امریکا میں مقیم معروف پاکستانی شاعر اور صحافی راشد نور کے اعزاز میں ”تقریب پذیرائی“

سوموار 4 مارچ 2024ء
امریکا میں مقیم معروف پاکستانی
شاعر اور صحافی
راشد نور کے اعزاز میں ”تقریب پذیرائی“
اہتمام : ادبی کمیٹی کراچی پریس کلب
میری تقریر کا متن یاروں دل داروں کی نذر
”آدھی ناک پر چشمہ“

آج کی تقریب کے دولہا، راشد نور بھائی
مسند نشین، استاد محترم پروفیسر
ڈاکٹر قاسم رضا صدیقی
اجتماع میں موجود میرے احباب،
خواتین و حضرات
السلام علیکم!
بہت مشکل ہوتا ہے کسی ایسے شخص پر بات کرنا، جو آپ کا محبوب دوست بھی ہو، رفیق کار بھی رہا ہو اور مقبول و مستند شاعر بھی ہو۔ راشد نور کے ساتھ میرا کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ راشد نور کی شادی کو لگ بھگ پچیس چھبیس برس ہوئے ہوں گے لیکن ہم نے زندگی کے قیمتی اٹھائیس برس ایک ساتھ، ایک ہی ادارہ نوائے وقت میں گزار دیے۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مجھے نوائے وقت میں بطور مدیر چودہ برس تک خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا تو راشد نور بھائی بھی ہمارے ساتھ ہی تھے۔ نوائے وقت میں ہماری رفاقتیں جنوری 2017ء تک برقرار رہیں کہ جب میں نوائے وقت سے دامن چھڑا کر ’’92 میڈیا گروپ‘‘ چلا گیا۔ آج کی تقریب میں راشد نور کی امریکا ہجرت کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے جبکہ فی الحقیقت میں نے نوے کی دہائی میں ہی راشد نور کے امریکا منتقل ہونے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ اس حوالے سے ایک تاریخی واقعہ آپ کی نذر کرتا ہوں:
نوے کی دہائی کا کوئی سال تھا، میں نوائے وقت کا میگزین ایڈیٹر تھا جبکہ راشد نور بھائی ادبی صفحے کے انچارج تھے۔ کمپیوٹر کا زمانہ شروع ہو چکا تھا لیکن جزوی طور پر دستی کام کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ہم وہیں ’’کاپی پیسٹنگ سیکشن‘‘ میں ساتھ ساتھ کھڑے ہو کر کاپیاں جُڑوایا کرتے تھے۔ ان ہی دنوں راشد نور کا امریکا کا ویزہ لگ گیا تھا اور وہ سفر کی تیاریوں میں تھے۔ ایک روز راشد نور بھائی اور میں برابر کھڑے ہو کر اپنے اپنے صفحات تیار کروا رہے تھے ۔ راشد بھائی کی ایک عادت تھی کہ وہ جب کاپی جڑواتے تو ان کا چشمہ آدھی ناک پر رہتا تھا۔ مجھے اچانک ایک شرارت سوجھی تو میں نے با آواز بلند کہا کہ ”حضرات! میں نے عنوان سوچ لیا ہے“، سب میری طرف متوجہ ہو گئے، راشد نور بھائی بھی میری طرف پلٹے اور استفسار کیا کہ کاہے کا عنوان سوچ لیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ راشد بھائی! آپ کے انتقال پرملال پر میں جو کالم لکھوں گا اس کا عنوان میں نے سوچ لیا ہے، ”آدھی ناک پہ چشمہ“۔ میرے منہ سے لفظ انتقال پرملال نکنے کی دیر تھی، راشد نور بھڑک اٹھے۔ ”یار! یہ کیا بات ہوئی، آپ ہر وقت میرے مرنے مارنے کی بات کرتے رہتے ہیں؟“ راشد نور بھائی زود رنج آدمی ہیں لیکن جلد مان بھی جاتے ہیں۔ میں نے ذرا توقف کیا کہ ان کی جذباتی کیفیت کا کچھ مزہ لوٹ لوں اور وہاں موجود دوسرے ساتھی بھی اچانک پیدا ہونے والی اس صورت حال کا تھوڑا سا چسکا لے لیں۔ جب دیکھا کہ معاملہ طول پکڑ سکتا ہے تو میں نے راشد نور کو کندھے سے پکڑا اور معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی اور کہا:
دیکھیں راشد بھائی! آپ میرے محبوب دوست ہیں، آپ کا یوں اچانک کراچی پاکستان سے امریکا منتقل ہو جانا میرے لیئے بہت ہی پر ملال ہو گا، میں نے تو انتقال پرملال کا لفظ ان معنوں میں استعمال کیا تھا۔ آپ خوامخواہ نالاں پو گئے۔ بھڑکتی آگ پر ایک دم پانی پڑ گیا، میرے جواب پر راشد بھائی ذرا سا جھینپے اور مسکرا دیے تو پوری محفل کشت زعفران میں تبدیل ہوگئی۔

