ہزاروں فٹ بلندی پر جہاز کا چھت اڑ گیا ، موت چند لمحات کے فاصلے پر ۔ جہاز میں کتنے مسافر سوار تھے ؟ کون خوش قسمت ثابت ہوا ؟ یہ پرواز کب کہاں جا رہی تھی ؟ لرزہ طاری کر دینے والا سچا واقعہ ۔
https://www.youtube.com/watch?v=IRClHOvTSzw
https://www.youtube.com/watch?v=QbmavF-Mqag
https://youtu.be/QbmavF-Mqag?si=Pgzc6jri5rikt9gD
(This video will play when you copy this link amd paste in another bar )
تفصیلات کے مطابق ایوی ایشن کی تاریخ کا یہ ایک بہت ہی ہولناک اور لرزہ طاری کر دینے والا سچا واقعہ ہے . یہ ایک بوئنگ طیارہ تھا جس میں کافی مسافر سوار تھے انہیں نہیں معلوم تھا کہ جب جہاز اسمان کی بلندیوں پر پہنچے گا تو ان کے ساتھ کیا واقعہ پیش آنے والا ہے اس واقعے نے ایوی ایشن کی تاریخ میں ایس او پی حفاظتی اقدامات اور انتظامات کی روایات کو بدل کر رکھ دیا کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ وہ جہاز میں بیٹھا ہو جہاز اسمان کی بلندی پر اڑ رہا ہو اور اچانک جہاز کی چھت اڑ جائے اور انتہائی تیز اور ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے مسافروں کو زندگی اور
https://www.youtube.com/watch?v=QbmavF-Mqag&t=45s
(This video will play when you copy this link amd paste in another bar )
وہ موت کے درمیان چند لمحات کے فاصلے پر لے جائیں نہ کرے کسی کے ساتھ ایسا ہو لیکن ایک مرتبہ ایسا ہو چکا ہے اس واقعے میں نقصان بھی ہوا خوش قسمت لوگ بھی زمین پر واپس ہو کر ائے یہ ان دو بہادر پائلٹوں کا کمال تھا جنہوں نے ایک تباہ شدہ جہاز کو زمین پر ایمرجنسی لینڈنگ کروا دی اور کہیں قیمتی جانیں بچا لیں اس ویڈیو کو اپ شروع سے اخر تک دیکھیں تو اپ پر بہت سی تفصیلات عیاں ہو جائیں گی اور اپ حیران رہ جائیں گے جی ہاں یہ سچا واقعہ ہے اس کی پوری تفصیل اس ویڈیو میں موجود ہے اپ بھی دیکھیے
A Boeing 737’s mid-flight roof loss on April 28, 1988, becomes a miraculous survival tale as it lands safely, defying odds. After losing a portion of its ceiling mid-flight, Aloha Airlines Flight 243 overcame the odds and made a safe landing—a spectacular and shocking event in aviation history.
=======
28 اپریل 1988 کو بوئنگ 737 کی درمیانی پرواز کی چھت کا گرنا ایک معجزاتی زندہ بچ جانے کی کہانی بن جاتا ہے کیونکہ یہ مشکلات کو ٹالتے ہوئے بحفاظت لینڈ کرتا ہے۔ پرواز کے وسط میں اپنی چھت کا ایک حصہ کھونے کے بعد، الوہا ایئر لائنز کی پرواز 243 نے مشکلات پر قابو پا کر محفوظ لینڈنگ کی جو ہوا بازی کی تاریخ کا ایک شاندار اور چونکا دینے والا واقعہ ہے۔
https://economictimes.indiatimes.com/news/international/us/miracle-in-the-sky-us-planes-unbelievable-landing-after-roof-loss/articleshow/105391224.cms?from=mdr
بوئنگ 737-200 جس میں 89 مسافر اور عملے کے 6 ارکان سوار تھے، 28 اپریل 1988 کو 40 منٹ کی پرواز کے دوران بحرالکاہل کے اوپر ایک خوفناک واقعہ پیش آیا۔
The Boeing 737-200 carrying 89 passengers and 6 crew members had a terrifying incident over the Pacific Ocean on April 28, 1988, during the 40-minute flight.
