ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کو مسلسل تیسری مرتبہ سندھ بھر کی نجی و سرکاری میڈیکل جامعات اور کالجز کے ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے ٹیسٹ(ایم ڈی کیٹ) لینے اور داخلوں کی ذمہ داری تفویض کردی گئی ہے۔
اس سے پہلے ڈاؤ یونیورسٹی نے2022 میں یہ ٹیسٹ لیا تھا اور گزشتہ برس دوبارہ لیا جانے والا ایم ڈی کیٹ بھی اسی یونیورسٹی کے زیرِ انتظام منعقد کیا گیاتھا۔
ایم ڈی کیٹ ہے کیا ؟
غور کیا جائے تو سی ایس ایس امتحانات کے بعد اہمیت کا حامل اور ملک میں بڑے پیمانے پر منعقد ہونے والاامتحان ایم ڈی کیٹ (میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ ) ہے جو ڈاکٹر بننے کے خواہشمند ہزاروں طلبا کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے ۔ ایم ڈی کیٹ کا امتحان پاکستان میں میڈیکل اور ڈینٹل کالجز اور ملکی اور بیرون ملک مقیم طلبا کے داخلے کے لیے لیا جاتا ہے۔
سندھ کی سرکاری یونیورسٹیز کے تحت میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے ایم ڈی کیٹ کا انعقاد سال 2017 سے شروع کیا گیا تھا ۔ جس میں 2017 میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کو صوبے بھر کے تمام میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے ٹیسٹ کی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی۔ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسر محمد سعید قریشی جنہیں اپنا منصب سنبھالے چند ہفتے ہی ہوئے تھے کہ انہیں “ایڈمیشن کمیٹی ٹو میڈیکل یونیورسٹیز اینڈ کالجز سندھ” کا چیئرمین بنادیا گیا۔ یہ امتحان نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) کے اشتراک سے ہو ا ، اس لیے بعض طلبا کو سوالات کے نصاب سے باہر ہونے پر اعتراض تھا اس لیے وہ عدالت چلے گئے اور عدالت نے طلبہ و طالبات کو اضافی نمبر دے کر کیس نمٹادیا تاہم اس پہلی آزمائش میں پروفیسر محمد سعید قریشی کامیاب رہے۔انتظامات بہترین رہے، کسی جانب سے پیپرآؤٹ ہونے کا کوئی الزام نہیں لگایا گیا۔ بعدازاں 2018 میں جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی ، 2019 میں لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز اور 2020 میں چانڈکا لاڑکانہ کو یہ ذمہ داری گئی تھی۔
2021 میں ایم ڈی کیٹ کا امتحان ملک بھر میں آن لائن لیا گیا تھا جو آئی بی اے نے لیا تھا اور اس میں پاس ہونے والے طلبہ کا تناسب سندھ میں صرف 22.37 فیصد تھا، جس کے بعد طلبہ کو میڈیکل کالجز میں داخلہ دینے کے لیے میرٹ کم کیا گیا ۔
پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کا نام دینے کے بعد 2022 میں ملک میں میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں ہونے والے داخلے کے امتحان سے متعلق پالیسی میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ جس کے تحت صوبے اپنی متعلقہ یونیورسٹی کو اس ٹیسٹ کی ذمہ داری تفویض کرتے ہیں۔ بعد ازاں سال 2022 میں سندھ کی سرکاری میڈیکل یونیورسٹیز کو دوبارہ یہ ٹیسٹ منعقد کرانے کی ذمہ داری دی گئی تھی اور اس سال بھی ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے تحت ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں صوبے بھر سے 44 ہزارسے زائد طلبہ نے حصہ لیا تھا۔ گزشتہ برس(2023 میں) جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کو ایم ڈی کیٹ کے لیے نامزد کیا گیاتھا تاہم 10 ستمبر کو ہونے والا امتحانی پرچہ آؤٹ ہونے سے ہزاروں طلبہ کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا تھا اور سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے نتائج کالعدم قرار دینے کے بعد حکومتِ سند ھ نے ایم ڈی کیٹ دوبارہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
تاہم 2023 کا ٹیسٹ دوبارہ منعقد کرنے کی ذمہ داری جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کی بجائے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کو تفویض کی گئی تھی اور لگ بھگ ایک ماہ کی قلیل مدت میں ڈاؤ یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام 19 نومبرکو یہ ٹیسٹ دوبارہ لیا گیا تھا ۔ بعدازاں مختلف طلبہ کی جانب سے اس ٹیسٹ کو بھی چیلنج کیا گیا تھا بالآخر عدالتی فیصلے میں بھی ڈاؤ سرخرو ہوا۔
