350 کشمیری خواتین اپنے ہی وطن میں شہریت کی منتظر۔۔

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی،
============

اس سے فلسطینیوں کو کوئی سہولت ملی یا نہیں، لیکن حجت تمام کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی عدالت انصاف اسرائیل کے خلاف فیصلہ دے چکی کہ، جنگی اصول کے مطابق اسرائیل سول آبادی پر بربریت نہیں کر سکتا، لہٰذا وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو فورا بند کرے۔ اسرائیل کے خلاف یہ درخواست ساوتھ افریقا نے دی تھی اور اسی نے اس مقدمے کی پیروی بھی کی۔ مسلمان ممالک میں سے کسی ایک کو بھی اس کی جرات نہیں ہوئی کہ ایسا کرے۔ میں مماثلت تو نہیں کر رہا لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ جموں وکشمیر میں بھی بھارت انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کر رہا ہے، لیکن دنیا میں کشمیریوں کا کوئی ایک ملک بھی ہمدرد نہیں جو بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ لے کر جائے خصوصا خواتین اور بچوں کی جو حالت زار کی ہے بھارتی فوج نے، وہ کسی بھی لحاظ سے قابل معافی نہیں اور نہ اسے درگزر کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تو یہ محاورہ بھی غلط ثابت ہوتا ہے کہ زخم بھر جاتے ہیں۔ میں اس پر اتفاق نہیں کرتا، بعض زخم ایسے ہوتے ہیں صرف خشک ہو کر خون رسنا بند ہو جاتا ہے، لوگ کریدتے ہیں تو خون دوبارہ رسنا شروع ہو جاتا ہے۔ کشمیریوں کے زخم خاص طور پر خواتین اور بچوں کو جو زخم لگے وہ اتنے گہرے ہیں کہ زخمیں خشک ہونے میں بھی وقت لگے گا۔ خواہ کٹھوعہ کی آٹھ سالہ آصفہ بانو کا زخم ہو یا وادی کی 18 ماہ کہ حبا بی بی کا زخم، نیلوفر اور اس کی بہن بھابی کا زخم ہو یا کنن پوش پورہ کی 100 خواتین کے ساتھ ظلم زیادتی ناانصافی اور ریاستی عدم تعاون کے مقابلے میں بہادری، استحکام اور برداشت کی کہانی، سب نہ بھرنے والے زخم ہیں۔ یہ دو چار نہیں لگ بھگ 21 ہزار خواتین ہیں جو زخموں سے چور چور ہوئیں تاہم تازہ رپورٹ کے مطابق وادی میں 350 خواتین آج اپنے ہی وطن میں بے وطن اور شہریت کی انتظار میں زبو حالی کا شکار ہیں، لیکن ان کے مسائل اور مشکلات پر کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ نہ بھارت اور پاکستان میں انسانی حقوق کے ادرے، تنظیمیں اور شخصیات بولتی ہیں، نہ بین الاقوامی سطح پر کوئی ملک اور اس مقصد کے لیے قائم ادارے یہ ایشو اٹھاتے ہیں کہ جن لوگوں کا یہ وطن ہے وہ اپنے ہی وطن میں شہریت کے لیے کیوں کر ترس رہے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ایک وطن ایک ریاست ہے جس کا رقبہ اور جغرافیائی محل وقوع اقوام متحدہ نے تسلیم کر رکھا ہے۔ پھر یہاں کے شہریوں کو ایک سے دوسرے خطے میں آنے جانے کے لیے یا شہریت کے لیے کسی اضافی دستاویزات کی ضرورت نہیں ہونا چاہیے۔ پشتی سرٹیفکیٹ کے علاوہ، کوئی بھی چیز کشمیریوں کو اس بنیادی حق سے محروم نہیں کرسکتی، حتی کہ عارضی سرحد بھی۔ بس اس پر کشمیریوں کو سیاسی اور سفارتی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ آج اگر مقبوضہ جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا یا وہاں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی برادری اس شدت سے آواز بلند نہیں کر رہی جس کی ضرورت ہے تو اس میں کشمیریوں کی اپنی ہی کوتاہی اور کمزوری ہے انہوں نے دنیا سے رابطہ کیا ہی کب اور اپنا مقدمہ بین الاقوامی برادری کے پاس کب پیش کیا۔ لیکن اب وقت بہت گزر گیا، کشمیریوں کو فیصلہ کن اقدام کرنا ہو گا اور دنیا بھر میں جن اقوام نے آزادی حاصل کی ان کی آزادی کی تحریکوں کے ماڈل کو اپنانا ہو گا۔ کشمیری ڈائس پورہ جو کثیر تعداد میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں یہ کام بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں۔ وہ قیادت بھی نکال سکتے ہیں اور وسائل بھی مہیا کر سکتے ہیں صرف کوشش کی ضرورت ہے اتحاد اور سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ مشترکہ طور پر کوئی ایسی تنظیم قائم کریں جو سکھوں کی طرح مضبوط بھی ہو منظم بھی اور نظریاتی طور پر پختہ اور متحرک بھی۔ یہ کام بیرون ریاست خاص طور پر برصغیر کی سرحد سے باہر رہنے والے کشمیری ہی کر سکتے ہیں کم از کم انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں تو اٹھائیں تاکہ تشدد اور بندوق کے زور پر بھارت نے جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں زبردستی کا قبضہ کر رکھا ہے اس کا کوئی جواب تو اس کو ملے، تشتری میں حلوے کی مانند بھارت کشمیر کو ہڑپ کر کے بیٹھ گیا اور ہم بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں تو قصہ تمام ہو جائے گا۔ ماضی میں مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کر کے آزاد کشمیر آنے والے نوجوانوں سے شادی کرنے والی آزاد کشمیر کی تقریباً 350 خواتین کو آج مقبوضہ کشمیر میں امتیازی قوانین کی وجہ سے غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔ یہ خواتین کئی دہائیاں قبل بھارت کے بحالی پروگرام کے تحت اپنے شوہروں کے ساتھ مقبوضہ جموں کشمیر گئی تھیں۔ اس وقت تو ان کو ویلکم کہا گیا اب وہ بری طرح پھنس چکی ہیں۔ ان کے پاس نہ تو سفری دستاویزات ہیں اور نہ آزاد کشمیر میں اپنے خاندانوں کے پاس واپس جانے کی اجازت ہے۔ ہانگ کانگ سے شائع ہونے والے اخبار “سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ” نے اپنی تازہ رپورٹ میں لکھا کہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں نے ان خواتین کے حقوق کی پامالی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ اُنہیں مقبوضہ کشمیر کی شہری تسلیم نہ کرنا ان کے بنیادی حق۔ اور ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگانا اور اُنہیں اپنے خاندانوں کے پاس واپس جانے سے روکنا ان کے آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ اخبار نے لکھا کہ ان کی قانونی حیثیت اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال سے وہ ذہنی طور پریشان اور اضطراب کا شکار ہیں۔ فرزندان جموں و کشمیر کو چاہیے کہ دختران کشمیر کے اس مسئلے کو عالمی عدالت انصاف میں اٹھائیں اور عدالت سے کئیں کہ ان کو بطور قوم تسلیم کرے۔ کشمیریوں کو یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ پشتی سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر منقسم خطوں میں آ جا سکیں یہ ان کا آبائی وطن ہے اور آبائی وطن میں آزادانہ نقل و حرکت پر شہری کا بنیادی حق ہے۔ بھارت کا دعوی ہے اس کی جانب سے کی گئی قانونی اصلاحات سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام خوش اور وہاں امن امان مثالی ہے لیکن ساتھ میں سخت پابندیاں فوجی آپریشن اور گرفتاریاں بھی جاری ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے ضلع پونچھ کے علاقے ہری بدھا میں قمرالدین نامی اسکول ہیڈ ماسٹر کو اس کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا۔ ہیڈ ماسٹر کے گھر پر چھاپے کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں قابض فوجیوں کو گھر میں گھستے اور تلاشی لیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ہیڈ ماسٹر پر الزام ہے کہ اس نے تقریر کے دوران اسکول کے بچوں کو بھارت کے خلاف اکسایا ہے۔ مبینہ طورپر ضلع بارہمولہ کے علاقے امر گڑھ میں بشیر احمد لون کے دو منزلہ رہائشی مکان کو بھارتی فوجیوں نے آگ لگائی۔ جو قریبی دوگھروں تک پھیل گئی۔ بشیر احمد لون کا مکان مکمل جب کہ قریبی گھروں کو شدید نقصان پہنچا۔ فائر ٹینڈروں نے پہنچنے میں حسب سابق غیر معمولی تاخیر ہوئی تاہم مقامی لوگوں کی مدد سے آگ پر جزوی قابو پایا گیا۔ واقعے میں لاکھوں روپے مالیت کی املاک جل کر خاکستر ہو گئیں۔