زمین بمقابلہ پلاسٹک لڑائی عروج پر


تحریر زبیر بشیر
==============

پلاسٹک،ایک ایسا مواد ہے جو زمین کا شاید ہی کوئی ایسا ہو جہاں موجو دنہ ہو ۔ ہماری پیاس بجھانے والی پانی کی بوتلوں سے لے کر ہماری خریداری کے لیے دستیاب پلاسٹک بیگز تک ہم نے اس سہولت کی بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا سیارہ بمقابلہ پلاسٹک کے تھیم کے ساتھ 55 واں عالمی یوم ارض منا رہی ہے۔ یہ دن ہر سال 22 اپریل کو منایا جاتا ہے۔
پلاسٹک پر ہمارے انحصار نے ایک ہمارے سیارے کے لیے خطرناک ماحولیاتی چیلنج پیدا کیا ہے۔ دنیا بھر میں ہر ایک منٹ میں 10 لاکھ پلاسٹک کی بوتلیں استعمال کی جاتی ہیں ۔ پلاسٹک کے تھیلے، پلاسٹک کی آلودگی کی ایک اور وسیع شکل ہیں ،ان کا سالانہ استعمال کھربوں کی تعداد میں ہوتا ہے۔ اکثر و بیشتر پلاسٹک کی بوتلیں اور بیگ صرف ایک بار ہی استعمال ہوتے ہیں۔ پلاسٹک کی عمر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ فوسل مادوں سے بننے والے پلاسٹک کو ڈی کمپوز ہونے 150 سے 200 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور اس دوران بھی یہ انتہائی زہریلا مواد خارج کرتے رہتے ہیں۔

یہ خطرہ محض اتنا سادہ نہیں ، مائیکرو پلاسٹک کے 5 ملی میٹر سے کم سائز کے پلاسٹک کے چھوٹے ٹکڑے، اس کی سنگینی کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ یہ ذرات ہمارے سمندروں، دریاؤں اور یہاں تک کہ جس ہوا میں ہم سانس لیتے ہیں اس میں سرائیت کر جاتے ہیں، جو سمندری زندگی کے لیے ایک اہم خطرہ ہیں اور ممکنہ طور پر انسانی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ سالانہ پیدا ہونے والے 200 ملین ٹن پلاسٹک کے کچرے میں سے 10 فیصد سے بھی کم کو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، اس پلاسٹک کی ایک بڑی مقدار کا آخری ٹھکانہ ہمارے سمندراور دریابنتے ہیں۔ پلاسٹک کی یہ آلودگی نہ صرف ہمارے قدرتی مناظر کی خوبصورتی کو متاثر کرتی ہے بلکہ سمندری ماحولیاتی نظام کو بھی تباہ کر دیتی ہے۔ ہمارے سمندروں میں اس وقت پلاسٹک کا 85 فیصد ملبہ موجود ہے۔ سمندر یا اس کے کنارے رہنے والی 800 سے زائد حیاتیاتی انواع پلاسٹک کے کچرے سے متاثر ہو رہی ہیں ۔
اگرچہ عالمی تصویر ایک سنگین منظر کو پیش کرتی ہے تاہم اس حوالے سے ادراک کے حوصلہ افزا آثار ہیں۔ چین، جسے کبھی پلاسٹک کی آلودگی میں بڑا حصہ دار سمجھا جاتا تھا، اس مسئلے سے نمٹنے میں ایک حیران کن رہنما کے طور پر ابھرا ہے۔ پلاسٹک کا کچرا پیدا کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک کے طور پر، چین نے کارروائی کی ضرورت کو تسلیم کیا اور پچھلی دہائی کے دوران اہم اصلاحات کو نافذ کرنا شروع کیا۔
چین اس وقت پلاسٹک ویسٹ کی ری سائیکلنگ اور تخلیق نو کے لیے دنیا کی بلند ترین صلاحیت اور پیداوار پر فخر کرتا ہے۔ اس متاثر کن کارنامے کا سہرا پالیسی تبدیلیوں اور حکومتی اقدامات کے سلسلے میں پنہاں ہے۔ 2001 میں، چین نے ڈسپوزایبل فومڈ پلاسٹک کے دسترخوان کی تیاری پر پابندی لگا کر ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا، جو کہ پلاسٹک استعمال کو کم کرنے کی طرف ایک اہم پہلا قدم تھا۔ اس کامیابی کے بعد، چین نے 2008 میں پلاسٹک کے پتلے شاپنگ بیگز کی تیاری، فروخت اور استعمال پر مکمل پابندی لگا دی۔ صرف اس فیصلے نے ملک کے اندر پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال میں نمایاں کمی کی۔
پابندیوں کے علاوہ، چین نے ایک مضبوط ری سائیکلنگ انفراسٹرکچر تیار کرنے میں بھی بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ حکومتی مراعات اور ری سائیکلنگ کی جدید سہولیات کی تخلیق کے ذریعے، چین نے اپنی پلاسٹک کی ری سائیکلنگ کی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے۔ 2010 سے 2020 تک، چین نے شاندار طور پر 170 ملین ٹن پلاسٹک کے فضلے کو ری سائیکل کیا۔ یہ اہم ماحولیاتی فوائد کی ترجمانی کرتا ہے – 510 ملین ٹن خام تیل کی کھپت اور حیرت انگیز طور پر 61.2 ملین ٹن کاربن کے اخراج میں کمی۔
اس حوالے سے چین کی ترقی قابل ستائش ہے چین کی کوششیں بین الاقوامی برادری کے لیے ایک قابل قدر مثال ہیں۔ تعاون اور علم کا اشتراک اس عالمی چیلنج سے نمٹنے کی کلید ہے۔ دیگر ممالک بھی چین کی کامیاب پالیسیوں اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی سے سبق حاصل کر سکتی ہیں۔پلاسٹک آلودگی کے خلاف جنگ انفرادی یا قومی کی جنگ نہیں بلکہ یہ تمام ممالک کی مشترکہ جدوجہد ہے۔ یہ مسئلہ ایک عالمی، متحد نقطہ نظر کا مطالبہ کرتا ہے۔ حکومتیں سخت ضوابط نافذ کر سکتی ہیں اور پلاسٹک ویسٹ مینجمنٹ اور بائیو ڈیگریڈیبل میٹریل کی پیداوار کے لیے اختراعی حل کی ترغیب دے سکتی ہیں۔ تکنیکی ترقی ری سائیکلنگ کے عمل کو مزید بہتر بنا سکتی ہے اور مائیکرو پلاسٹک کے بڑھتے ہوئے مسئلے سے نمٹ سکتی ہے۔
اس عالمی یوم ارض پر، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا سیارہ پلاسٹک میں ڈوب رہا ہے۔ ہم سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ افراد، صنعتیں اور قومیں – مل کر کام کریں اور آنے والی نسلوں کو پلاسٹک سے پاک مستقبل دیں ، ایک ایسا مستقبل جہاں ہمارے سمندر زندگی سے بھر پور ہوں ، نہ کہ پلاسٹک کے کچرے سے۔ یہ ایک ایسا مستقبل ہے جہاں سہولت ہمارے ماحول کی قیمت پر نہ آتی ہو۔