بھٹہ اف سیالکوٹ ڈاکڑ چوہدری ریاض احمد بھٹہ ۔۔۔۔


تحریر ۔۔۔۔شہزاد بھٹہ
================
۔درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ۔۔۔۔۔۔۔ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیان ۔۔۔
تخلیق انسانیات کے تاریخی مرحلہ میں جو راز پوشیدہ تھا اس کو اشکار کرتے ھوئے شاعر نے اس شعر میں حقیقی ترجمانی کی ھے انسان جو کہ اللہ کا نائب کی حیثیت سے اس دنیا میں بھیجا گیا کہ وہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کرے ۔
انسان کو اشرف المخلوقات صرف اسی بناء پر کہا گیا ھے کہ اس میں ایسی صفات رکھی گئی ھیں کہ وہ دوسری تمام مخلوقات سے برتر اور اعلی ثابت ھو انہی صفات میں ایک صفت درد دل ھے جس سے وہ انسانیت کی اعلی ترین قدروں کو روشناس کراتا ھے موجودہ مادی دور میں جبکہ ھر انسان ظاہری جاہ و حشمت تضنع و بناوٹ اور مصنوعی شان و شوکت کی دوڑ میں لگا ھوا ھے مگر پھر بھی کچھ افراد موجود ھیں جن کے نزدیک انسانیت کی خدمت ھی زندگی کا مقصد ھے ایسے عظیم لوگ ھر شعبہ زندگی میں موجود ھیں

اسی قبیلے کا ایک عظیم نام ڈاکڑ ریاض احمد بھٹہ ھے کوٹلی بھٹہ سیالکوٹ کے رہنے والے میرے عظیم والد جو سرکاری ملازم ھوتے ھوئے ساری عمر انسانیات کی خدمت کرتے رھے ان کا تعلق سیالکوٹ شہر کی ایک اعلی تعلیم یافتہ بھٹہ خاندان سے تھا ان کے والد محترم خان ہدایت اللہ خان بھٹہ محکمہ انہار میں قانگو تعینات تھے اور اسی حیثت سے ریٹارئر ھوئے تھے ۔خان صاحب فارسی اور عربی کے ماھر تھے ۔
ہدایت اللہ خان چار بھائی تھے ان میں خان عطا اللہ خان ملیرکوٹ ریاست میں چیف سیکورٹی افیسر تھے چویدری برکت اللہ خان بھٹہ حیدر اباد سندھ میں اباد ھوگئے تھے اور عنایت اللہ خان بھٹہ بورے والا چک نمبر 329 کے نمبردار تھے
ڈاکڑ ریاض احمد بھٹہ کوٹلی بھٹہ سیالکوٹ میں 1922 میں پیدا ھوئے ۔ڈاکڑ ریاض احمد بھٹہ صاحب کے والدہ محترمہ کا نام کفائت بیگم تھا جو چویدری غلام علی بھٹہ کی بیٹی تھیں کفائت بیگم دینی امور کی بہت ماھر تھیں ۔ہدایت اللہ خان بھٹہ کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں ۔ان میں غلام احمد بھٹہ ۔رضیہ مقبول۔ریاض احمد بھٹہ ۔مختار احمد بھٹہ۔امتیاز بیگم ۔مسعود جاوید بھٹہ اور طاھر فاروق بھٹہ شامل ھیں ۔جبکہ ریاض بھٹہ کے بڑے بھائی مشتاق احمد بھٹہ چھوٹی عمر میں ھی انتقال فرما گئے تھے
ڈاکڑ ریاض احمد بھٹہ کے نانا چوہدری غلام علی بھٹہ اسکاوش مشن ھائی سکول سیالکوٹ میں حساب انگریزی اور فارسی کے استاد تھے جو 1922 میں سرکاری ملازمت سے ریٹارئر ھوئے تھے وہ پہلے مسلمان ٹیچر تھے جو وہ اپنی وفات 1927 تک سکاٹ لینڈ انگلستان سے پنشن حاصل کرتے رھے ۔ علامہ اقبال پہلی کلاس سے پانچویں کلاس تک چوہدری غلام علی بھٹہ کے شاگرد خاص رھے جس پر وہ ہمیشہ فخر کرتے تھے ۔
غلام علی بھٹہ کے چار بیٹے اور سات بیٹیاں تھیں ۔ ان میں علی اصغر بھٹہ۔علی اکبر بھٹہ المعروف مولائی صاحب ( میرے نانا ابا ) ڈاکڑ محمد اقبال شیدائی مشہور انقلابی لیڈر اور ازاد ہند گورنمنٹ کے پہلے صدر اور ڈاکڑ محمد جمال بھٹہ ( بانی نشتر میڈیکل کالج ملتان۔اور سابقہ سیکریٹری صحت پنجاب)۔
ڈاکٹر ریاض احمد بھٹہ نے ابتدائی تعلیم اپنے ابائی گاوں کوٹلی بھٹہ سے حاصل کی۔
