پیارا سفر پیاروں کے لیے ۔۔۔۔قسط نمبر ایک ۔

اس مرتبہ پنجاب کے سفر کا پروگرام ایک خیر سگالی دورے کے طور پر بنا اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ کراچی سے روانگی کے وقت جو باتیں اور پروگرام ذہن میں تھے وہ سب بخیریت پایہ تکمیل کو پہنچے ۔
جولائی کے آخر میں یا اگست کے شروع دنوں میں یہ خیال آیا کہ اب پیاری بیٹی سلطنت کے پیپرز ختم ہو گئے ہیں تو فیملی کے ساتھ پنجاب کا ایک ٹور کرنا چاہیے کافی گیپ محسوس ہونے لگا تھا لہذا فیصلہ کیا کہ تیاری کرتے ہیں اور ستمبر میں پنجاب کا پروگرام بنا لیتے ہیں پیاری بیٹی سویرا نے بھی اپنے دفتر سے چھٹیاں لینے پر رضا مندی کا اظہار کیا اور پھر اپنی پروفیشنل ذمہ داریوں میں سے وقت نکال کر سب کے ساتھ پنجاب جانے کا پروگرام ترتیب دیا جانے لگا لگ بھگ تین ہفتوں پر مشتمل پلان سامنے ایا جس کے دوران فیصلہ ہوا کہ اس مرتبہ بھی بذریعہ سڑک سفر کرتے ہیں چنانچہ سفر کی گریٹ پارٹنر اپنی قابل بھروسہ کار سوزوکی بلینوSuzuki Baleno کہ ضروری دیکھ بھال کے کاموں کی فہرست تیار کی اور پھر گاڑی کے تجربہ کار اور قابل بھروسہ مکینک استاد اسلم کے پاس جا کر سارے کاموں کا جائزہ لیا اور ایک ایک کر کے سارے کام کرانا شروع کی ہے کچھ کام شاہ فیصل کالونی ملیر سے اور کچھ کام واٹر پمپ مارکیٹ سے کرانے تھے جب گاڑی کا کام تسلی بخش ہوتا ہوا نظر ایا تو پھر حوصلہ بڑھ گیا کہ اب ہم بائی روڈ جا سکتے ہیں پھر پنجاب میں رابطہ کرنے پر سب نے خوشی کا اظہار کیا اور جب سب کی طرف سے ویلکم ملا تو اس ٹور کے دوران جہلم میں پیارے ماموں جان مرحوم کوثر منصور فاروقی کی یاد میں ایک کرکٹ میچ منعقد کرنے کا ارادہ باندھا اس خواہش پر بھی سب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تائید کی اور میچ منعقد کرانے کی تاریخ 15 ستمبر طے ہو گئی اور اس سے ایک رات قبل جہلم میں فیملی گیٹ ٹو گیدر کا پروگرام بھی فائنل ہو گیا پھر اس حوالے سے ایک واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا گیا جس میں ممبرز کی تعداد بڑھتی گئی اور سب نے اپنی اپنی تجاویز پیش کی سب ممبرز