اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے دوران عدت نکاح کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت 25 جون تک ملتوی کردی۔
ڈان نیوز کے مطابق سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا نے کی، عمران خان کے وکیل علیم شہزاد ایڈووکیٹ آمنہ علی عدالت میں پیش ہوئے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت سوا 9 بجے تک ملتوی کر دی۔
وکیل علیم شہزاد نے بتایا کہ بشریٰ بی بی کے وکیل عثمان ریاض گل تھوڑی دیر میں عدالت پیش ہوں گے۔
وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر پی ٹی آئی وکیل عثمان ریاض گل ایڈووکیٹ اور خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔
پی ٹی آئی رہنما عون عباس بپی ، شاندانہ گلزار اور کنول شوزب بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
اس موقع پر وکیل خاور مانیکا نے استدعا کی کہ سماعت ملتوی کردیں ، آئندہ سماعت پر وکالت نامہ بھی جمع کروا دوں گا، جج نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کی سماعت ملتوی نہیں ہوسکتی، 25 جون کو مرکزی اپیلوں پر سماعت ہے اور اس دن لازمی دلائل فائنل کرنے ہیں، آپ موکل سے رابطہ کرلیں اور پاور آف اٹارنی واٹس ایپ کے ذریعے منگوا لیں۔
بعد ازاں جج افضل مجوکا نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے وکیل سے استفسار کیا کہ دو سوالوں کے جواب دے دیں، اس کیس میں سزا مختصر نہیں ہے ، اس لیے مختصر دورانیے کی سزا سے متعلق عدالت کی معاونت کریںم سپریم کورٹ کی دو ججمنٹس ہیں ان میں سے ایک آپ کے حق میں ہے اور ایک آپ کے خلاف تو آپ کس ججمنٹ کو فالو کریں گے ؟
اس پر عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ہماری مخالفت میں کوئی بھی ججمنٹ موجود نہیں ہے، جج افضل مجوکا کا کہنا تھا کہ آپ کے خلاف ایک ججمنٹ موجود ہے، وکیل نے بتایا کہ جو اعلیٰ عدلیہ سے بعد میں فیصلہ آیا اس پر عدالت عمل کرے گی، 1985 کی آئینی ترمیم کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی ہے۔
بعد ازاں بشریٰ بی بی کے وکیل عثمان گل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میں نے اڈیالہ جیل جانا ہے، سماعت سوموار تک ملتوی کرنی ہے تو میں سوموار کو دلائل دوں گا، آج سلمان اکرم راجا اپنے دلائل دے رہے ہیں۔
اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ سوموار کو سماعت کرنا ممکن نہیں ہے، منگل کو سماعت کریں گے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل جاری کرتے ہوئے بتایا کہ شریعت کورٹ کے دائرہ اختیار میں دیا گیا فیصلہ فائنل اتھارٹی ہے ، شریعت کورٹ کے قیام سے پہلے کے فیصلوں کا حوالہ نہیں دیا جاسکتا ، یہ نہیں ہوسکتا کہ تقی عثمانی نے فیصلہ لکھا ہے تو اسے سائڈ پر رکھ دیں ، اسلام میں ایک اصول ہے کہ عورت کی ذاتی زندگی میں نہیں جھانکنا، خاتون کے بیان کو حتمی مانا جائے گا، عدت کے 39 دن گزر گئے تو اس کے بعد میں ہم نہیں جھانکیں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے میں عورت پر کوئی بھی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ، اعلیٰ عدلیہ نے سارا قصور پراسیکیوشن پر ڈالا کہ انہوں نے عورت کا بیان نہیں لیا، عدالت نے اس بنیاد پر مقدمہ خارج کردیا تھا کہ عدت کے 39 دن گزر گئے۔
اس پر جج افضل مجوکا نے کہا کہ اس عدالت کی جانب سے سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط نہیں کہا جا سکتا ہے، وکیل عمران خان کا کہنا تھا کہ مسلم فیملی لا میں عدت کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ، چیئرمین یونین کونسل کو طلاق کا نوٹس جانے کے بعد 90 دن گزرنے چاہئیں ، اس کیس میں ہر کوئی مان رہا کہ طلاق تو بہرحال ہوگئی ہے، عدت کا تصور شرعی ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ فراڈ کون کررہا ہے؟ کس کے ساتھ کررہا؟ دو فریقین موجود ہیں جن میں سے ایک فراڈ ہوگا، جج افضل مجوکا نے دریافت کیا کہ 496 بی میں تو سزا نہیں ہوئی؟
سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ 496بی ختم کردیا گیا تھا، سزا کی بات نہیں، فردجرم بھی 496 بی میں عائد نہیں ہوا، 496 بی میں دو گواہان ہونے لازم ہیں جو سامنے نہیں آئے، خاور مانیکا کے مطابق 14 نومبر 2017 میں تین بار تحریری طلاق دی گئی، ہمارے مطابق اپریل 2017 میں بشریٰ بی بی، خاور مانیکا کی طلاق ہوئی، بشریٰ بی بی طلاق کے بعد اپنی والدہ کے گھر چلی گئیں، چار ماہ وہاں رہیں، بشریٰ بی بی کو دوران ٹرائل اپنا مؤقف سامنے نہیں رکھنے دیا گیا۔
عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ پورا مقدمہ شادی کے ایونٹ پر بنایا گیا ہے، اگر سیکشن 7 کی خلاف ورزی ہوتی بھی تب بھی کرمنل کیس نہیں چلایا جا سکتا ہے، جب چیئرمین یونین کونسل کو نوٹس نہیں ہوا تو طلاق کا آئیڈیا نہیں لگایا جا سکتا کہ کب ہوئی، ان کے مطابق 14 نومبر 2017 کو ہوئی اور ہمارا مؤقف ہے کہ طلاق اپریل 2017 کو ہوئی، ایک لمحے کے لیے کہانی 14 نومبر سے شروع کر لیتے ہیں ، 14 نومبر کو اگر دی ہے طلاق تو 90 دن والا تعلق ختم ہوتا ہے کیونکہ چیئرمین یونین کونسل کو نوٹس نہیں ہوئے، فیملی لا کے سیکشن 7 میں عدت کا کوئی ذکر نہیں ہے ، سپریم کورٹ نے 90 دنوں کا شادی سے تعلق ختم کردیا، نوٹس کا جواز ہی نہیں، عدالت نے دیکھنا ہے اسلامی شریعت عدت کے حوالے سے کیا کہتی ہے؟ شہنشاہ عالمگیر کے دور کے فتوے کو شریعت عدالت نے اپنا حصہ بنایا ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے مزید بتایا کہ غیر معمولی صورتحال ہے، اعلیٰ عدلیہ نے ڈائریکشن دی کہ سزا معطل اور اپیل پر فیصلہ کرنا ہے، اگر شکایت کنندہ کے الزامات بھی مان لیے جائیں تو کیس ثابت نہیں ہوتا، شکایت کنندہ نے بشریٰ بی بی کےخلاف ثبوت بھی پیش نہیں کیے، دو فیصلوں سے ثابت ہوا شریعت عدالت عورت کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے، شریعت میں عدت کی مدت کا ذکر نہیں ہے، خاتون نے ثابت نہیں کرنا ہوتا کہ اس کے 3 پیریڈز گزر چکے، خاتون کی جگہ شکایت کنندہ نے ثابت کرنا ہوتا کہ 3 پیریڈز نہیں گزرے۔
انہوں نے بتایا کہ اگر مرکزی اپیل پر فیصلہ کرنا ہو تو سزا معطلی پر فیصلہ نہ بھی کریں تو مسئلہ نہیں ہوتا، اس کیس میں ہائی کورٹ نے ڈائریکشن دی ہے کہ سزا معطلی اور مرکزی اپیلوں پر ٹائم فریم کے مطابق فیصلہ دینا ہے، شوہر کی وفات کے بعد عورت کو وراثت کی محرومی سے بچانے کے لیے عدالت نے عدت کا دورانیہ 90 دن ثابت کرنے کا فیصلہ کیا۔
سلمان اکرم راجا ایڈووکیٹ نے دلئال دیے کہ قانون کا مقصد عورت کو سہارا دینا ہے، میں سزا معطلی کے ساتھ ساتھ اپیل پر بھی معاونت کرنا چاہوں گا، مجھے معلوم ہے آئندہ پندرہ روز میں عدالت نے سزا معطلی کی اپیل پر فیصلہ کرناہے۔
بعد ازاں سلمان اکرم راجا نے مفتی سعید کے انٹرویو کی کاپی بذریعہ یو ایس بی عدالت میں جمع کروا دی۔
وکیل نے کہا کہ مفتی سعید نے اقرار کیاکہ جیونیوز کے اینکر شاہزیب خانزادہ کو انٹرویو دیا، یکم فروری کو گواہی شروع ہوئی، دو فروری کو ٹرائل کورٹ نے فیصلہ سنادیا۔
جج افضل مجوکا نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ 2 روز میں فیصلہ دے دیا؟ وکیل نے بتایا کہ ہم 14، 14 گھنٹے دو روز کھڑے رہے، ٹرائل کورٹ نے کہا آج ہی سب کریں، ٹرائل کورٹ نے کہا گواہ، دلائل، سب آج کریں، فیصلہ سنانا ہے، رات 12 بجے تک اڈیالہ جیل میں کھڑے رہے، ٹرائل کورٹ کا اعلان جنگ تھاکہ 3 فروری کو ہی فیصلہ سنانا ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ آپ نے کبھی کسی وکیل کو کہا ہےکہ رات 11 بجے دلائل دیں؟