=============
The aircraft’s ceiling detached and a significant section of the fuselage was exposed when, midway through the flight, there was an unplanned loss of cabin pressure. Flight attendant Clarabelle Lansing was tragically sucked through the opening, while passengers and crew faced the horrifying belief that the plane might disintegrate before landing.
Despite the dire circumstances, the pilots skillfully navigated the damaged plane down from 24,000 feet and executed a landing at Kahului Airport with an engine on fire. The captain took control from the first officer, initiating an emergency descent and successfully landing thirteen minutes after the incident, as confirmed by the Federal Aviation Administration.
============
(This video will play when you copy this link amd paste in another bar )
https://www.youtube.com/watch?v=QbmavF-Mqag
——————————
غلام سرور خان کے ایک بیان سے جو فلائٹ روٹس بند ہوئے آج تک بحال نہیں کراسکے
غلام سرور خان قومی مجرم ہے، مقدمہ چلنا چاہئے، ہماری حکومت مقدمہ نہیں چلاتی تو زیادتی ہوگی، اس بیان کی وجہ سے سینکڑوں ارب کا نقصان اٹھا سکے ہیں۔ وزیردفاع خواجہ آصف کی گفتگو
غلام سرور خان کے ایک بیان سے جو فلائٹ روٹس بند ہوئے آج تک بحال نہیں کراسکے
اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ یکم جولائی 2024ء ) وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ غلام سرور کے ایک بیان سے جو فلائٹ روٹس بند ہوئے آج تک بحال نہیں کراسکے،غلام سرور خان قومی مجرم ہے، مقدمہ چلنا چاہئے، ہماری حکومت مقدمہ نہیں چلاتی تو زیادتی ہوگی، اس بیان کی وجہ سے سینکڑوں ارب کا نقصان اٹھا سکے ہیں۔انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دو باتیں ہیں کہ ہمیں اڑھائی سالوں میں موقع نہیں ملا کہ ہم معیشت کو درست سمت میں ڈال دیں، جس کی وجہ سے طعنے سننے پڑ رہے ہیں، اور ایسے اقدامات بھی اٹھا رہے ہیں جو عوام کی جیب پر بھاری ثابت ہورہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔
میں اس طرح دفاع کرسکتا کہ یہ پچھلے چار سالوں کا شاخسانہ ہے، کہ ہم بجلی، پیٹرول گیس اور دیگر اشیاء کی قیمتیں ہیں ، اس میں پیٹرول کی قیمتیں عالمی سطح پر بڑھی ہیں، جس کی وجہ سے تیل کی قیمتیں بڑھانا پڑتی ہیں، جب عالمی منڈی میں پیٹرول سستا ہوگا تو ہم بھی سستا کردیں گے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی اگر پچھلے 15سالوں کی کاروائی نکال کردیکھیں تو سب پتا چل جائے گا۔
میں ممبر رہا ہوں۔ میں نے ایک تسلسل کے ساتھ ایف بی آر پر تنقید کی ہے، ٹھیک ہے ٹیکس بڑھا ہے، 9ہزار سے 13ہزار کا سوچ رہے ہیں،ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو بہتر نہیں ہے۔ جب تک کرپشن کا کلچر ختم نہیں ہوگا ، ہمارے ملک اور قوم کی جیب میں پیسے ہیں، لیکن یہ عوام کی جیبوں میں ٹرانسفر نہیں ہوتے، کراچی پورٹ ٹرسٹ پر ہزاروں ارب روپے کی کرپشن ہے، ایوی ایشن میں سینکڑوں ارب روپے کی کرپشن ہے، ایک بیان کی وجہ سے آج تک جو ہمارے روٹس بند ہوئے ان کو بحال نہیں کراسکے۔
