پاکستان کے گمراہ نوجوان اور مشال یوسف زئی کی بے بسی۔

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی۔
===========

معلوم نہیں خاتون مشیر کی ذاتی خواہش تھی یا 76 سالہ دور رواں دواں پر خیبرپختونخوا حکومت کو ڈالنے کی بیوروکریسی سازش، لیکن پی ٹی آئی سوشل میڈیا خانسٹ فورس نے اس کو وقت سے پہلے ہی ناکام بنا دیا ۔ اس سارے کھیل میں وزیر اعلی کی خاتون مشیر مشال یوسف زئی کی بے بسی دیدنی ہے۔ بے چاری نے ” کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا 12،آنے” ساری وضاحتیں اور تردیدیں اپنی جگہ اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے برطرفی کا مطالبہ اپنی جگہ خان کی سوچ کا اونٹ کارکنوں کے ساتھ بیٹھے گا یا مشال یوسف زئی کو تھبکی
ملے گی ہفتہ رواں میں معلوم ہو گا۔ تاہم شاندانہ گلزار کہہ چکی کہ کیس آڈھیالہ میں قیدی نمبر 804 تک جائے گا۔ ” چہ پدی چہ پدی کا شوربہ” گاڑی کی حیثیت ہی کیا ہے، پاکستانی سیاسی تاجروں کے مزاج میں ابھی کچھ بھی نہیں بدلا، ہم اپنے کٹر دشمن مودی کی تعریف کیوں نہ کریں کہ اپنے ملک کے لیے سارے پاکستان میں اس جیسا ایک بھی نہیں وہ کوئی ٹائی کوٹ میں ہو, واسکٹ شلوار قمیض میں یا کسی اور لباس میں، نہ اس جتنا ایمان دار ہے نہ ویژنری، جو جب کجرات کا وزیر اعلی تھا تو توشہ خانہ کے تحائف 100 کروڑ میں نیلام کئے اور وہ رقم بچیوں کی تعلیم پر خرچ کی، کہتا ہے ” دل نے بہت چاہا کہ ان تحائف میں سے کچھ رکھ لوں لیکن اتنی ہمت ہی نہ پڑی” ۔ ہمارے کتنے بہادر ہیں کہ سیاسی تاجروں کی کیا بات ان کا کاروبار تو نسل در نسل چل رہا ہے، سرکاری ملازمین کی بیگمات اور خاندان کے دیگر افراد کے اکاؤنٹ میں اربوں ذاتی ملکیت ہوتے ہیں جیسے یوکرین میں اسٹیل کا کاروبار انہی کا تھا۔ ملازمت تو محض خدمت کے طور پر کر رہے ہیں مگر نہ کوئی سوال پوچھنے کی طاقت رکھتا ہے نہ ہمت اگر کسی نے کچھ ہینگی بھنگی کی تو نگا کر کے سافٹ وئر اپڈیٹ کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ ہمارا نیب بھی کرپشن روکنے میں کس قدر متحرک ہے کہ عدالت میں لکھ لکھ دے رہا ہے کہ توشہ خانہ سے کروڑوں روپے مالیت کی غیر قانونی لی گئی گاڑی کے کیس کی ہم پیروی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ جیسے حلوائی کی دوکان پر دادا جی کی فاتحہ پڑی جا رہی ہو۔ کیوں بھائی تم دلچسپی کیوں نہیں رکھتے، یہ حلوائی کی دوکان تو نہیں تمارا کام ہے، بولو کہ کرپشن ہوئی یا نہیں، گاڑی قانونی طریقے سے لی گئی ہے تو، لکھ کر دو کہ مقدمہ بنتا ہی نہیں بدنیتی پر مبنی ہے۔ غیرقانونی طریقے سے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا تو رقم وصول کرو۔ جیسے قومی خزانہ نیب کے سربراہ کا ذاتی اکاؤنٹ ہو اور موصوف خود بادشاہ سلامت ہوں کہ جس کو چاہا مال سرکار تقسیم کیا جس کو چاہا گرفتار کر لیا۔ گاڑی لینے والے اتنے غریب اور فقیر تو نہیں تھے، ان کے لیے یہی اچھا ہوتا کہ گاڑی کی پوری رقم خزانے میں جمع کرتے اور قوم سے معافی مانگتے۔ ان کا گرے وقار میں اضافہ ہوتا۔