اس کے بعد خاور مانیکا کا اینکر شاہزیب خانزادہ کو جیونیوز پر دیے گئے انٹرویو کو کمرہ عدالت میں چلایا گیا۔
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ انٹرویو میں شاہزیب خانزادہ نے بھی سابقہ کا لفظ استعمال کیا، خاور مانیکا نے بھی سابقہ اہلیہ کہا، ٹرائل کورٹ میں خاورمانیکا نے جھوٹ بولاکہ انٹرویو دیتے وقت بشریٰ بی بی سابقہ اہلیہ نہیں تھیں، خاورمانیکا ایک جھوٹا شخص ہے، عدالت میں جھوٹ بولا
اس پر وکیل شکایت کنندہ زاہد آصف چوہدری نے کہا کہ خاورمانیکا کے ساتھ ذاتیات پر نہ اتریں، خاورمانیکا کہیں جھوٹے ثابت نہیں ہوئے ہیں۔
وکیل عمران خان نے بتایا کہ خاورمانیکا نے انٹرویو میں بانی پی ٹی آئی کو دعائیں دیں اور کہا روحانی تعلق تھا، شکایت دائر کرنے سے قبل خاورمانیکا 5 سال 11 ماہ خاموش رہے، خاور مانیکا کو گرفتار کیا گیا، 4 ماہ جیل رہے، 14 نومبر کو جیل سے باہر آئے، 25 نومبر کو شکایت دائر کی، جو لوگ چِلے پر جاتے ہیں ہمیں معلوم ہے ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے، میں مفتی سعید کا جھوٹ بھی عدالت کے سامنے لانا چاہتا ہوں، مفتی سعید کے لیے میرے پاس جھوٹ کے علاوہ اور کوئی شائستہ لفظ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خاورمانیکا سے قبل ہوا میں سے کہیں نمودار ہونے والے محمدحنیف نامی شہری نے شکایت دائر کی، محمد حنیف کی شکایت میں وہی گواہان موجود تھے جو خاورمانیکا کی شکایت میں تھے، عون چوہدری شکایات کے کرتا دھرتا ہیں، تمام گواہان کو عون چوہدری جمع کرتے تھے۔
سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے کہ میرا دل نہیں مانتا کہ میں مفتی سعید کو عالم کہوں، کوئی سوچ سکتاہےکہ عدالت میں کھڑے ہو کر جھوٹ بولا جاسکتا ہے؟ مفتی سعید نےکہا دوسرے نکاح کے دوران معلوم نہیں کون کون گواہان موجود تھے، عون چوہدری کی موجودگی میں مفتی سعید نےکہا معلوم نہیں کون گواہ تھا، مفتی سعید بھروسے کے لائق نہیں ہیں۔
عنران خان کے وکیل نے بتایا کہ عون چوہدری کو بدلے میں استحکام نامی پارٹی کے ٹکٹ سے نوازا گیا۔
بعد ازاں وکیل سلمان اکرم راجا نے خاور مانیکا کے ملازم اور گواہ محمد لطیف کا بیان عدالت میں پڑھا۔
جج افضل مجوکا نے دریافت کیا کہ خاور مانیکا کو کب معلوم ہوا کہ بشریٰ بی بی ، بانی پی ٹی آئی کا نکاح ہوا؟ وکیل خاور مانیکا نے کہا کہ میں پوچھ کر عدالت کو آگاہ کردوں گا۔
سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ کوئی ثبوت نہیں کہ فراڈ نکاح کیا گیا ہے، جج نے ریمارکس دیے کہ 27 جون سے پہلے سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ کرنا ہے، کوئی فریق اگر نا بھی آیا تو ریکارڈ دیکھ کر فیصلہ کر دوں گا، ابھی 25 جون کے لیے کیس رکھ رہا ہوں۔
بعد ازاں عدالت نے سزا معطلی کی اپیل پر سماعت 25 جون تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ 14 جون کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت دوران عدت نکاح کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی جانب سے سزا معطلی اور جلد سماعت کی اپیلوں پر سماعت 21 جون تکل ملتوی کردی گئی تھی، اس دوران جج افضل مجوکا نے کہا کہ اگر میں زندہ رہا تو 10 دن میں فیصلہ کروں گا۔
واضح رہے کہ 13 جون کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے دوران عدت نکاح کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی کیس جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے اور سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کے دوران جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے تھے کہ اس کیس میں پہلے بھی دو بار عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے ، کوئی بھی ایسا فیصلہ نہیں کرسکتا جس سے مشکلات ہوں۔