غلام سرور خان قومی مجرم ہے، مقدمہ چلنا چاہئے، ہماری حکومت مقدمہ نہیں چلاتی تو زیادتی ہوگی، اس نے کیوں بیان دیا، عدالت میں آکر جواب دے ، اس بیان کی وجہ سے سینکڑوں ارب کا نقصان اٹھا سکے ہیں، برطانیہ یا جہاں بھی ہماری فلائٹس بند ہیں، فضا اتنی سازگار نہیں کہ فلائٹس آپریشن بحال ہوجائے،اسی طرح ریلوے دیکھ لیں باقی وزارتیں دیکھ لیں، کرپشن کی جڑیں اکھاڑنا جان جوکھوں کا کام ہوگا۔
==========================
مس عرب یو ایس اے 2024 کا ٹائٹل زنوبیا جعفر کے نام، ’میرے ذہن میں صرف جیت تھی‘
پیر 1 جولائی 2024 17:18
عراقی نژاد امریکی زنوبیا جعفر نے امریکی ریاست ایریزونا میں مس عرب یو ایس اے 2024 کا ٹائٹل اپنے نام کیا ہے۔
اتوار کو ہونے والے اس مقابلے کے بعد عرب نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں زنوبیا جعفر نے کہا کہ ’مس عرب یو ایس اے کے ساتھ میرا تجربہ میری زندگی کے بہترین تجربات میں سے ایک ہے۔ جب میں اندر گئی تو مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب میں اندر گئی تو میں ایمانداری سے کہوں گی کہ میرے ذہن میں جیت ہی تھی۔ میں نے کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’لیکن جب میں اس مقام پر پہنچی تو مجھے احساس ہوا کہ میں نے یہاں کے لوگوں کے ساتھ جو دوستی اور روابط بنائے ہیں وہ انمول ہیں اور یہ جیتنے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔‘
ملکہ رانیا نے اردنی ولی عہد کی سالگرہ پر شاہی جوڑے کی تصویر شیئر کی
’میں حقیقی طور پر ہر اس فرد سے جڑنا چاہتی تھی جس سے میں ملی تھی، اور مجھے لگتا ہے اسی چیز نے مجھے مس عرب یو ایس اے جیتنے میں مدد کی۔ کیونکہ میں نے حقیقی تعلق اور کام کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کی جو مجھے کرنے کی ضرورت ہے۔‘
مشی گن کی رہائشی سے ان کے اہداف کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’میں اپنے پلیٹ فارم کو ایسے لوگوں کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنے جا رہی ہوں جو پسماندہ کمیونٹیز سے تعلق رکھتے ہیں اور ضرورت مند ہیں۔‘
’میں خیراتی اداروں کے لیے مزید رقم جمع کرنے جا رہی ہوں۔ میں یہاں مس عرب یو ایس اے کے طور پر خدمت کرنے آئی ہوں اور اپنی آواز کا استعمال ان لوگوں کی آوازوں کو بڑھانے کے لیے کروں گی جو پوری دنیا میں نہیں سنی جاتی ہیں۔‘
زنوبیا جعفر کا خاندان 90 کی دہائی کے آخر میں عراق جنگ کے بعد امریکہ چلا گیا تھا اور اس وقت وہ چھوٹی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ’جب میں یہاں منتقل ہوئی تو مجھے ایک بات یاد آئی جو میری والدہ نے ہمیں بتائی تھی کہ ہمیں اپنی جڑیں اور ہم کہاں سے آئے ہیں اسے کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میری والدہ ہمیں عربی پڑھنا لکھنا اور بولنا سکھانے کی پابند تھیں۔ اور یہ وہ چیز ہے جس کے لیے میں اپنی والدہ کی بہت شکر گزار ہوں کیونکہ میں عربی پڑھ سکتی ہوں، میں عربی لکھ سکتی ہوں، میں عربی بول سکتی ہوں، میں بہت سی عربی بولیاں سمجھ سکتی ہوں۔ اور میں نے کبھی نہیں بھلایا کہ میں کون تھی اور میرا خاندان کہاں سے آیا ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو بہت اہم ہے جب آپ گھر سے دور بڑے ہوتے ہیں، آپ جو ہیں اس سے جڑے رہنا چاہیے۔ کیونکہ آخر میں آپ کے پاس صرف آپ کی جڑیں ہوتی ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے پاس نوجوان عرب امریکی خواتین کے لیے کوئی مشورہ ہے تو زنوبیا جعفر نے کہا کہ ’میں یہ کہوں گی کہ ایک عرب خاتون ہونے کے ناطے یہ بہت ضروری ہے کہ اپنی حدود کو آگے بڑھانا چاہیے اور ہمیشہ اپنے کمفرٹ زون سے باہر کام کرنا چاہیے، کیونکہ اس کے علاوہ آپ کبھی بھی ترقی نہیں کریں گی۔ ہمیشہ اپنے آپ کو بہتر بنانے کے لیے آگے بڑھیں۔‘
===========================
کے الیکٹرک خریدنے کی پیشکش کرنے والے علی شیخانی کون ہیں؟
ثوبان افتخار راجہ
پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی ’کے الیکٹرک‘ کو خریدنے کا اعلان کرنے کے بعد علی شیخانی کا نام خبروں میں ہے۔
علی شیخانی کی جانب سے کے الیکٹرک کو خریدنے کے اعلان کی ویڈیو کراچی کی ایک فلاحی تنظیم ’جے ڈی سی فاؤنڈیشن‘ کے فیس بک پیج پر شیئر کی گئی، جس میں انہوں نے کے الیکٹرک کو خریدنے کا اعلان کیا۔
جمعے کے روز فیس بُک پر شیئر کی گئی ویڈیو پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’پچھلے چار دنوں سے مجھے اور میری ٹیم کو ٹیگ کیا جا رہا ہے کہ کے الیکٹرک کو خرید لیا جائے۔ میں نے ظفر بھائی (جے ڈی سی کے سربراہ ) کو کہا ہے کہ وہ معلوم کریں کہ کے الیکٹرک فروخت ہو چکی یا فروخت ہونے والی ہے اور اسے خریدنے کا کیا طریقہ کار ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے پیسے کمانے کا شوق نہیں اور نہ ہی وہ کراچی والوں سے پیسے لوٹیں گے بلکہ وہ اپنے شہر کے لوگوں کو تکلیف سے نکالنے کے لیے کے الیکٹرک خریدیں گے‘۔
علی شیخانی نے بجلی کمپنی کو خریدنے کے اعلان کے علاوہ شہر کراچی میں بے امنی پر بھی بات کی اور کہا کہ ’شہر میں موبائل فون نہ دینے پر لوگوں کو گولیاں مار دی جاتی ہیں.‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کراچی کے شہری لوڈشیڈنگ کے عذاب سے پریشان اور تنگ ہیں، وہ انہیں تحفظ اور سکون فراہم کرنے کے لیے بجلی کمپنی خریدنا چاہتے ہیں.‘
علی شیخانی کون ہیں؟
لنکڈ ان پر دستیاب معلومات کے مطابق علی شیخانی شیخانی گروپ آف کمپنیز کے سی ای او ہیں۔
علی شیخانی کی پیدائش 15 اکتوبر 1986 کو کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں ہوئی۔ وہ 19 سال کی عمر میں امریکہ منتقل ہوئے جہاں انہوں نے ابتدائی طور پر ایک گیس سٹیشن میں ملازمت اختیار کی۔
انہوں نے یونیورسٹی آف ہوسٹن سے کریمنل جسٹس کی ڈگری اور ٹی کول لائسنس حاصل کر رکھا ہے۔
علی شیخانی نے ایک پوڈکاسٹ میں بتایا تھا کہ وہ امریکہ منتقل ہونے سے پہلے کراچی کے علاقے صدر کی ایک سونے کی دکان میں ملازمت کرتے تھے۔
امریکہ منتقل ہونے کے بعد انہوں نے امریکی پولیس میں بھی وقت گزارا ہے۔ علی شیخانی کی مجموعی دولت کا تخمینہ 60 کروڑ ڈالر کے لگ بگ لگایا گیا ہے۔
شیخانی گروپ کیا ہے؟
علی شیخانی نے صرف 12 سال قبل سنہ 2012 میں امریکی ریاست ٹیکساس میں شیخانی گروپ کے نام سے مختلف کاروباروں پہ مشتمل کمپنیوں کا گروپ بنایا۔
اب اس گروپ کے امریکہ اور پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی کاروبار ہیں۔
