچی “میں معروف اداکارہ ماہرہ خان کے نام سیشن کا انعقاد

“سترھویں عالمی اردو کانفرنس میں ماہرہ خان کا کراچی سے محبت کا اظہار، وسیم بادامی نے ایونٹس کے انعقاد کو کراچی کے زندہ دل ہونے کی علامت قرار دیا”

کراچی ( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ” سترہویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی 2024“ کے دوسرے روز”میں ہوںکراچی “میں معروف اداکارہ ماہرہ خان کے نام سیشن کا انعقاد کیا گیا ، جس میں معروف اداکار ہ ماہرہ خان اور سینئر جرنلسٹ اور اینکر وسیم بادامی نے محو گفتگو تھے ۔وسیم بادامی نے سیشن کے ابتداءمیں اس بات کا اظہار کیا کہ کراچی میں ایسے پروگرامز کا انعقاد شہر کے زندہ دل ہونے کی دلیل ہے۔ انہوں نے آرٹس کونسل کے روح رواں احمد شاہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں آرٹس کونسل میں جو انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں، وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہاں ثقافتی ایونٹس کی کامیاب انعقاد کی کوئی کمی نہیں۔ ماہرہ خان نے اس موقع پر کراچی سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ شہر ان کے دل کے قریب ہے اور انہوں نے اپنی زندگی کے اہم لمحات یہاں گزارے ہیں۔ ماہرہ نے کہا کہ ان کا تعلق کراچی سے ہے، جہاں وہ پیدا ہوئیں اور اسی شہر میں ان کی شادی بھی ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے دادا ،دادی بھارت سے کراچی منتقل ہوئے تھے، اور کراچی کی زندگی کے حسین لمحات ان کے ذہن میں ہمیشہ تازہ رہتے ہیں۔ ماہرہ خان نے کراچی کی ثقافت اور شہری مزاج کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کسی کی شناخت یا پس منظر کو نہیں دیکھتا۔ یہاں کا مزاج تحمل اور برداشت کا حامل ہے، اور یہی کراچی کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں، اور اس شہر میں ان کے دوستوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ماہرہ خان نے کراچی کی خوبصورتی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بچپن کی یادوں کو بہت مس کرتی ہیں، خاص طور پر زینب مارکیٹ جانا اور گول گپے کھانا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کبھی کبھار وہ چاہتی ہیں کہ برقعہ پہن کر شہر کی گلیوں میں گھومیں اور پرانی یادوں کو دوبارہ زندہ کریں، تاہم لوگوں کی پہچان کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔سیشن میں ایک سوال کے جواب میں، ماہرہ خان نے کوئٹہ میں حالیہ پیش آنے والے واقعے پر بھی بات کی اور کہا کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں اس طرح کے ایونٹس کا انعقاد ہوتا رہتا ہے کوئٹہ میں اس طرح کے ایونٹس ہونے چاہئیے تاکہ بدمزگی کے واقعات پیش نہ آئیں۔ اس موقع پر ماہرہ خان نے اپنے گھر میں پیش آنے والے چوری کے واقعے کا ذکر بھی کیا، جس پر حاضرین محفل خوب محظوظ ہوئے۔ ریپڈ فائر کے مرحلے میں وسیم بادامی کے دلچسپ سوالات اور ماہرہ خان کے مزے دار جوابات نے محفل کو انتہائی خوشگوار بنا دیا۔ آخر میں، ماہرہ خان نے ایوارڈ شوز کے انعقاد کی اہمیت پر بھی بات کی اور کہا کہ ان ایونٹس میں نئے ٹیلنٹ کو سراہا جاتا ہے اور فنکاروں کو ایک دوسرے سے ملاقات کا موقع ملتا ہے۔

=============================

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی کے دوسرے روز ”میں ہوں کراچی“ میں ہمایوں سعید اور عاصم اظہر کے ساتھ ایک شام کا انعقاد