واضح رہے کہ 11 جون کو اسلام آباد کی سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس کی جلد سماعت مقرر کرنے اور سزا معطلی کی درخواست پر سماعت 13 جون تک ملتوی کردی تھی۔
واضح رہے کہ 7 جون کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دورانِ عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف اپیلیں جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے اور سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت 11 جون تک ملتوی کردی تھی۔
یاد رہے کہ 4 جون کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس کی جلد سماعت اور سزا معطلی کی درخواست پر 7 جون کو دلائل طلب کرلیے تھے۔
دوران سماعت بشریٰ بی بی کے وکیل سلمان صفدر نے مؤقف اپنایا کہ عدت نکاح کیس میں فروری سے دلائل دے رہے ہیں، بشریٰ بی بی بیمار بھی ہیں، اس پر جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ عدت میں نکاح کیس کی فائل کل مارک ہوئی، 5 مرتبہ کیس کال کیا، کوئی پیش نہیں ہوا، اس لیے عدت میں نکاح کیس میں 25 جون کی تاریخ مقرر کر دی، بشریٰ بی بی کی جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی درخواست پر نوٹس جاری کر دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ 3 جون کو سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف عدت نکاح کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست منظور کرلی تھی۔
واضح رہے کہ 29 مئی کو کیس کی سماعت کے دوران سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے جج شاہ رخ ارجمند پر اعتراض کیا تھا۔
خاور مانیکا نے سیشن جج سے مکالمہ کیا تھا کہ ہمارا کیس کسی اور عدالت میں ٹرانسفر کر دیں، سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے ریمارکس دیے کہ عدم اعتماد کی درخواست پہلے بھی خارج ہو چکی ہے۔
اس پر خاور مانیکا نے جج سے کہا کہ میں آپ سے فیصلہ نہیں کروانا چاہتا، جج نے دریافت کیا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟
خاورمانیکا نے بتایا کہ مجھے نہیں معلوم مگر بانی پی ٹی آئی نے پچھلی عدالتوں میں بھی ایسا ہی کیا، سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے ریمارکس دیے کہ ایک بات چیت ہوتی، کچھ ٹھوس وجہ ہے تو بتائیں؟
خاور مانیکا نے کمرہ عدالت میں پی ٹی آئی کارکنان کی نقل اتارتے ہوئے کہا کہ جج بیٹھے ہوئے ہیں اور پی ٹی آئی والے ناچ رہے۔
بعد ازاں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے اپیلیں کسی دوسری عدالت میں منتقل کرنے کے لیے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھ دیا تھا۔
انہوں نے خط میں لکھا کہ خاور مانیکا کی جانب سے کھلی عدالت میں عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا، پہلے بھی عدالت پر عدم اعتماد کی درخواست مسترد کی جا چکی ہے، عمران خان اور بشریٰ بی بی کی عدت میں نکاح کیس میں اپیلیں کسی دوسری عدالت کو منتقل کردی جائیں، شکایت کنندہ اور ان کے وکیل کی جانب سے اپیلوں میں تاخیری حربے استعمال کیے جاتے رہے، اپیلوں پر فیصلے کے لیے عدالتی ٹائم فریم مقرر کیا جائے۔
واضح رہے کہ 31 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے دورانِ عدت نکاح کیس خارج کرنے کے لیے بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
قبل ازیں 18 جنوری کو دوران عدت نکاح کیس کے خلاف عمران خان کی درخواست پر کیس فائل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ارسال کردی گئی تھی۔
تاہم یہ واضح رہے کہ 16 جنوری کو غیر شرعی نکاح کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد کی جاچکی ہے۔