گروپ کی ویب سائٹ کے مطابق شیخانی گروپ کے تحت 40 کمپنیاں امریکہ اور پاکستان میں کاروبار کر رہی ہیں، جبکہ اس گروپ کے پاس 250 کرائے کی دکانوں کے آؤٹ لیٹس کی ملکیت بھی ہے۔
ان کمپنیوں میں دو ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں جبکہ نوجوان بزنس مین نے گیس سٹیشنز، پیٹرول پمپس، سولر سمیت انرجی کے دیگر ذرائع میں بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
اس کے علاوہ شیخانی گروپ شاپنگ پلازے بنانے سمیت دیگر ریئل اسٹیٹ کا کام بھی کرتا ہے تاہم گروپ کے اثاثوں سے متعلق ویب سائٹ پر کوئی معلومات دستیاب نہیں۔
کیا علی شیخانی کے الیکٹرک خرید سکتے ہیں؟
کراچی میں بجلی کے بڑھتے مسائل کا معاملہ سوشل میڈیا پر اٹھنے کے بعد علی شیخانی نے کے الیکٹرک کو خریدنے کی پیشکش کی تھی، تاہم یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ان کے پاس کے الیکٹرک کو خریدنے کے لیے سرمایہ ہے؟
کراچی میں مقیم صحافی زوہیب منشا نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’علی شیخانی کی کے الیکٹرک کو خریدنے کی پیش کش کو پبلسٹی سٹنٹ یا سستی شہرت حاصل کرنے کا طریقہ ہی کہیں گے۔ کیونکہ نہ ہی کے الیکٹرک نے اعلان کیا ہے کہ وہ بک رہی ہے اور نہ ہی کے الیکٹرک کو خریدا جا سکتا ہے۔‘
’آپ علی شیخانی کی نیٹ ورتھ دیکھیں اور دوسری طرف کے الیکٹرک کی نیٹ ورتھ دیکھیں تو ان میں ایک بہت بڑا خلا ہے۔ علی شیخانی کی نیٹ ورتھ 60 کروڑ سے ایک ارب ڈالر کے آس پاس ہے جبکہ کے الیکٹرک کے اثاثوں کی مالیت دو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ ’یہ پبلسٹی سٹنٹ اس وجہ سے بھی ہے کیونکہ علی شیخانی خود کو بزنس میں کہتے ہیں اور ایک کمپنی کی بنیادی معلومات حاصل کیے بغیر اسے خریدنے کی پیکش کر رہے ہیں جبکہ کے الیکٹرک کا پہلے ہی 20 سالوں کا معاہدہ ہے۔‘
’امریکہ جیسے ملک میں کاروبار کرنے والا ایک بزنس مین ایک کمپنی کی خریدای کے لیے سوشل پلیٹ فارم پر اعلان کر رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ آپ کو بنیادی رولز کا علم ہی نہیں ہے تو آپ کیسے خرید سکتے ہیں۔‘
معاشی امور سے متعلق رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز رانا کے مطابق سرکاری اداروں کی نجکاری کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ کے الیکٹرک کے اکثریتی حصص پہلے ہی بک چکے ہیں، حکومت کے حصص بہت کم ہیں۔
’پرائیویٹ کمپنی ڈیل کر سکتی ہے۔ چینیوں نے بھی ڈیل کی تھی، اس کے لیے این او سی چاہیے ہوتا ہے۔ یہ ایک صارفین کی کمپنی ہے تو اس میں پروٹیکشن کا سوال ہوتا ہے۔ حتی کہ جو پرائیویٹ حصہ دار ہیں کے الیکٹرک کے، وہ بھی حکومت کی مرضی کے بغیر اپنے حصص کسی کو آگے بیچ نہیں سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پیشکش تو کوئی بھی کر سکتا ہے لیکن اس کی خریداری کے لیے کمپنیوں کو متعلقہ حکومتی اداروں کا این او سی درکار ہوتا ہے۔ شنگائی الیکٹرک کو بھی وہ این او سی نہیں مل سکا تھا۔‘
شہباز رانا نے کے الیکٹرک کی قیمت کے حوالے سے کہا کہ ’اس کی قیمت کے متعلق تو نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں البتہ شنگائی الیکٹرک کی جو ڈیل تھی اس میں جو کچھ شیئرز وہ خریدنا چا رہے تھے، ان کی اس وقت کی ویلیو سات ارب 10 کروڑ ڈالر تھی جو بعد میں چار ارب 10 کروڑ ڈالر تک آ گئی تھی۔‘