دور حاضر کا حسن علی آفندی بھی چلا گیا!
إنّا لله وإنّا إليهِ رَاجعُون
جی ہاں میں تذکرہ کررہا ہوں آئی بی اے سکھر کے سربراہ نثار احمد صدیقی کا ۔۔۔۔ نثار صدیقی سے پر خلوص محبت، الفت اور بے لوث دوستی کا وہ رشتہ رہا کہ انہیں مرحوم لکھتے ہوئے آنکھوں میں آنسو اور ہاتھ کپکپا رہے ہیں کہ نثار احمد صدیقی کے انتقال کی افسوسناک خبر مجھ پر بلامبالغہ بجلی بن کر گری اور ہوک سی دل میں اٹھی ۔ انکے انتقال سے چند دن پہلے رات گئے شدید علالت کی اطلاع ملی تھی اور یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ انھیں سکھر سے بذریعہ طیارہ کراچی لایا جارہاہے ۔ مجھے خیال گذرا کہ کہیں نثار بھائی بھی اس موذی مرض کرونا کا شکار تو نہیں ہوگئے ۔
دل میں ایک بے چینی سی تھی لہذا ان کے صاحبزادے کو فون کیا مگر نمبر بند ملا جس پراپنے دفتر میں اسائمنٹ ایڈیٹر عبدالصمد کو فون کرکے سکھر کے رپورٹر سے معلومات لینے کا کہا ۔ کچھ دیر بعد عبدالصمد نے بتایا کہ وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہیں اوراسپتال میں داخل ہیں اور پھر نثار بھائی کے انتقال کی خبر ملی جس پر یقین نہیں آرہا تھا مگر یہی وہ حقیقت ہے جس پر یقین نہ چاہتے ہوئے بھی یقین کرنا پڑتا ہے کہ دنیا فانی ہے اور ایک روز یہاں سے واپس لوٹ کے جانا ہے، یہ اللہ کا نظام ہے اور قانون قدرت ہے اس کے آگے انسان قطعی بے بس اورلاچار ہے او ریہی لاچارگی اور بے بسی ہی صبر کا وسیلہ بنتی ہے ۔
نثار احمد صدیقی سے محبت بھرے رشتے کا سلسلہ1988میں اس وقت شروع ہوا جب وہ سندھ اندسٹریل اسٹیٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے ۔ان دنوں صحافت میں تازہ تازہ وارد ہوا تھا اور ایک میگزین سے وابستہ تھا ۔ یہ ملاقات صنعتی علاقوں کی ترقی پر ایک رپورٹ تیار کرنے کے حوالے سے ہوئی تھی جو آہستہ آہستہ ایک تعلق میں بدلی اور یہ تعلق پھر بڑھتا ہی رہا اور کبھی ان سے تعلق ختم نہیں ہوا تھا اگرچہ نثار بھائی جسمانی طورپر ہم سے جد اہوگئے ہیں مگر روحانی طورپر ان سے یہ رابطہ برقرار رہے گا
نثار صدیقی ذاتی زندگی میں بہت ہی محنتی، سادہ اورکم گو تھےمگر پر وقار ذوق رکھتے تھے، گفتگومیں بزلہ سنجی کوٹ کوٹ کر بھری تھی انھیں دوستی کو بھائیوں جیسے تعلق میں تبدیل کرنے کا ہنر اللہ نے خوب عطا کیا تھا۔
حریت اور دن اخبار کی ملازمت کے دوران خبروں کے حصول کے لئے سیکریٹریٹ جانا ہوتا تھا اوریہاں نثار بھائی سے ملاقات لازمی ہوتی تھی۔ زاہد سید مرحوم اور میں اکثر شام کی چائے نثار بھائی کے آفس میں ساتھ پیتے تھے جبکہ کبھی کبھار مہینے دومہینے میں آواری ہوٹل کے نیچے بیک ان ٹیک ریسٹورنٹ پر چائے کی بیٹھک ہوا کرتی تھی۔جہاں سیاسی سماجی اور زندگی کے مختلف نشیب و فراز پر گفتگو ہوا کرتی تھی ۔ نثار بھائی چونکہ بنیادی طور پر اسکول ٹیچرتھے اور اپنی محنت و لیاقت سے پبلک سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کرکے اس مقام تک پہنچے تھے بچپن سے لڑکپن اور تعلیمی میدان میں انھیں کن کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑاان عوامل کا نہ صرف ذکر کرتے بلکہ ہم لوگ اپنے گھریلو مسائل بھی اشتراک کرتے تھے ۔