پی ٹی آئی کے برگر کارکنوں کو مار کٹائی نے بہت زیادہ پختہ کار سیاسی کارکن اور مضبوط نظریاتی بنا دیا۔بلکہ کندن بن کر نکلے ہیں۔ خاص طور پر خانسٹ گروپ جو پی ٹی آئی ہارڈلائینر ہے پہلے سے بھی زیادہ سخت اور پختہ کار ہوا کہ اب اس کو برگر کہنا برگر کی بھی توہین ہے۔ خانسٹ تو ایسی ویسی کوئی بات ماننے کے لیا تیار ہی نہیں۔ ظاہر ہے جو لوگ ایک ایک سال قید سخت میں گزار کر آئیں اور سڑک پر جمع ہو کر پھر نعرہ بازی کریں” عمران تیرے چانے والے، جیل والے جیل والے” وہ کسی وزیر مشیر کا غلط کام کیوں برداشت کریں گے خواہ وہ پی ٹی آئی کا اہم ترین رکن ہو یا عمران خان کا دائیں بائیں۔ ان کو پی ٹی آئی میں اور اس کی حکومت میں غلط کام ہوتے خاموش رہنے بھی نہیں چاہیے۔ اگر وہ اپنے لیے ناجائز فائدہ اور غلط کام کی خواہش نہیں رکھتے تو لیڈر کے غلط کام ہوتے دیکھ کر پاکستان کی دیگر جماعتوں کے کارکنوں کی طرح خاموش رہے گے تو اس کام کا حصہ ہوں گے اور اس کار بد میں برابر کے شراکت دار بھی۔ لیکن لگتا ہے پی ٹی آئی کے کارکن آنکھیں بند کر کے فضاء میں ہاتھ نہیں مار رہے بلکہ کھلی آنکھوں سنتے کانوں کے ساتھ سیاست کے میدان عمل میں کھڑے ہیں جہاں گڑھ بڑھ لگی سوشل میڈیا کا ہتھیار چل پڑا۔ تازہ مثال کے پی کے کی ہے، جہاں وزیر اعلی، علی آمین گنڈاپور کی مشیر مشال یوسف زئی اور ان کے محکمے کے سیکرٹری کے لیے نئی گاڑیاں خریدنے کی سمری ابھی تیاری کے مراحل ہی میں تھی کہ پی ٹی آئی کارکنوں نے اڑا کر رکھ دی۔ ایسے نشتر برسائے کی سمری کا کوئی چیتھڑا یہاں گرا کوئی وہاں، حتی کہ شہباز گل اور شاندانہ گلزار جیسے سنئیر کارکنوں نے بھی لب کشائی کر دی کہ نہ خان اس طرح کی عیاشی چاتا ہے اور نہ ہم اس لیے خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سمری کا تو معلوم ہی نہیں کیا ہوا، کہاں گئی نہ سی ایم ہاوس پہنچی نہ فنانس ڈیپارٹمنٹ میں، لیکن بات ابھی ختم نہیں ہوئی، پی ٹی آئی والوں کا مطالبہ ہے کہ یہ سوچ بھی کیوں پیدا ہوئی، لہٰذا خان سے کہا جائے گا کہ اس کی انکوائری ہونا چاہیے کہ مشال کس کی پرچی پر ہے۔ اگر یہ خان کا انتخاب ہے تب بھی فیصلہ غلط ہے ایسے افراد کو ابھی کارکنوں کی صف میں ہی رہنا چاہیے۔ میرا سرکاری محکموں کا خاصا تجربہ ہے۔ جب بیوروکریسی کو اپنے لیے گاڑی خریدنی ہوتی ہے تو، اپنے سربراہ کے لیے بھی تجویز کرتے ہیں تاکہ اس کو رام کیا جا سکے اور سمری جلد منظور ہو جائے۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی رائے مقدم کہ اس معاملے کی انکوائری ہونا چاہیے لیکن پہلے معلوم کرنا ضروری ہے کہ سمری کی تیاری میں مشال کی کتنی مرضی یا ہدایت شامل تھی۔ کیوں کہ مشال نے وضاحتی بیان میں کہا کہ ” سیکرٹری سوشل ویلفیئر، خصوصی تعلیم نے نئی گاڑیوں کی خریداری  سے متعلق سمری ارسال کی، اس سمری میں مشیر وزیراعلیٰ کے لئے بھی نئی گاڑی خریدنے کا ذکر کیا گیا، جس پر میں نے سختی سے منع کیا اور کہا کہ اگر گاڑی کی ضرورت تھی تو نگران حکومت میں خریدنے کی اجازت لیتے، اس حوالے سے واضح احکامات دئیے کہ گاڑی خریدنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور سمری کو واپس کردیا۔ بعض عناصر کی جانب سے مسلسل بے بنیاد منفی پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے جس کا مقصد صرف کردار کشی کرنا ہے” جب کہ صوبائی مشیر مالیات مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ “میں کسی کو چائے کی نئی پیالی نہیں خریدنے دیتا تو یہ کس نئی گاڑی کی بات کر رہے ہیں۔ ان سے کہیں کہ وہ کاغذات دکھا دیں جس میں گاڑی خریدنے کی سمری ہو” ۔ اگر واقعی ایسا ہی ہے تو پھر مثال یوسف زئی کا تو قصور نہیں سمریاں تو تیار ہوتی رہتی ہیں بعض شرف قبولیت پاتی ہیں بعض داخل دفتر، لیکن اصل بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکن ہوشیار اور بے دار ہیں انہوں نے ثابت کیا کہ وہ زبان و کان بند کر کے یہ نہیں دیکھ رہے کہ قیادت جو کر رہی ہے وہی سچ اور درست ہے بلکہ وہ ملک و قوم کی بہتری کے اقدامات کے ساتھ کھڑے اور روایتی سیاسی کاروبار سے دور ہیں۔ وہ اپنی پارٹی اور وزیروں مشیروں کے لیے بھی اسی طرح نقاد اور درد سر ہیں جیسے پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے غلط کاموں کے لیے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکن ہاتھ باند کے نہیں کھڑے جیسے دیگر پارٹیوں کے کارکن ہیں جن پارٹیوں کے سربراہی خاندانوں کے پاس ہے، جنہوں نے ملک لوٹ کر بیرون ملک کھربوں کی جائیدادیں بنا لی لیکن کارکن گلی کوچے میں ان کی حمایت میں بھنگڑے ڈال رہے ہوتے ہیں۔ 17 اپریل میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق کفایت شعاری پالیسی کے تحت پنجاب کے  صوبائی وزیر اقلیتی امور اور پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے پردھان سردار رمیش سنگھ کے لئے تین نئی گاڑیاں خریدی گئی ہیں جن کی مالیت 5 کروڑ روپے ہیں۔ یہ رقم پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے بینک اکاؤنٹ سے تین مختلف ٹرانزیکشنز کے ذریعے نکالی بھی جا چکی۔ ایکسپریس نیوزکے مطابق پہلی ٹرانزیکشن 3 کروڑ 36 لاکھ 99 ہزار روپے دوسری ایک کروڑ 50 لاکھ اور تیسری ٹرانزیکشن جو سردار رمیش سنگھ کے پرائیویٹ سیکریٹری علی سلطان بٹ نے کروائی ہے وہ 2 کروڑ روپے کی ہے۔ یہ رقم ان یاتروں کی دی ہوئی ہے جو سکھوں کے مقدس مقامات اور گردواروں میں عقیدت کے طور پر نذرانے پیش کرتے ہیں۔ اصولی طور پر یہ رقم ان مقدس مقامات کی مرمت دیکھ بھال اور یاتریوں کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لئے خرچ ہونی چاہئے۔ لیکن وزیر صاحب نے پانچ کروڑ ٹھکانے لگا دئے۔ مسلم لیگ کے کارکن یا قیادت کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ یہی صورت حال دیگر پارٹیوں کے کارکنوں کی ہے کہ قیادت جتنی لوٹ مار کرے وہ خاموش ان کی طرف دیکھتے اور خوش ہو رہے ہوتے ہیں جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں غلط کام پر قیادت کو بھی معاف نہیں کرتے۔ بس یہی فرق ہے، جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے نوجوان گمراہ ہو گئے۔ اللہ کرے ملکی خزانے پہ پہرا داری کی یہ گمراہی نوجوانوں میں مستحکم ہو اور دیگر پارٹیوں کے کارکنوں میں بھی سرائیت کر جائے۔