15 جنوری کو عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے بھی غیر شرعی نکاح کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، بشریٰ بی بی کی درخواست پر 17 جنوری کو کیس فائل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ارسال کردی گئی تھی۔
3 فروری کو سابق وزیراعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو غیر شرعی نکاح کیس میں 7، 7 سال قید کی سزا سنادی گئی تھی۔
پسِ منظر
واضح رہے کہ 25 نومبر کو اسلام آباد کے سول جج قدرت کی عدالت میں پیش ہو کر بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف دوران عدت نکاح و ناجائز تعلقات کا کیس دائر کیا تھا، درخواست سیکشن 494/34، B-496 ودیگر دفعات کے تحت دائر کی گئی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ میراتعلق پاک پتن کی مانیکا فیملی سے ہے، بشریٰ بی بی سے شادی 1989 میں ہوئی تھی، جو اس وقت پر پُرسکون اور اچھی طرح چلتی رہی جب تک عمران خان نے بشریٰ بی بی کی ہمشیرہ کے ذریعے اسلام آباد دھرنے کے دوران مداخلت نہیں کی، جو متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر اور درخواست گزار کو یقین ہے کہ اس کے یہودی لابی کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔
خاور مانیکا نے بتایا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی شکایت کنندہ کے گھر میں پیری مریدی کی آڑ میں داخل ہوئے اور غیر موجودگی میں بھی اکثر گھر آنے لگے، وہ کئی گھنٹوں تک گھر میں رہتے جو غیر اخلاقی بلکہ اسلامی معاشرے کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی میں بھی گھسنا شروع ہوگئے، حالانکہ اسے تنبیہ کی اور غیر مناسب انداز میں گھر کے احاطے سے بھی نکالا۔
خاور مانیکا نے درخواست میں بتایا تھا کہ ایک دن جب اچانک وہ اپنے گھر گئے تو دیکھا کہ زلفی بخاری ان کے بیڈ روم میں اکیلے تھے، وہ بھی عمران خان کے ہمراہ اکثر آیا کرتے تھے۔
انہوں نے درخواست میں بتایا تھا کہ بشریٰ بی بی نے میری اجازت کے بغیر بنی گالا جانا شروع کر دیا، حالانکہ زبردستی روکنے کی کوشش بھی کی اس دوران سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
مزید لکھا تھا کہ بشریٰ بی بی کے پاس مختلف موبائل فونز اور سم کارڈز تھے، جو چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر فرح گوگی نے دیے تھے۔
خاور مانیکا نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ نام نہاد نکاح سے قبل دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ غیر قانونی تعلقات قائم کیے، یہ حقیقت مجھے ملازم لطیف نے بتائی۔
درخواست میں مزید بتایا تھا کہ فیملی کی خاطر صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب ضائع گئیں، اور شکایت کنندہ نے 14 نومبر 2017 کو طلاق دے دی۔
خاور مانیکا کی درخواست کے مطابق دوران عدت بشریٰ بی بی نے عمران خان کے ساتھ یکم جنوری 2018 کو نکاح کر لیا، یہ نکاح غیر قانونی اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
مزید لکھا تھا کہ دوران عدت نکاح کی حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کر لیا، لہٰذا یہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے، دونوں شادی سے پہلے ہی فرار ہوگئے تھے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت سخت سزا دی جائے۔
11 دسمبر کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف خاور مانیکا کی جانب سے دائر غیر شرعی نکاح کیس کو قابل سماعت قرار دے دیا تھا۔
https://www.dawnnews.tv/news/1236081/
======================
بیرون ملک پناہ لینے والوں کے پاسپورٹ پر پابندی کیخلاف درخواست پر نوٹس جاری، جواب طلب
لاہور ہائی کورٹ نے بیرون ملک پناہ لینے والوں کے پاسپورٹ پر پابندی کے خلاف دائر درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