نثار احمد صدیقی کے حوالے سے کئی اہم واقعات کا امین ہوں مگر یہاں میں انکی شخصیت کے حوالے سے ایک واقعہ کا ذکر کروں گا۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نےجون 1999 میں جب ریٹائرڈ جسٹس سید غوث علی شاہ کوصوبہ سندھ کے امور کے لئے اپنا مشیر مقرر کیا تھا وہ اکتوبر 1999 تک اس منصب پر برقرار فائز رہے ۔ غوث علی شاہ نے 28اگست 1999کواس وقت کے سیکریٹری داخلہ عبدالواجد رانا کو انکے عہدہ سے ہٹاکرنثاراحمد صدیقی کوسیکریٹری داخلہ سندھ تعینات کیا تھااورعبدالواجد رانا کوسیکریٹری خزانہ کا منصب سونپا گیا ۔ ایک دن میں محکمہ داخلہ کے دفتر میں نثار بھائی کے پاس بیٹھا تھا کہ اچانک انکا ایک بیٹا جو شاید ایس ایم کالج کا طالبعلم تھا ۔ اس کو کالج میں ہنگامہ آرائی کے دوران پولیس نے ذدوکوب کیا تھا وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا رونا روتے ہوئے اپنے والد نثار احمد صدیقی کا پاس آیا ، نثار صدیقی مرحوم نے خاموشی سے پورا واقعہ صاحبزادے سے سننے کے بعد اپنے چپڑاسی محمد عزیزمرحوم کو کہا کہ آپریٹر عبدالمالک سے کہو کہ ایس ایس پی ساوتھ سے بات کرائیں ،بات ہونے پرایس ایس پی ساوتھ کو ایس ایچ او کھارادرکے ہمراہ دفتر میں بلالیا ۔ تقریبا45منٹ کے اندر ایس ایس پی اور پولیس آفیسرپہنچے ، ایس ایچ او نے بتایا کچھ لڑکے کالج کے باہر ہنگامہ آرائی کے دوران سڑک پر ٹائرنذر آتش کررہے تھےجس سے امن وامان کی صورتحال پیدا ہورہی تھی لہذ انھیں منتشر کرنے کے لئے پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا اورکچھ گرفتاریاں کیں تھیں بدازاں پولیس اسٹیشن لاکر تمام لڑکوں کو چھوڑ دیا تھا ۔ ہمیں معلوم نہین تھا کہ یہ آپ کے صاحبزادے ہیں معذرت خواہ ہیں ، اس دوران نثار صدیقی خاموشی سے سنتے رہے اور پھراچانک اپنی نشست سے اٹھے صوبے کے سیکریٹری داخلہ کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر دونوں پولیس افسران باادب کھڑے ہوگئے نثار بھائی ایس ایچ اوکھارادر کے پاس گئے ،اس کی پیٹھ تھپک کر نہ صرف شاباشی بلکہ اس کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی صوفے پر حیران و پریشان بیٹھے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اب کہ پکڑے جائیں تو ان کے ساتھ کوئی رعائت نہیں کیجئے گا اور اس کے بعد صاحبزادے کو ایسی بے بھاو کی سنائی کہ اس کے ہوش ٹھکانے آگئے اور ایس ایچ او سینہ چوڑا کرکے اور بیٹا شرمندگی میں سرجھکا کر نثار صدیق کے دفتر سے نکلا ۔۔ اب ایسے افسران بھی ناپید ہیں اور والدین بھی ۔۔۔۔