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی کے دوسرے روز ”میں ہوں کراچی “ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد کیاگیا جس میں معروف اداکار ہمایوں سعید اور گلوکار عاصم اظہر نے گفتگو کی، نظامت کے فرائض ابصا کومل نے انجام دیے، معروف اداکار ہمایوں سعید نے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ وہ کراچی میں پیدا ہوئے اور یہاں کی گلیوں میں کرکٹ کھیل کر بڑے ہوئے، ہمایوں سعید نے کراچی سے متعلق پرانی یادیں شئیر کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے یہ شہر بہت خوبصورت ہوا کرتا تھا ، مگر سب پہلے جیسا نہیں رہا ، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے شہر کو پہلے کی طرح اچھا کردے ، ہمایوں سعید نے اداکاری کے میدان میں اپنی آمد کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اولین دنوں میں مجھے ہیرو بننے کا ہی شوق تھا ، اپنے بلاک بسٹر ڈرامے ”میرے پاس تم ہو“ کا ذکر کرتے ہوئے ہمایوں سعید نے کہا کہ ڈرامے کے آخر میں میرے کردار دانش کی موت دکھانے میں میری مرضی شامل تھی، عمر سے متعلق سوال کے جواب میں ہمایوں سعید نے کہا کہ دنیا بھر میں ہیرو اور ہیروئن کی عمر معنی نہیں رکھتی ، آج بھی عمر رسیدہ ہیرو اور ہیروئن ہالی وڈ کی فلموں میں دکھائی دیتے ہیں ، وہاں ہیرو ہیروئن کا مطلب مرکزی کردار ہوتا ہے ، انہوں نے سنی پلیکس کی تعمیر کو ملک میں سینما کی واپسی قرار دیا، ہمایوں سعید نے سیشن میں ساتھ موجود گلوکار عاصم اظہر کے ایکٹنگ ٹیلنٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے عاصم کی اداکاری دیکھی ہے وہ نیچرل ایکٹر ہیں ، نوجوان نسل کے پسندیدہ گلوگار عاصم اظہر نے ہمایوں سعید کی جانب سے انکی ایکٹنگ کی تعریف کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ابھی صرف گلوکاری پر ہی توجہ مرکوز رکھنا چاہتا ہوں ، بغیر سیکھے اداکاری میں آنے کا ارادہ نہیں ہے ، عاصم اظہر نے کہا کہ جن معاشروں میں آرٹ کو پذیرائی دی جاتی ہے ان کی ترقی دنیا کے سامنے ہے ، آخر میں دونوں فنکاروں نے نوجوانوں کو اپنے اندر تحمل پیدا کرنے کی تلقین کی ، آرٹس کونسل کے سربراہ محمد احمد شاہ نے شرکاءکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ادب و فنون کی ترقی کے لیے ملک کے معروف فنکاروں نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہے۔

==============================

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چارہ روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس ۔جشن کراچی کے دوسرے روز ” بچوں کا ادب“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی کے دوسرے روز ” بچوں کا ادب“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد جون ایلیا لان میں کیا گیا ، جس کی نظامت کے فرائض سحرش فاروق نے انجام دیے، سیشن کی صدرات بیلا رضا جمیل نے کی جبکہ مقررین میں رومانہ حسین، ابن آس ، ثنا غوری اور عبدالرحمان مومن نے بچوں کے ادب کے ماضی ، حال اور مستقبل پر سیرحاصل گفتگو کی ، صدر مجلس بیلا رضا نے عالمی اردو کانفرنس میں بچوں کے ادب سے متعلق سیشن منعقد کرنے پر آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آرٹس کونسل میں بچوں کے ادب کی ترویح کے لیے الگ پلیٹ فارم کی ضرورت پر زور دیا ، بیلا رضا کا کہنا تھا کہ بچے ہمارا اثاثہ ہیں، ان کے ادبی شوق اور ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے ادیبوں اور شعراءکی حوصلہ افزائی کے لیے آرٹس کونسل اہم کردار ادا کرسکتا ہے، ماہر تعلیم اور مصنفہ رومانہ حسین نے اپنی گفتگو میں بچوں کے لیے ڈرامے اور فلموں کی تیاری سمیت کتب کی اشاعت کی اہمیت پر زور دیا، انہوں نے دیگر غیر ملکی زبانوں میں بچوں کے شائع ہونے والے ادب کے مختلف علاقائی زبانوں میں ترجمے کیے جانے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا، ثنا غوری نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حالیہ دور میں بچوں کا ادب ہماری ترجیحات میں شامل نہیں رہا ، بچوں کے ادب کے فروغ میں سرکاری سرپرستی ضروری ہے ، جبکہ دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بچوں کے ادب پر مبنی مواد کی ڈیجیٹلائیزیشن بھی کی جانی چاہیے ، انہوں نے کہا کہ بچوں کا ادب تخلیق کرنا ہر دور میں مشکل کام رہا ہے، بچوں کے ادب کے تخلیق کاروں کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، بچوں کے شاعر عبدالرحمان مومن نے بچوں کے ادب کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ قیام پاکستان سے قبل بھی بچوں کے مصنفین کی تعداد کم تھی، ادب عالیہ کے تخلیق کار ہی بچوں کے لیے ادب تخلیق کرتے تھے، قیامِ پاکستان کے بعد ملک بھر خصوصاً کراچی میں بچوں کے رسالوں کی اشاعت کا آغاز ہوا ، بچوں کی تربیت میں دور جدید کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں بچوں کے ادب کو سنجیدگی سے لینا ہوگا، ادیب اطفال ابن آس نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج بچوں کے ادیبوں کو وہ اہمیت حاصل نہیں رہی ، کوئی پبلشر ان کی تحاریر چھاپنے کو آمادہ نہیں ہوتا، بچوں کے ادب کی تخلیق کا سلسلہ برقرار رکھنے کے لیے ادب اطفال کے تخلیق کاروں کی ادبی تنظیم کی ضرورت ہے، سیشن میں ماہرین تعلیم، بچوں کے ادیبوں ، شعرا سمیت حاضرین کی بڑی تعداد شریک ہوئی
=================