کوٹلی بھٹہ سیالکوٹ شہر سے تقربیا 9 میل اور کوٹلی لوہاراں سے شمال کی طرف تین میل کے فاصلے پر دریائے چناب کے پاس واقع ھے گاوں کی ابادی راجپورت بھٹہ پر مشتمل تھی
کوٹلی بھٹہ ڈاکٹر ریاض بھٹہ کے بزرگ پڑدادا چویدری علی احمد بھٹہ نے اباد کی تھی جن کے والد محترم چویدری الہی بخش بھٹہ پسرور ضلع سیالکوٹ میں اباد تھے پسرور میں محلہ بھیٹاں اج بھی موجود ھے جو الہی بخش بھٹہ کے بزرگوں نے اباد کیا تھا۔
کوٹلی بھٹہ جموں کشمیر سے انے والے نالہ نیلوا کے کنارے اباد ھے کوٹلی بھٹہ اپنے خوبصورت ام اور سنگتروں کےباغات کی وجہ سے پورے علاقے میں مشہور تھا جو کہ ڈاکٹر ریاض بھٹہ کے بزرگوں نے لگائے تھے ۔۔
بھٹہ قوم کے افراد نے گاوں میں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک پرائمری سکول قائم کیا جو ضلع سیالکوٹ کا پہلا پرائمری سکول تھا ۔
ڈاکٹر ریاض بھٹہ نے پرائمری کوٹلی بھٹہ سے پاس کرکے چھٹی اور ساتویں کلاس کوٹلی لوہاراں سے پاس کی جبکہ ساتویں سے میڑک تک تعلیم سکاش مشن ھائی سیالکوٹ سے حاصل اور میڑک کا امتحان 1939 میں اسکاش مشن ھائی سکول سیالکوٹ سے کیا۔جہاں ان کے نانا ابا چویدری غلام علی بھٹہ استاد تھے۔
یہی وہ سکول ھے جہاں سے سیالکوٹ کے عظیم لوگوں نے تعلیم حاصل کی برصغیر میں سکاش مشن سکول سسٹم نے ابتدا میں صرف سیالکوٹ اور کلکتہ میں اپنے سکولز قائم کیے۔
اسکاش مشن سکول سیالکوٹ سے علامہ محمد اقبال ۔ڈاکٹر محمد اقبال شیدائی ۔ ڈاکٹر محمد جمال بھٹہ سمیت کئی عظیم شخصیت نے تعلیم حاصل کی ۔۔
ریاض بھٹہ نے میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ ھائی سکول سیالکوٹ سے ایک سالہ ٹائپ بک کیپنگ کی ٹریننگ حاصل کی۔
ریاض بھٹہ نے اپنے ماموں ڈاکٹر محمد جمال بھٹہ کی ہدایت پر 1940_41 میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاھور سے ملحق پبلک ہیلتھ انسٹیٹویٹ سے ایک سال کا سنیڑی انسپکڑ کا کورس نمایاں پوزیش سے پاس کیا ۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا تھا کہ لاھور میں اسی کورس کے دوران ان کا قیام ڈاکڑ جمال بھٹہ کی رھائش واقع صفاواں والا چوک مزنگ میں رھا ۔
ڈاکٹر ریاض کو محترم حمید نظامی بانی ایڈٹیر نوائے وقت ۔ڈاکٹر سو جمال بھٹہ ۔میجر کفایت اللہ وغیرہ کو تحریک پاکستان کے لیے کام کرتے ھوئے دیکھنے کا موقع ملا ۔۔
نوائے وقت کی اشاعت ڈاکڑ جمال بھٹہ کی رھائش گاہ سے ھی شروع ھوئی۔ اس مقصد کے لیے ڈاکڑ جمال بھٹہ نے اپنی رہائش کا ایک کمرہ حمید نظامی کو دے رکھا تھا جہاں پر حمید نظامی نے نوائے وقت کا ابتدائی دفتر بنا رکھا تھا اس کی اشاعت کی فنڈنگ ڈاکڑ اقبال شیدائی جو اس وقت اٹلی/ فرنس میں جلاوطنی کی زندگی گزر رھے تھے اور انگریز حکومت کے خلاف جدوجہد کر رھے تھے مہیا کرتے تھے ڈاکڑ ریاض بھٹہ اس وقت ان کے لیے بطور ورکر خدمات سرانجام دیتے رھے ھیں ۔
کنگ ایڈورڈ کالج سے ہیلتھ کورس کرنے کے بعد ریاض بھٹہ نے ٹاون کمیٹی میترانوالی سیالکوٹ سے بطور سنیڑی انسپکڑ جاب شروع کی۔ 1943 میں ڈاکڑ صاحب نے برٹش انڈین ارمی بطور انٹی ملیریا انسپکڑ جائن کی ان کی پہلی تعیناتی برٹش ارمی ہسپتال سیالکوٹ چھاونی میں ھوئی