نے خوشی کا اظہار کیا اور پھر کرکٹ میچ کے لیے دو ٹیموں کی تشکیل کا عمل شروع ہوا اس سلسلے میں منڈی بہاؤدین سے نوید بھائی نے کافی محنت کی اور انہوں نے دونوں ٹیموں کی تیاری میں کافی وقت دیا اور متوقع کھلاڑیوں کی ایک طویل فہرست تیار ہونے کے بعد ان کو دو ٹیموں کوثر بلیوز اور کوثر گرین میں تقسیم کر دیا گیا ان ٹیموں کے کھلاڑیوں کی تعداد ہمارے سفر شروع ہونے تک بڑھتی رہی اس واٹس اپ گروپ کی وجہ سے کافی رونق لگ گئی اور ملک بیرون ملک سب رشتہ دار اس میں وہ بھی حصہ لینے لگے سب کی دلچسپی اور خواہش نظر ائی کہ وہ اس اور پر رونق محفل اور میچ کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور کوشش کریں گے کہ وہاں پہنچیں لاہور سے ماموں شاہد نے گرین ٹیم کی کپتانی کی پیشکش قبول کر لی جبکہ بڑے ماموں جان طاہر منصور فاروقی کو اس میچ کی سرپرست شخصیت نامزد کیا گیا اور انہوں نے خوشی وہاں شرکت اور سرپرستی پر رضامندی ظاہر کر کے ہم سب کا مان بڑھایا ۔ سیالکوٹ سے خالہ شگفتہ اور مامو ندیم اور حمزہ فیملی نے بخوشی میچ میں شرکت اور سب رشتہ داروں کے اکٹھے ہونے کہ فیصلے کو سراہا اور اپنی شرکت کی یقین دہانی کرائی روات سے خاور مجید فیملی اور اسلام آباد سے عامر مجید فیملی کی جہلم آمد کی کنفرمیشن آئی تو سب کو اور زیادہ خوشی ہوئی فیصل اباد سے ارسی اور جنید جب کہ لاہور سے انس نوین اور ان کے ہمراہ ابراہیم اور طلال کی آمد متوقع تھی لاہور سے مامو جی شاہد اور محمود طاہر کی فیملیز نے آنا تھا منڈی بہاؤدین سے نوید انجم فاروقی کی فیملی اور جہلم سے عمرانہ بھابھی کی بہنوں شہزانہ اور ستارہ کی فیملیز کے ساتھ شرکت یقینی تھی ۔ جہلم میں سٹی ہاؤسنگ میں ریحان بھائی اور آپا روشی کی میزبانی میں یہ ساری محفل سجنے والی تھی بلال ٹاؤن سے ماموں کوثر کی فیملی نے بھی وہیں پر شرکت کرنی تھی بعد میں جیسے جیسے میچ کے دن قریب اتے گئے میچ میں شرکت کرنے والے کھلاڑیوں میں اضافہ ہوتا گیا منڈی بہاؤدین سے رانا عبدالجبار اور ان کے صاحبزادے اور اسلام اباد سے کامران گوہر بھی میچ میں شرکت کے لیے انے پر رضامند ہو گئے ۔