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس جشن کراچی کے دوسرے روز سرائیکی ثقافت و ادب کے عنوان سے سیشن کا انعقاد کیا گیا

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی میں علاقائی زبانوں کے فروغ کے لیے مختلف سیشن منعقد کیے گئے۔کانفرنس کے دوسرے روز سرائیکی زبان پر مبنی سیشن ”سرائیکی ثقافت و ادب “ کا انعقاد آڈیٹوریم II میں کیا گیا۔ سیشن کی نظامت کے فرائض سعدیہ شکیل نے ادا کیے جبکہ شرکائے گفتگو میں شاہد جتوئی، عابدہ بتول، حفیظ خان، مشتاق احمد فریدی، اورنسرین گل عرف نینا شامل تھے۔ سرائیکی تحریک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مشتاق احمد فریدی نے کہا کہ ماضی میں جب ہم سرائیکی موومنٹ چلا رہے تھے تب جی ایم سید نے سوال کیا کہ تمہارا بنیادی مقصد کیا ہے؟ ہم نے جواب دیا کہ سرائیکی صوبہ، انہوں نے پوچھا کہ اس کی حدود ا ور جغرافیہ کیا ہوگا؟ ہم نے انہیں یہ بات واضح کردی تھی کہ ہم سندھ کے کسی حصے پر بھی قبضہ نہیں کرنا چاہتے۔ کراچی میں ویب سے بہت سے طلباءآبادتھے جنہوں نے کراچی میں اپنا نیوکلئین بنایا ہواتھا۔ وسیب سے اب بہت پڑھے لکھے لوگ آگے آرہے ہیں جو اسمبلی میں بھی وسیب کی محرومی پر بات کرنے سے جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے ۔نسرین گل نینا نے سرائیکی نشرکے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرائیکی ادب پر بہت کام ہوا ہے۔ سرائیکی ادب کے بڑے نثر نگار کراچی سے تھے۔ جن میں ایک بڑا نام علامہ اعظم سیدی کا ہے۔ اقبال بانو نے اپنے کام کی ابتداءکراچی سے کی۔عہد حاضر میں سرائیکی کا سب سے بڑا نام نذیر لغاری کا ہے جو سرائیکی ادب پربہت کام کررہے ہیں۔ شاہد جتوئی نے سرائیکی صحافت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرائیکی زبان کی کوئی حدودنہیں ہے۔ سرائیکی سندھ،وسیب،پنڈی پنجاب ،بلوچستان،کابل،راجستھان تک بولی جاتی ہے۔ہمارا کسی صوبے کے جغرافیہ پر کوئی قبضہ نہیں ہے۔وادی سندھ میں رابطے کی زبان سندھ کے بعد سرائیکی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر مردم شماری ٹھیک طریقے سے ہو توسب سے لسانی گروہ سرائیکی بولنے والا ہوگا۔ حفیظ خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ساری مزاحمتی شاعری ہماری شناخت پرکھڑی ہے۔ ہم ایک لمبی جنگ لڑرہے ہیں اپنے تشخص کی بقاءکے لیے ۔عابدہبتول نے سرائیکی ثقافت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بحیثیت سرائیکی قوم میں ایک خاص بات ہے کہ ہم جہاں رہتے ہیں وہاں ایک کمیونٹی کی طرح جمع ہوکر رہتے ہیں ۔ ہماری رسومات میں چاہے موت کا بین کرنا ہو یا بچے کی پیدائش پر خوشی منانا، ہمارا جھومر ہو یا ہماری اجرک ہم سب ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ہم نے اپنی ثقافت کو مرنے نہیں دیا۔ہمارے بچے تعلیم کے زیور سے ضرور آراستہ ہو رہے ہیں لیکن اپنے وسیب کی ثقافت کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