تقربیا ایک سال بعد ڈاکٹر ریاض بھٹہ کو کانگڑہ ویلی کشمیر میں ٹانڈا ملڑی کیمپ ہسپتال میں ٹرانسفر کر دیا گیا یہاں پر یول YOUL کیمپ جہاں پر سیکنڈ ورلڈ وار کے اٹلی کے قیدی رکھے گئے تھے ڈاکٹر صاحب کو بطور انٹی ملیریا انسپکٹر تعینات کر دیا گیا
یہ فوجی کیمپ انتہائی شدید طور پر متاثرہ میلریا ایریا میں تھا جہاں پر ڈاکڑ ریاض نے انتہائی جانفشانی اور محنت سے اپنے فرائض ادا کیے اور میلریا کو کنڑول کرنے میں کامیاب ھوئے اس کمیپ میں ڈاکڑ صاحب کو مشہور ادیب کیٹپن ڈاکڑ شفیق الرحمن ( جنرل ڈاکڑ شفیق الرحمن اسلام اباد ) کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ملا ۔۔کیپٹن ڈاکٹر شفیق رحمن ان دنوں یول کمیپ میں ملڑی ملیریا یونٹ کے کمانڈنٹ تعینات تھے ۔
یول ملڑی کیمپ کانگڑہ میں اٹلی کے سپاھی سے لیکر جنرل تک قیدی تھے ڈاکٹر ریاض اپنی دیگر ٹیم کے ساتھ مل کر کیمپ سے میلریا کو کنڑول کرنے میں کامیاب ھوئے ۔
ڈاکڑ ریاض اپنی یاداشت میں لکھتے ھیں کہ اٹالین جوتے بنانے میں بہت ماھر تھے سپاھی سے لیکر جنرل تک سارا سارا دن جوتے بنانے میں مصروف رہتے تھے بلکہ انہوں نے ڈاکڑ صاحب کو کچھ جوتے بنا کر تحفہ میں دیئے ۔۔۔
کانگڑہ میں قیام کے بارے ڈاکٹر ریاض اکثر بتایا کرتے تھے کہ کانگڑہ میں زیادہ ہندووں کی اکثریت تھی پورے شہر میں چند ایک مسلمانوں کے گھر تھے بازار میں صرف ایک مسلمان کی دوکان تھی جو پشاور کے خان صاحب کی تھی جن سے ڈاکٹر صاحب کی دوستی ھو گئی جس سے ان کے دن رات اچھے گزارنے لگے ۔
کانگڑہ میں پہلے دن کے بارے ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ھیں کہ وہ کیلے لے کر بازار سے گزر رھے تھے کہ اچانک پیچھے سے کسی نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور دوسرے ہاتھ سے کیلوں کا پیکٹ چھین لیا ڈاکٹر صاحب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک بڑے بندر تھا جس نے ڈاکٹر صاحب سے کیلے چھینے تھے
بندر بڑے ارام سے کیلے لے کر چلا گیا یہ دیکھ کر ڈاکٹر صاحب بڑے پریشان ھوئے وہ بندر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے کیونکہ کانگڑہ میں بندروں کو بھگوان کا درجہ حاصل تھا اس موقع پر بازار کے ایک دوکان دار نے ڈاکٹر صاحب کی پریشانی دیکھ کر مدد کی اور اپنی دکان پر لے گیا اور اپنا تعارف کروایا
ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ لگتا ھے کہ اپ اس شہر میں نئے ائے ھیں اور کہاں سے تشریف لائے ھیں ڈاکٹر ریاض صاحب نے بتایا کہ وہ مسلمان ھیں اور سیالکوٹ کے رہنے والے ھیں ٹانڈا ملڑی کیمپ میں تعینات ھیں دکان دار نے بتایا کہ وہ پشاور کے رہنے والا ھے اور مسلمان ھے یوں ڈاکٹر صاحب کی خان صاحب سے دوستی ھوگئی ۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحب تقربیا دس مہینے تک دھرم سالہ کینٹ ملٹری ہسپتال میں تعینات رھے اور وہ 1945 کے وسط میں ارمی سروس سے فارغ ھوگئے ۔یول کیمپ ٹانڈا کانگڑہ وادی میں شاندار خدمات سرانجام دینے پر کے انچارج کیمپ نے ڈاکٹر ریاض احمد بھٹہ کو خراج تحسین پیش کیا ارو تعریفی سرٹیفکٹ جاری کیا ۔۔۔
ڈاکٹر ریاض احمد بھٹہ نے دس اکتوبر 1945 سے بطور سنیڑی انسپکڑ محکمہ صحت حکومت پنجاب سرکاری نوکری کا اغاز کیا ان کی پہلی تعیناتی گجرات میں ھوئی ۔۔۔