12 اکتوبر1999 کا دن ہماری ملکی تاریخ کا ایک اہم دن ہے اس روز سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے خود کو عہدے سے برطرف کیے جانے پر وزیراعظم نوازشریف کی منتخب حکومت کی بساط لپیٹ دی تھی ۔ صبح سویرے زاہد سید مرحوم کا فون آیا کہ آج شریف وارثی مرحوم (سابق جنرل منیجرمارکیٹنگ نوائے وقت و دن گروپ) کراچی آئیں ہیں مجھے ان سے ملاقات کے لئے جانا ہے لہذا ساتھ نہیں جاسکیں گے ۔تم سے دوپہر میں سیکریٹریٹ میں ملاقات ہوگی ۔ میں گھر سے تیار ہوکر اپنی موٹر سائیکل پرسیدھا سندھ سیکریٹریٹ پہنچ گیا. خبروں کی تلاش میں مختلف دفاتر کے چکر کاٹنے کے بعد سیکریٹری خزانہ واجد رانا صاحب کے دفتر پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ کلفٹن والے دفتر میں بیٹھے ہیں لہذا ایڈیشنل سیکریٹری اعجاز منگی سے ملنے انکے کمرے میں چلا گیا اسی دوران زاہد سید مرحوم پہنچ گئے اور ہم لوگ وہاں سے نکل کر محکمہ داخلہ پہنچے۔ نثار بھائی سے کمرے میں ملاقات کی انھوں نے بتایا کہ چیف ایگزیکٹیو سندھ سید غوث علی شاہ نے 3 بجے شہر کے بے ہنگم ٹریفک کے حوالے سےایک اہم اجلاس طلب کیا ہے۔ اجلاس 5بجے ختم ہوجائے گا میں واپس آفس آجاوں گا میں نے کہا کہ اجلاس کے فیصلوں کی خبر چاہئے دو گھنٹے بعد ملاقات ہوتی ہے یہ کہہ کر زاہد سید کے ہمراہ دن اخبار کے دفتر آئی آئی چندریگر روڈ آگئےاورخیر آباد ہوٹل سے کھانا منگوا کرکھایا ۔۔ شاید دوپہر ڈھائی یا پونے تین بجے بجے کا وقت تھا کہ اچانک اسلام آباد میں مقیم میرے دوست جو ان دنوں ایک اہم ادارے سے جڑے ہوئے تھے ان کا فون آیا کہ اسلام آباد میں آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو عہدے سے برطرف کرنے کی افواہیں گشت کررہی ہیں۔
زاہد سید مرحوم کواس خبر کےبارے میں بتایا انھوں نے کہا کہ محکمہ داخلہ چلتے ہیں وہان سے اصل صورت حال واضح ہوگی اور ہم لوگ موٹر سائیکل پرسیکریٹریٹ پہنچ گئے ،نثار صدیقی مرحوم آفس میں موجود تھے ان سے اس حوالے سے ذکر کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انھیں یہ نہیں معلوم کہ کیا ہوا ہے یا ہورہا ہے ۔ وہ ٹرانسپورٹ کے اجلاس میں شرکت کے لئے وزیراعلی ہاوس پہنچے تھے اور اجلاس شروع ہوا تھا کہ اچانک آئی جی سندھ رانا مقبول پہنچ گئے اورغوث علی شاہ سے کچھ سرگوشیاں کرتے رہے ۔شاہ صاحب نے اجلاس برخاست کیا اس دوران پروٹوکول کی گاڑیاں لگ چکی تھیں ۔ غوث علی شاہ صاحب رانا مقبول کے ہمراہ روانہ ہوگئے میں واپس آگیا ۔ شہر میں خبر پھیل چکی تھی لیکن اصل صورت حال سے سب لاعلم تھے خوف کا سماں تھا۔ شاید شام پانچ بجے کی خبروں میں یہ خبر نشر ہوئی کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کو ریٹائرڈ کرکے ان کی جگہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کو جنرل کے عہدے پر ترقی دیکر نیا آرمی چیف مقرر کر دیا گیا ہے۔ میں اپنی موٹر سائیکل پر ائیرپورٹ کے لئے روانہ ہوگیا جہاں پرویز مشرف کا طیارہ اترنا تھا ۔ ائیرپورٹ پر جو کچھ دیکھا اس کا احوال پھر کبھی سہی مگراس واقعہ نے نثار صدیقی مرحوم پر گہرے اثرات مرتب کئے تھے ۔ واقعہ کے کچھ دن بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے کے افراد نثار صدیقی کوانکے دفتر سے ساتھ لے گئے ،گرفتاری کی اطلاع ہمیں محکمہ داخلہ کے آپریٹر عبدالمالک نے فون پر دی ۔ صوبے کے سیکریٹری داخلہ کو انکے دفتر سے گرفتار کرکے جس طرح لے جایا گیا اس پر سیکریٹریٹ کی بیوروکریسی میں شدید تشویش پائی جارہی تھی۔ افسران کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے لئے طریقہ کار ٹھیک نہیں تھا ۔ فون کرکے بھی انھیں بلایا جاسکتا تھا الغرض نثار صدیقی کی بے گناہی کے لئے اس خاکسار کوکئی فورمز پر پیش ہونا پڑا اور ساتھ ہی فوجی افسران سے ملاقات کرکے ان کی شرافت اور دیانت داری کے بارے میں بتایا۔ نثار بھائی سے محبت کرنے والے لوگ دن رات دعائیں کررہے تھے جو رنگ لائیں
خدا خدا کرکے طیارہ سازش کیس میں تفتیش کے بعد ان کی نہ صرف گلو خلاصی ہوئی بلکہ ان کو دوبارہ سیکریٹری داخلہ کے منصب پر فائز کیاگیا جو ان کی بے گناہی کا ایک بین ثبوت تھا ، جہان کچھ عرصہ گذارنے کے بعد وہ کمشنر سکھر تعینات کردئے گئے۔ ملاقات میں فوجی حراست کی روداد پوچھی تو ان کا کہنا تھا کہ دفتر سے ساتھ لے جانے کے بعد انھیں ایک کمرے میں لاکر بٹھا دیا گیا تھا ۔پہلے دن عجیب و غریب خیالات ذہن میں آتے رہتے اور اللہ سے گڑگڑاکر رحم کی بھیک مانگتا تھا ۔وظائف واذکار کا سلسلہ بھی جاری تھا ۔رات کو آنکھیں بند کرتا تو والدہ مرحومہ نظروں کے سامنے دکھائی دیتی تھیں ۔ اپنی ماں سے جس طرح بچپن میں شکوے شکایت کرتا تھا اسی طرح روتے ہوئے کہتا کہ میری کوئی غلطی نہیں ہے مجھے کیوں سزا مل رہی ہے وہ کہتیں بیٹاتمہارا چہرہ کہاں ہے مجھے ہاتھ لگا نے دو،بیٹے قریب آو ‘ میرے سینے سے لگ جاواور پھر میں نیند کی آغوش میں چلا جاتا ۔ نثار احمد صدیقی مرحوم جن دنوں کمشنر سکھر تھے انھوں نے سکھر کے ترقیاتی منصوبوں پر ایک اسپیشل رپورٹ تیار کرنے کا کہا تھا ۔ رپورٹ کی تیاری کے لئےصحافی دوست مقبول احمد( ہیرالڈ) کے ہمراہ سکھر پہنچ گئے ۔ہماری رہائش کمشنر ہاوس میں تھی ۔صبح سویرے ناشتہ نثار بھائی کے ساتھ ہوتا تھا پھر سینئر ٹریفک مجسٹریٹ عباس بلوچ ہمیں اپنی گاڑی میں لے کرخیرپور، کوٹ ڈیجی سمیت مختلف علاقے کا دورہ کراتے اور مختلف افراد سے ملاقات کراتے تھے اور شام کو واپس آکر نثار بھائی کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھتے اور پھر بات چیت ہوتی تھی۔ یہ شائد۔26 جنوری 2001 کادن تھا کہ صبح سویرے اچانک آنکھ کھلی تو دیکھا کہ کمرے کی کھڑکیاں دروازے ہل رہے ہیں ۔پہلے تو خواب سمجھا مگر جب باہرسے شور شرابے کی آوازیں سنائی دی اور کوئی زور زور سے دروازہ پیٹ رہا ہے گھبرا کر باہر نکلے ۔ نثار بھائی باہر کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے کہ جلدی اتر کر لان میں آجائیں زلزلہ آیا ہے انھوں نے بتایا کہ اپنے کمرے میں بیٹھا تھا کہ اچانک میری کرسی ہلنے لگی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ زلزلہ ہے لہذا ہاوس میں سب کو خبردار کیا اورآپ لوگوں کو آوازیں دینے کے ساتھ باہر کی جانب بھاگا۔ عمارت ہل رہی تھی نثار احمد صدیقی جن کی پوری زندگی حصول علم سے عبارت تھی وہ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی میں شام کے اوقات میں تدریس کے فرائض ادا کرتے تھے ساتھ ہی سندھ کے غریب طلبا کو معیاری تعلیم کے حوالے سے ایک مثالی ادارہ قائم کرنے کے خواہشمند تھے جس کا اظہار وہ کئی مرتبہ کرچکے تھے۔ میرے دورہ سکھر کے دوران انھوں نے بتایا تھا کہ ادارے کے قیام کے لئے انھوں نے سکھر بائی پاس کے نزدیک زمین حاصل کرلی ہے اس جگہ پر انسٹیٹیوٹ اف پبلک ایڈمنسٹریشن کے اشتراک سے پبلک اسکول و کالج تعمیر ہورہا ہے۔ وہ اسکول و کالج کی نو تعمیر عمارت بھی دکھانے لیکر گئےتھے ۔ آج انکی محنت و لگن کی وجہ سے اس ادارہ کا شمار ملک کے مثالی تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے یہ تعلیمی ادارہ سندھ کے غریب طلبا کے لئے امید کی علامت ہے ۔
2014میں چند دوستوں محمد علی کھوسو ایڈیشنل سیکریٹری ، سالک مجید صحافی کے ہمراہ اندروں سندھ گھومنے کا پروگرام بنا اور ہم لوگ دوسرے دن بذریعہ کار سکھر پہنچ گئے رات کوسرکاری گیسٹ ہاوس میں قیام رہا ۔ دوپہر میں نثار بھائی سے ملاقات کے لئے انکے قائم کردہ آئی بی اے سکھر پہنچ گئے ۔ بہت گرم جوشی سے ملے دوران گفتگو انھوں نے بتایا کہ آئی بی اے سکھر کی تعمیرات میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہورہا ہے موجودہ شعبوں کی توسیع کے ساتھ ہی نئے شعبوں کا قیام بھی عمل میں آیا ہے ۔ نثار بھائی کو آئی بی اے سکھر سے اولاد جیسی محبت والفت تھی کہ وہ ان کا ہی لگایا ہوا پودا تھا جو اب گھنا اور سایہ دار درخت کا روپ دھار چکا ہے وہ اس ادارے کو بے مثل ترقی کرتا دیکھنا چاہتے تھے اور اس کامیابی پر بہت خوش دکھائی دے رہے تھے ۔ الغرض نثار احمد صدیقی کی موت نے جہاں انکےدوستوں کو آبدیدہ کردیا ہے وہیں انکی وفات ملک میں تعلیمی شعبے کے حوالے سےناقابل تلافی نقصان ہے۔ حق مغفرت کرئے عجب آزاد مرد تھا۔۔۔۔
Shah Waliullah
June 26, 2020 ·