یوم سیاہ ۵ جولائی


تحریر۔ محمد سلیم بھٹی
=================

پاکستان پیپلز پارٹی اور جمہوری قوتیں ہر سال ۵ جولائی کو یوم سیاہ کے طور پر منا کر جمہوری حقوق کی سربلندی اور سامراجی آمریت کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں، یہ نفرت اس وقت پیدا ہوئی جب ایک طالع آزما فوجی جرنیل نے طاغونی قوتوں کے اشارے پر1977 ء کے جنرل الیکشن کے بعد تخریبی تحریک کو جواز بنا کر پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت پر رات کی تاریکی میں شب خون مارا۔ذوالفقار علی بھٹو جو اس وقت پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم تھے، انہوں نے اپنی عوامی مقبولیت کے پیش نظر قومی پارلیمنٹ کی اختتامی مدت سے قبل الیکشن کروائے اور عوامی حمایت سے قومی اسمبلی کی 200 میں سے 155 نشستیں جیت لیں اور دوبارہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ جبکہ پاکستان قومی اتحاد نے صرف 36 سیٹیں قومی اسمبلی کی حاصل کیں۔ اس وقت دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد نے ان انتخابی نتائج کو نہ مانتے ہوئے انتخابی دھاندلی کا نعرہ لگا کر احتجاجی تحریک کا آغاز کر کے ملک بھر میں جلسے جلوس اور ہنگامے شروع کردئے، بدقسمتی سے اس تحریک کو بیرونی سامراجی قوتوں نے بھی مالی اور دیگر ذفرائع سے سپورٹ کیا، کیونکہ سامراجی قوتیں ذوالفقار علی بھٹو کے ایٹمی پروگرام، والمی اسلامی بلاک، قادیانیوں اور ختم نبوت جیسے اشوز سے خائف تھیں۔
ان احتجاجی تحریکوں کی وجہ سے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان قومی اتحاد کے راہنماؤں کے درمیان سیاسی مزاکرات جاری تھے تاکہ مسائل کو حل کر کے ملک وقوم کو ترقی کی جانب گامزن کیا جاسکے، لیکن اسی دوران پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے بیرونی سامراجی قوتوں کی شہہ پر پاکستان کی منتخب عوامی حکومت پر ۵ جولائی کی رات کو قبضہ کر کے مارشل لاء لگا کر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو انکی کابینہ کے وزراء سمیت گرفتار کر کے مختلف جگہوں پر قید کردیا اور ساتھ ہی کچھ اپوزیشن راہنماؤں کو بھی حراست میں لیکر بعد ازاں انہیں جلد ہی چھوڑ دیا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کو مختلف حیلے بہانوں سے مسلسل قید میں رکھا،۔ حالانکہ مختلف سیاسی راہنماؤں جن میں نوابزادہ نصراللہ خان، پروفیسر غفور احمد نے بارہا اقرار کیا کہ اس وقت بھٹو اور دیگر اپوزیشن راہنماؤں میں مزاکرات کے کامیاب ہونے کے بعد اپوزیشن احتجاج ختم کرنے کے لئے تیار تھی اور بھٹو شہید بھی اپوزیشن کے مطالبے پر چند حلقوں میں انتخابات دوبارہ کروانے کے لئے رضامند تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ 90 دنوں میں دوبارہ انتخابات کرواکر حکومت عوام کے منتخب سیاستدانوں کو سونپ کر واپس بیرکوں میں چلے جائیں گے لیکن یہ وعدہ وعدہ ہی رہا اور کبھی ایفاء نہ ہوا اور آکر جنرل ضیاء الحق 17 اگست1988 ء کو لودھراں کے قریب بستی لعل کمال میں ایک فضائی حادثے میں جل کر راکھ کا ڈھیر ہوگئے،
بات صرف یہاں ختم نہیں ہوجاتی کہ جنرل ضیاء جل کر مرگیا اور عوام کی جان چھٹ گئی۔ جنرل ضیاء کی آمرانہ پالیسیوں نے ملک وقوم کا جو بیڑہ غرق کیا ملک بھر میں عوام کے سیاسی جمہوری،انسانی بنیادی حقوق غصب کئے، پارلیمنٹ کو ختم کردیا، ملک کے سماجی، آئینی،قانونی اداروں کا نظام تہس نہس کردیا، ذوالفقار علی بھٹو کی دشمنی میں بھٹو کو 4 اپریل 1979 ء کو نہ صرف قتل کے جھوٹے الزام میں پھانسی دیکر شہید کردیا،جس پر دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی اور ایک طویل سیاسی،جمہوری قانونی جدوجہد کے بعد کچھ عرصہ قبل ہماری عدلیہ نے دوبارہ اس مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے بھٹو شہید کو معصوم اور بے گناہ قراد دیا، لیکن جنرل ضیاء نے بھٹو دشمنی میں نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ دیگر سیاسی جمہوری کارکنوں اور راہنماؤں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دئے۔ لوگوں کو بلا وجہ سیاسی مقدمات میں گرفتار کر کے نہ صرف عام جیلوں میں بلکہ شاہی قلعہ کے تاریخی عقوبت خانوں میں سالوں پابند سلاسل رکھا، بینظیر بھٹو،بیگم نصرت بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر جو جبر ہوا اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ بے شمار کارکن اور راہنماء جن میں جہانگیر بدر جیسے لوگ بھی شامل تھے انہیں نہ صرف کوڑے مارے گئے بلکہ پارٹی کارکنوں کو پھانسی پر بھی لٹکا دیا گیا، جس کی مثال دنیا بھر کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔پیپلز پارٹی کے بہت سے کارکنوں نے جنرل ضیاء کے خلاف سیاسی جدوجہد میں خود کو ذندہ جلا کر موت کی نیند میں جاسوئے، اور ان سب کے پیچھے عالمی سامراجی آمریتی قوتوں کی آشیر باد جنرل ضیاء کو حاصل تھی، نہ صرف بھٹو کو پھانسی دے دی گئی بلکہ اس کے بیٹے شاہنواز بھٹو کو جو ایک انتہائی قابل اور ذیرک انسان تھا، پاکستان کا پہلا طالب علم جس نے جوہری توانائی کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بین الاقوامی سطح پر حاصل کی تھی کو ایک گھناؤنی سازش کے تحت ذہر دیکر فرانس کے شہر کینز میں شہید کردیا گیا،
ایک طرف تو یہ سب سیاسی دشمنیاں پیدا کی جارہی تھیں تو دوسری طرف پاکستان کو امریکی غلامی میں دھکیل دیا گیا تھا، افغان جنگ میں امریکہ کو نہ صرف فوجی اڈے مہیا کئے گئے بلکہ ہر طرح کی سہولیات دیکر پاکستان کو امریکہ کا غلام بنا دیا گیا، پاکستانی فوجی جرنیلوں کو شتر بے مہار کی طرح کرپشن کی طرف لگا دیا گیا۔اس زمانے میں دی ٹائمز نامی رسالہ نے اپنے شمارہ کے صفحہ اول پر اوجڑی کیمپ کے ڈپو کی تصویر لگا کر لکھا کہ یہ دنیا بھر میں امریکہ کا سب سے بڑا سی آئی اے کا اڈہ تھا، افغان جنگ کے نام پر ملنے والے اسلحہ کی کرپشن چھپانے کے لئے اسلام آباد کے قریب اوجڑی کیمپ کے مقام پر قائم اسلحہ ڈپو کو جلا دیا گیا۔ کیونکہ اس وقت یہ خبریں تھیں کہ سی آئی اے کی ٹیم اسلحہ کا آڈٹ کرنے اسلام آباد آنے والی تھی، اس سانحہ سے دنیا بھر میں جگ ہنسائی کے علاوہ بے شمار قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔ یہ ۵ جولائی کی ہی تباہ کاری تھی کہ پاکستان ایک ہمسایہ اسلامی ملک کے خلاف جنگ میں استعمال ہوا۔جس کے نتیجے میں ہمارے ملک میں اسلحہ اور منشیات کی بھرمار ہوئی، تعلیمی اداروں میں طلباء کی مثبت سرگرمیوں پر بے جا پابندیوں کے بعد طالب علموں میں ناجاز اسلحہ عام ہوا، ہیروئین اور دیگر منشیات کا استعمال شروع ہوا جس کے بھیانک اور گھناؤنے نتائج آج بھی پوری قوم بھگت رہی ہے۔ آج بھی ہمارے اعلی ترین تعلیی ادارے، ہمارے شہر اور دیہاتوں کی گلیاں نشئی نوجوانوں سے بھری پڑی ہیں۔ہمارا نظام انصاف دنیا بھر میں نچلی ترین سطح پر جاگراہے۔دنیا بھر کی پہلی ایک ہزار یونیورسٹیوں میں ہمارے ملک کی کوئی تعلیمی درسگاہ نہیں ہے۔ صحت اور بیماریوں کے علاج کے لئے ہم باہر کے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔
جنرل ضیاء نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے قوم کو سماجی،مزہبی اور لسانی گروہوں میں تقسیم کردیا، ہم ایک معتدل قوم بننے کی بجائے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں، عدم برداشت ہماری قوم میں ختم ہوچکی ہے، شیعہ،سنی اور دیو بندی کی لڑائی نے ہمیں اسلام کے بنیادی فلسفہ سے بھی گمراہ کردیا ہے۔ ذرا زرا سی ذاتی لڑائیوں کو ہم مذہب کی آڑ میں دینی لڑائیاں بنا دیتے ہیں،ہندو اور عیسائی تو درکنار اب تو عام مسلمان بھی ان انتہا پسند وں کی دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں، توہین مذہب کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سی بیماریاں عام ہیں۔ بینظیر بھٹو، سلمان تاثیر،شہباز بھٹی سمیت بہت سی مثالیں ہیں جہاں مذہبی قوتوں کی آڑ لیکر دہشت گردی کی گئی۔ حالیہ دنوں میں سانحہ جڑانوالہ، سانحہ سیالکوٹ اور سانحہ مدین ہمارے لئے بے شمار سوالات پیدا کرتا ہے اور ان سب کا پیدا کرنے والا جنرل ضیاء الحق ہی ہے۔جس کی پالیسیوں کا تسلسل آج بھی کسی نہ کسی حوالے سے قائم ہے۔
دنیا بھر کی اقوام مارشل لاء جیسی قباحتوں سے بچی ہوئی ہیں۔اگر مولوی تمیز الدین کیس سے نظریہ ضرورت کا سہارا نہ لیا جاتاتو جنرل ضیاء کے ساتھ ساتھ 12اکتوبر کو بھی مارشل لاء نہ لگتا اور سانحہ 9 مئی بھی رونما نہ ہوتا۔تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی تمام تر صنعتی اور ذرعی ترقی جمہوری ادوار میں ہوئی، جنرل ضیاء کے لگائے ہوئے سیاسی بونوں نے آئی پی پیز کے ذریعے جو قومی لوٹ مار کی ہے اس کی شدت سے ہر پاکستان آج بھی بلک رہا ہے، 1985 کی غیر جماعتی اسمبلی سے ترقیاتی کاموں کے نام پر شروع ہونے والی لوٹ مار آج بھی جاری ہے، اراکین اسمبلی قانون سازی کی بجائے پیسہ کمانے کے چکر میں مبتلاء ہیں،آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کنسورشم سے قرض تک کی رقم کی لوٹ مار کا شروع ہونے والا دھندا مختلف ناموں سے آج بھی جاری ہے، قومی اداروں کی موجودگی کے باوجود (بھٹو شہید نے صوبوں میں رہائشی مسائل کے حل کے لئے کالونیاں بنانے کے لئے ادارے قائم کئے) مارشل لاء دور کی پالیسیوں کے نتیجے میں سرکاری کالونیوں کی بجائے پرائیویٹ لینڈمافیا اور بحریہ ٹاؤن و ڈیفنس ہاؤسنگ کے نام پر غریب آدمی سے گھر بنانے کا حق چھین لیا گیا ہے،آج ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان روزگار نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں بیرون ملک جاکر روزگار کمارہے ہیں اور ہمارا قومی سرمایہ ضائع ہورہا ہے ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہم سوئی بھی چین سے منگواتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہنر مندوں کی تخلیق جے ایف17 تھنڈر اور ہمارے ٹینک دنیا بھر میں فروخت ہونے جارہے ہیں۔ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمیں ضرب عضب اور ضرب استحکام پاکستان جیسے کام کیوں کرنے پڑتے ہیں،ہم ایک قوم بن کر معاشی،سماجی،اقتصادی ترقی کیوں نہیں کرسکتے، ہماری صنعتیں اور ذراعت کیوں ڈوب رہی ہیں۔ پوری قوم بجلی،گیس،تیل،تعلیمی اور صحت کی سہولتوں سے محروم ہے، دوسرے طرف ہماری نام نہاد لٹیری اشرافیہ ہماری قوم کا خون چوسنے میں مصروف عمل ہے یہ سادگی کیوں نہیں اپناتی، ہم بحیثیت قوم اپنے لٹیرے حکمرانوں اور نام نہاد اشرافیہ کا احتساب کیوں نہیں کرتے، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف جیسے حکمران تو اپنے انجام کو پہنچ گئے ہم ۵ جولائی کے بدترین نتائج سے سبق حاصل کیوں نہیں کرسکتے،ہمارا ہر حکمران اقتدار کا عرصہ گزارنے کے بعد جیل کیوں جاتا ہے کیا ہم نیک اور ایماندار حکمران نہیں چن سکتے۔ہم اپنے غاصبوں کا احتساب کیوں نہیں کرتے۔ کیوں ہندوستان اور ترکی میں کوئی طالع آزما کیوں نہیں آتا، کیوں ہم ان سے پیچھے ہیں کیوں چین ہم سے آگے نکل گیا،کیا ہم کبھی درست فیصلہ نہیں کریں گے۔