اب سال 2024 میں حکام کی جانب سےمسلسل تیسری مرتبہ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کو سندھ بھر کی نجی و سرکاری میڈیکل جامعات اور کالجز کے 2024-25 ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے ٹیسٹ(ایم ڈی کیٹ) لینے اور داخلوں کی ذمہ داری تفویض کردی گئی ہے۔قبل ازیں یہ ذمہ داری لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو ( لمس) کو دی جانی تھی تاہم وائس چانسلرپروفیسر اکرا م الدین اجّن کی جانب سے ٹیسٹ لینے سے معذوری کے اظہار کے بعد ڈاؤ کا انتخاب کیا گیا۔
آخر ڈاؤ ہی کیوں؟
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ لمس نے انکار کردیا تو آخر ڈاؤ ہی کو منتخب کیوں گیا؟ جبکہ گذشتہ برس بھی ڈاؤنےہی یہ ٹیسٹ منعقد کیا تھا۔صوبہ سندھ میں ڈاؤ کے علاوہ جنا ح سندھ میڈیکل یونیورسٹی ، پیپلزیونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز فار ویمن نواب شاہ، شہید بینظیر بھٹو میڈیکل کالج لیاری، چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ سمیت دیگر سرکاری جامعات بھی ہیں مگر مسلسل تیسری مرتبہ بھی فیصلہ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے حق میں گیا۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایم ڈی کیٹ یا ایم کیٹ ماضی میں بھی کئی تنازعات کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے یہ امتحان دینے والے طلبہ اور ساتھ ساتھ ان کےوالدین بچوں کے مستقبل کی وجہ سے بہت زیادہ پریشانی کا شکار رہتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی یہ امتحان لینے کی اہلیت پر بھی سوال اٹھتےرہے ہیں اور ان کےتحت داخلے لینے والے طلبہ کا مستقبل بھی ایک بند گلی میں چلا جاتا ہے۔
سندھ کی جامعات اور این ٹی ایس سے پہلے کئی برس تک یہ امتحان لینے کی ذمہ داری انسٹیٹوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کے پاس تھی تاہم 2001 میں بڑے پیمانے پر فراڈ سامنے آنے کے بعد آئی بی اے پر کافی تنقید کی گئی تھی۔
بعدازاں گزشتہ برسوں میں ہونے والے ایم کیٹ یا ایم ڈی کیٹ امتحانات میں چیٹنگ، پیپر آؤٹ آف سلیبس ہونے، آنسر کی غلط ہونے، سوالات میں غلطی ہونے سمیت مختلف مسائل بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں گزشتہ برس پیپر لیک ہونے اوروسیع پیمانے پر چیٹنگ کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد جب انتہائی قلیل مدت میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کو یہ ذمہ داری دی گئی تو یہ شاید اس ادارے کی بھی آزمائش تھی کہ وہ حکومت سندھ کی امیدوں پر پورا اترتا ہے یانہیں۔ یہاں قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ جب بھی ڈاؤ کے زیرِ انتظام یہ امتحا ن لیا گیا ہے تو کسی بھی قسم کی بےقاعدگی یا انتظامی خرابی سامنے نہیں آئی۔ علاوہ ازیں اگر کسی بھی قسم کی شکایت کی گئی تو کسی مقابلے بازی اور ٹال مٹول کی بجائے اس یونیورسٹی نے ایک منظم طریقے سے سب کچھ ہینڈل کیا ہے۔ڈاؤ یونیورسٹی کی ساکھ اور میرٹ کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش ہی شاید حکومتِ سندھ کے اس فیصلے کی وجہ ہے۔
اس ضمن میں وائس چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز پروفیسر محمد سعید قریشی سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی قسم کا کریڈٹ تو نہیں لیتے کیونکہ حکومت کے طبّی تعلیمی ادارے کی حیثیت سے انہیں جو بھی ذمے داری دی جائے گی وہ اسے بہ حسن و خوبی مکمل کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور کرتے رہیں گے۔ یاد رہے کہ پروفیسر سعید قریشی ملک کے ممتاز سرجن ہیں انکی خدمات پر حکومت پاکستان نے انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا۔وہ 2008 سے 2016 تک سول اسپتال کراچی کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ رہے،2017 سے تاحال 8 سال تک وہ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں، ان کا نام ملکی سطح پر ایک غیر متنازع شخصیت کے طور پرآتا ہے۔