ڈان نیوز کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سلطان تنویر نے کیس پر سماعت کی۔
درخواستگزار نے مؤقف اپنایا کہ پاسپورٹ کے لیے اپلائی کیا ہے لیکن حکومت نے پاسپورٹ جاری نہیں کیا، درخواستگزار کے خلاف کسی قسم کا کوئی کیس نہیں ہے۔
انہوں نے استدعا کی کہ عدالت متعلقہ حکام کو بیروان ملک پناہ لینے والوں کے لیے پاسپورٹ جاری نہ کرنے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے۔
واضح رہے کہ شہری نے حکومتی فیصلے کے خلاف گزشتہ روز درخواست دائر کی تھی۔
11 جون کو وفاقی وزارت داخلہ نے بیرون ملک پناہ لینے والے پاکستانیوں کو پاسپورٹ جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، وزیر داخلہ کی جانب سے یہ بڑا فیصلہ ملکی سلامتی اور سیکیورٹی کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اپنی وزارت کو اس سلسلے میں اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کردی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق محسن نقوی کی ہدایت پر وفاقی وزارت داخلہ نے اس حوالے سے مراسلہ وزارت خارجہ اور دیگر متعلقہ حکام کو ارسال کر دیا ہے۔
وزارت کی جانب سے جاری مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ایسے تمام پاکستانی جو کسی بھی بنیاد پر دوسرے ممالک میں پناہ لیں گے، ان کو پاسپورٹ نہیں ملے گا۔
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ایسے پاکستانیوں کے پاسپورٹ منسوخ کردیے جائیں گے اور ان کی دوبارہ تجدید بھی نہیں کی جائے گی۔
واضح رہے کہ رواں سال کے آوائل میں پاسپورٹ کے نظام میں شفافیت لانے کے لیے ایک نئی پاسپورٹ اتھارٹی (پاکستان امیگریشن، پاسپورٹ اینڈ ویزا اتھارٹی) کے قیام کی تجویز وفاقی حکومت کو ارسال کی گئی تھی۔
نئی پاسپورٹ اتھارٹی کے قیام کے لیے ترمیمی آرڈیننس کے مسودے میں کہا گیا تھا کہ یہ ڈیجیٹل امیگریشن، ای ویزا، ایمرجنسی ٹریول ڈاکومنٹ، مشین ریڈایبل پاسپورٹس جاری کرے گی۔
مسودے میں کہا گیا کہ اتھارٹی پاکستانی شہریت کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کرے گی، اتھارٹی کو پاسپورٹ، ویزا، تمام داخلی و خارجی پوائنٹس پر امیگریشن کے اختیارات ہوں گے، اس کے علاوہ نیشنل بارڈر مینجمنٹ، ایگزٹ کنٹرول لسٹ، پاسپورٹ کنٹرول لسٹ، ایف سی ایل سے متعلقہ مختلف سسٹمز بنانے کے بھی اختیارات ہوں گے۔
اتھارٹی کے پاس پاسپورٹ کے اجرا، ان کی تجدید، ویزا کے اجرا کے بھی اختیارات ہوں گے، اتھارٹی ویزا کی تجدید اور ان حوالوں سے درخواستیں بھی وصول کر سکے گی اور اس کے پاس امیگریشن، پاسپورٹ اور ویزا ڈیٹا ویئر ہاؤس بنانے اختیارات ہوں گے، جبکہ اتھارٹی سٹیزن شپ ایکٹ 1951، سٹیزن شپ رولز 1952 کے تحت سٹیزن شپ سرٹیفکیٹ جاری کر سکے گی۔
واضح رہے کہ حالیہ برسوں کے دوران روزگار کے مواقعوں میں کمی، معاشی بدحالی اور مہنگائی کے پیشِ نظر پاکستانی شہریوں کے ملک چھوڑنے اور دیگر ممالک میں رہائش اختیار کرنے کے رجحان میں کئی گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
گزشتہ برس ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2023 کی پہلی سہ ماہی کے دوران ساڑھے 4 لاکھ سے زائد پاکستانی مختلف ممالک روانہ ہو چکے ہیں۔
پاکستانیوں کی بڑی تعداد کا بیرون ملک جانے کا اندازہ پاسپورٹ دفاتر اور امیگریشن سینٹرز پر جا کر لگایا جا سکتا ہے جہاں اِن دنوں پاسپورٹ اور ویزا کے خواہشمندوں کی لمبی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں۔
اس وقت محکمہ پاسپورٹ اور امیگریشن کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا تھا کہ پہلے ہمیں پورے ملک سے ایک دن میں 25 ہزار درخواستیں موصول ہوتی تھیں لیکن اب یہ تعداد یومیہ 45 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