ڈاکٹر اعجاز احمد ملک معاشرتی مسائل کی نشاندہی

(تحریر: نوید انجم فاروقی)
ڈاکٹر اعجاز احمد ملک ایک میڈیکل اسپیشلسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں دلچسپی رکھنے والی شخصیت بھی ہیں اور وہ سٹیزن فرنٹ کے کنوینر ہیں۔ ایک ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے اُن کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں اِس لئے گاہے بگاہے سماجی بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ایک محب وطن شہری ہونے اور سوچنے کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے وہ پاکستان کے مسائل پر غور کرتے رہتے ہیں اور اِن کی وجوہات جانے کے ساتھ ساتھ اُن کا حل تلاش کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ اگر اہل لوگ میدان خالی چھوڑ دیں گے تو اُن کی جگہ نااہل لوگ لے لیں گے کیونکہ خلا کو کسی نے تو پُر کرنا ہے۔ اِسی سوچ کے تحت وہ پی ایم اے کی انتخابات میں بھی صدارت کے اُمیدوار رہے ہیں اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں۔ بے شک وہ اِن دونوں محاذوں پر کامیابی حاصل نہیں کر سکے لیکن اپنی موجودگی کا احساس ضرور دلایا ہے۔
ڈاکٹر اعجاز ملک ادبی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں وہ حلقہ ارباب ِ ذوق منڈی بہاء الدین کے سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں اور ادبی، سماجی، معاشی حلقوں سے تعلق رکھنے والے دوستوں کی محفل ”بیٹھک“ میں بھی بھرپور سنگت کرتے ہیں جہاں پر وہ ہمارے معاشرتی اور سماجی رویؤں پر سوال اٹھاتے ہیں اور دوستوں کی رائے جاننے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بھی اُنھوں نے اپنے معاشرے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کچھ سوال اُٹھائے ہیں جو کہ ہر ذی شعور کے ذہن میں اُٹھتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ وہ معاشرتی سوال یہ ہیں:”ڈاکے، قتل، دہشت گردی، حفاظتی تدابیر کے بغیر کام کرنے کے دوران حادثے، ٹریفک کے نظام کے فقدان کی وجہ سے ٹریفک حادثات، تعمیر کے معیار کو نظر انداز کرنے اور نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے عمارتوں کے گرنے اور آگ لگنے کے واقعات، ہر دن زیادہ لوگوں کا خط ِ غربت سے نیچے جانا، روزافزوں مہنگائی، غربت سے تنگ خاندانوں کے خود کشی کے واقعات، سیاسی عدم استحکام، قوموں کی برادری میں باعزت مقام حاصل کرنے میں ناکامی، زندگی کے ہر شعبے میں ترقی معکوس،اِس درجے کی بد انتظامی اور معاشی بدحالی کیسے پیدا ہو گئی؟ پاکستان کے اِس حالت کو پہنچنے کی غالب ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے“؟
یہ ایسے فکری سوال ہیں جن کا جواب تلاش کرنا اور پھر اُس کوتاہی کا تدارک کرنا بھی بہت ضروری ہے تاکہ ہم ترقی یافتہ قوموں کا حصہ بن سکیں۔اہل فکر کا خیال ہے کہ تمام وسائل موجود ہونے کے باوجود اِن خرابیوں کا ہونا ہمارے نظام کی ناکامی ہے جب تک ہم نظام کو درست نہیں کریں گے، اُس پر خود بھی عمل نہیں کریں گے اور دوسروں کو بھی کرنے پر مجبور نہیں کریں گے ہمارے حالات سدھرنے والے نہیں۔قوانین کے ہوتے ہوئے اُن پر عمل پیرا نہ ہونا اور سب کیلئے علیحدہ علیحدہ قانونی ضابطے ہونا بھی ہماری ناکامی کی بہت بڑی وجہ ہے اگر سختی سے قوانین پر عمل شروع ہوجائے اور امیر، غریب، طاقتور یا کمزور کسی کا لحاظ نہ کیا جائے تو معاشرے میں بہتری آ سکتی ہے۔ تبدیلی کے خواہاں اپنے اندر پہلے تبدیلی لائیں تو سارے معاشرے میں تبدیلی آ جائے گی۔