روئیداد خان۔ پاکستان کی تاریخ کے انسائیکلوپیڈیا تھے

تحریر: سہیل دانش
کاش مجھ میں اتنی ہمت آجائے کہ جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دیکھ رہا ہوں اور جو کچھ سنا۔ اور سُن رہا ہوں اُسے کہہ سکوں اُسے لکھ سکوں۔ اُن کی آواز میں درد تھا۔ اُن کے کھردرے چہرے پر کرب کی لکیریں اُبھر آئی تھیں۔ میری یہ ملاقات اسلام آباد میں متعین ایک بیوروکریٹ نے کرائی جو روئیداد خان کے بڑے چہیتے اور پسندیدہ رہے۔ دو دہائی قبل اِس پہلی ملاقات میں پاکستان کی تاریخ کے اِس غیرمعمولی بیوروکریٹ کی شخصیت کو پہچاننے میں زیادہ دُشواری پیش نہیں آئی دنیا کے عمومی طور پر ہر بڑے انسان کی طرح سادگی اور کھراپن اُن کا پہلا عکس تھا۔ پاکستان کی تاریخ کی پوری داستان اُنہیں ازبر تھی۔ وہ مجھے عاجزی اور محبت بھرے انسان دکھائی دئیے۔ اُن کی ہر بات میں اتنی گہرائی، لاجک، ریزن تھا کہ تاریخ کے حوالے سے ذہنوں میں موجود تمام جالے خودبخود صاف ہوتے چلے گئے۔ وہ اِس داستان کے عینی شاہد ہی نہیں۔ انسائیکلوپیڈیا تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ مورخ کے ہاتھ بھلے بندھے ہوں۔ مگر تاریخ کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں نہیں ڈالی جاسکتیں۔ کتنے حکمران آئے جو تاریخ کے غبار میں گم ہوگئے میری اُن سے تین ملاقاتیں رہیں آخری ملاقات کو بھی کئی سال بیت گئے۔ آج میں سوچ رہا ہوں کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آنکھیں موندنے سے پہلے اُنہوں نے وہ وقت بھی دیکھ لیا۔ جب جج انصاف مانگ رہے ہیں۔ اور پولیس سیکیورٹی مانگ رہی ہے۔ روئیداد خان کا کہنا تھا کہ ہمارے سیاستدان جب تک اپنے گھر کے باہر دو چار سو لوگ جمع نہ کرلیں۔ جب تک یہ لوگوں کو جھوٹے وعدوں کی افیون دے کر گھر نہ بھجوادیں اُنہیں اقتدار اور زندگی کا مزا نہیں آتا۔ وہ جو باتیں کررہے تھے اُن سے میں یہ نتیجہ اخذ کرسکا کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ آنکھیں کھولنے کے لئے آنکھوں کے بند ہونے کا انتظارکرتے ہیں انسان کی آنکھیں اُس وقت تک نہیں کھلتیں جب تک اُس کی آنکھیں مستقل طور پر بند نہیں ہوجائیں وہ کہنے لگے کہ ہم جیسے زندگی کی آخری سیڑھی پر بیٹھے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر زندگی دوبارہ ملے تو ہم اِس کے ہر لمحے کو استعمال کریں گے۔ یہ در حقیقت اُس شخص کی کہانی ہے۔ جس نے مردان میں آنکھ کھولی اور زندگی کی 100 بہاریں دیکھ کر بالآخر اُسی سفر پر روانہ ہوگئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ زندگی میں بے پناہ اختیار اور اقتدار کو کوریڈور میں براجمان کوئی شخص دُکھی دِل زخمی سانسوں غمناک احساس اور بوجھل قدموں کے ساتھ اپنی زندگی کا سفر تمام کرے گا۔ لیکن اِس بات پر اُن کا ایمان بڑا پختہ تھا کہ انسان کی محنت ارادے اور نیت کی سچائی کو بارگاہِ الٰہی میں ہمیشہ قبولیت حاصل ہوتی ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ اقتدار اور اختیار در حقیقت جنگلی گھوڑے یا بدمست ہاتھی کی طرح ہوتا ہے اگر آپ گھڑ سواری سیکھے بغیر یا ہاتھیوں کی نفیسات کو سمجھے بغیر ان پر سوار ہوجائیں گے تو یہ آپکو اپنے پیروں تلے کچل دیتے ہیں۔ اس ملک میں جابجا ہر کوئی اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے ریڈلائن کراس کرنے کا عادی بن گیا ہے۔ میں نے اُن سے دریافت کیا کہ ہماری تاریخ کے اِس سفر کی اتنی جہتیں اور لہریں ہیں کہ ہم اب تک اِس کی سمت کا تعین نہ کرسکے۔ وہ کہنے لگے کہ نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے لیکن ہمارے تجربات کا سلسلہ ختم نہیں ہورہا۔ بنیادی وجہ ہے کہ ہم بار بار ارادے کے بجائے شخص اور تاریخی تسلسل کے بجائے نادیدہ راستے کی کھوج کی طرف لپکتے ہیں۔ درحقیقت ہر غلطی معافی اور ہر معافی تلافی مانگتی ہے۔ غلطی بانجھ نہیں ہوتی بچے دیتی ہے، میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا غلام محمد اور اسکندر مرزا کی سوچ آج بھی ہمارے نظام پر حکومت کررہی ہے۔ وہ کہنے لگے تمام پاکستان صرف تماشائی ہیں۔ جیسے سرکس میں ہاتھی کو سائیکل چلاتا دیکھ کر سب خوش ہوتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ ہاتھی کو مجبوراً سائیکل چلانی پڑرہی ہے۔ ہنٹر کی مدد سے شیر آگ کے تالے میں کود رہا ہے۔ ساتھ ساتھ ڈنڈا ہی ہے۔ جو شیر کو چوہا بنادیتاہے۔ ایوب خان کے مارشل لاء کی تلخیوں اور ضیاء الحق کی عذاب جیسی من مانیوں نے پاکستان کو کیا نقصان پہنچایا۔ یحییٰ خان کی شاہانہ بدمستیوں اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کا اصل ذمہ دار کون تھا وہ کیا عوامل تھے، جن کے سبب مشرقی حصہ ہم سے جدا ہوگیا، پھر بھٹو کو پھانسی کا پھندہ کیوں نصیب ہوا، پاکستان کے پورے نظام میں فوج اور عدلیہ کا کیا کردار رہا۔ اِن تین ملاقاتوں میں میں نے جناب روئیداد خان سے بہت کچھ جاننے کی کوشش کی۔ اُنہوں نے جو باتیں بتائیں وہ کسی اور وقت تفصیل سے لکھوں گا۔ آج تو صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ ہم لوگ کسی کو یاد کرنےاُس کی شخصیت کے پہلوؤں کو اُجاگر کرنے اُس کی خوبیوں اور اُس کے فن اور صلاحیتوں کا مطالعہ کرنے کے لئے اُس کے مرنے کاانتظار کیوں کرتے ہیں کاش کہ میں اُن کی تلخ و شیریں انکشافات سے پُرگفتگو پر سیر حاصل بحث اُن کی زندگی میں کرتا، گفتگو کے یہ سیشن کسی “شہاب نامہ” سے کم نہ تھے۔ انشاء اللہ زندگی سلامت رہی تو کوشش کروں گا۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ جناب روئیداد خان جیسے غیر معمولی انسان کے ساتھ اپنےرحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