ہم لوگ کرکٹ میچ سے بہت پہلے سات ستمبر کو صبح سویرے کراچی سے ملتان روانگی کا پروگرام بنا چکے تھے ملتان میں اواری ایکسپریس ہوٹل میں ہماری بکنگ ہو چکی تھی ہم نے سیدھا کراچی سے بائی روڈ اپنا سفر شروع کر کے ملتان میں پہلا قیام کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا اور بچوں کا ارادہ تھا کہ اس مرتبہ ملتان میں رکیں گے اور ملتان شہر کی سیر کریں گے اور تاریخی اور مذہبی مقامات دیکھیں گے کراچی سے سفر شروع ہوا تو سپر ہائی وے پر

سدا بہار ریسٹورنٹ ایک خوبصورت اور پر سکون پرفضا مقام ہے جہاں پر ہم نے ناشتے کے لیے پڑاؤ کیا اس طویل سفر کا یہ پہلا پڑاؤ تھا یہاں چائے پی کر تازہ دم ہو کر سفر اگے بڑھانے کا فیصلہ کیا اس وقت ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور یہ سفر بڑے خوشگوار انداز میں شروع ہوا

اس لمبے اور تھکا دینے والے سفر کے لیے پیاری امی جان ، میری شریک حیات عظمی ، پیارے بیٹوں صہیب اور صبیح نے بڑی ہمت اور انرجی دکھائی پیاری بیٹی سویرا اور سلطنت نے بھی اس سفر کو خوب انجوائے کیا ۔ ہم سات لوگوں کی فیملی سوزوکی بلینو گاڑی میں کیسے سماتی ہے یہ جان کر سب حیران بھی تھے اور خود دیکھنا چاہتے تھے کہ ہم سات لوگ اس گاڑی میں اتنا لمبا سفر کیسے طے کر لیتے ہیں ہمارے لیے یہ کوئی مشکل بات نہیں تھی ہم شہر کے اندر بھی اسی طرح ایڈجسٹ ہو کر سفر کرتے ہیں اور شہر سے باہر یہ لمبا سفر بھی ہم نے خوشی خوشی طے کر لیا
ہم نے تھری پلس فور کا کمبینیشن بنا رکھا ہے یعنی تین آگے اور چار پیچھے بیٹھ کر ہم اس گاڑی میں باآسانی سفر کر لیتے ہیں
ہم نے راستے بھر دو دو گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد خود اور گاڑی کو ارام دینے کا فیصلہ کر رکھا تھا ہر قیام کے دوران چائے اور کچھ ہلکا پھلکا کھانے کے لیے منگوانے کا پروگرام بنا اور اگلا پڑاؤ دریائے سندھ عبور کرنے کے بعد حیدرآباد سے اگے ایک ہوٹل پر ہوا ۔ اس کے بعد روہڑی تک سفر جاری رہا اور راستے میں تھوڑی تھوڑی دیر رکتے بھی رہے اب گرمی بڑھنے لگی تھی اور جب روہڑی پہنچے تو جی ٹی روڈ کیفے ریسٹورنٹ میں قیام کیا

اور پھر وہاں سے سکھر ملتان موٹروے کا پرسکون سفر شروع ہو گیا راستے میں ریسٹ ایریاز آتے گئے اور ہم وہاں قیام کرتے گئے ہم نے قدر محتاط اسپیڈ میں کیا گرمی بھی اپنا اثر دکھا رہی تھی اس لیے کے دونوں اطراف علاقوں کی خوبصورتی اور خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سفر جاری رکھا مغرب کے وقت ایک ریسٹ ایریا کے پاس پہنچ کر جب گاڑی میں ری فیولنگ کرائی تو اس وقت اندازہ ہوا کہ یہ گاڑی کی لیفٹ ہیڈ لائن جل نہیں رہی وہاں ایک مکینک موجود تھا اسے گاڑی دکھائی اس نے اپنی کوشش کی لیکن وہ کہنے لگا کہ اس کا بریکر خراب ہو گیا ہے میرے پاس متبادل نہیں ہے اب آپ اوچ شریف یا ملتان سے جا کر صحیح کرا لیجئے گا این اسی وقت اس مکینک کے پاس موٹروے پولیس کی گاڑی بھی اگئی ان کی ہیڈ لائٹ بھی خراب تھی تھوڑی دیر بعد ہم نے وہاں سے دوبارہ موٹر وے پر سفر شروع کر دیا اور تقریبا ملتان سے 165 کلومیٹر فاصلے پر تھے اور یہ تمام سفر موٹروے پر ایک ہیڈ لائٹ سے کرنا پڑا راستے میں تین مقامات پر موٹروے پولیس کی گاڑیاں ملی
لیکن کسی نے ہماری پریشانی میں اضافہ نہیں کیا اور ہم اپنی گاڑی موٹروے پر دوڑاتے رہے اور پھر اپنی پہلی منزل ملتان شہر میں داخل ہو گئے اور وہاں بھی شہر کے اندر موٹر وے سے اتر کر ہوٹل جانے تک ایک لمبا اور طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے جو تقریبا 40 منٹ پر مشتمل تھا بہرحال ہم خیریت سے ہوٹل پہنچ گئے ہوٹل میں ہماری بکنگ تھی ہمیں ویلکم کیا گیا اور سب اپنے اپنے کمروں میں پہنچ کر تھکن دور کرنے لگے ملتان میں پہلا بھرپور ڈنر ہمارا منتظر تھا اگلے دن ہم نے ملتان شہر کی سیر کرنی تھی اور ساتھ گاڑی کے ضروری کام بھی کرانے تھے اور ایک رات اور ملتان میں قیام کرنے کے بعد نو ستمبر کو ہم نے ملتان سے منڈی بہاوالدین کے لیے روانہ ہونا تھا ۔( جاری ہے )