خواتین و حضرات! راشد نور ایک شاعر ہیں، اس میں ان کا کوئی کمال یا کوئی قصور نہیں ہے۔ وہ اس لیے کہ وہ پیدائشی طور پر شاعر ہیں اور شاعری انہیں ترکے میں ملی ہے۔ ان کے والد بزگوار نور بریلوی مرحوم اس عہد کے ایک مستند اور قادرالکلام شاعر تھے۔ روایتی اردو غزل میں ان کی اپنے ہم عصر شعرا میں بڑی دھوم تھی جبکہ حمد و نعت گوئی کے حوالے سے بھی ان کی شہرت پاکستان کی سرحدوں سے پار تک تھی۔ ان کی سب سے بڑی تخلیق تو ان کے صاحبزادے راشد نور ہیں جو ہمارے عہد کے محبوب و مقبول شاعر ہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ برگد کے پیڑ کے نیچے کوئی پودا نہیں پنپتا، لیکن سلام ہے راشد نور کو کہ انہوں نے اپنے والد نور بریلوی کے سائے میں رہ کر بھی شاعری میں اپنے والد سے الگ اپنی پہچان بنائی جو یقیناً قابل ستائش بات ہے۔
خواتین و حضرات! نوے کی دہائی میں جب میں نوائے وقت کا میگزین ایڈیٹر اور راشد نور بھائی ادبی صفحہ کے انچارج تھے تو پاکستان کے معاصر اخبار یکے بعد دیگرے اپنے ادبی صفحے بند کرتے چلے جا رہے تھے جس سے ملک کے ادیبوں اور شاعروں میں ایک مایوسی سی پھیلی ہوئی تھی، راشد نور بھی اپنے ” ادبی صفحہ “ کے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار رہتے تھے تو ایک دن میں نے ان سے کہا کہ راشد نور بھائی! آپ مایوس نہ ہوں، میں جب نوائے وقت کا مدیر بنوں گا تو ان شاللہ تعالیٰ میں نوائے وقت کا ادبی صفحہ کسی صورت میں بند نہیں ہونے دوں گا۔ راشد نور اس بات کے گواہ ہیں کہ اللہ کے فضل و کرم سے میں جب اگست 2005ء میں نوائے وقت کا مدیر ہو گیا تو نہ صرف ادبی صفحہ بہر صورت جاری رکھنے کا اعلان کیا بلکہ پہلے ہی روز ہدایت جاری کہ آج سے ادیبوں اور شاعروں کی خبریں اور سرگرمیاں اخبار میں سٹی پر لگنے کی بجائے، صفحہ اول یا پچھلے صفحہ کی زینت بنا کریں گی۔
میرا اس شہر کی ادبی، شعری تنظیموں اور ادب کے ٹھیکیداروں سے بہت بڑا شکوہ کے کہ وہ شعوری لاشعوری طور پر راشد نور کو ”نظامت کاری “ کے دائرے میں محدود کر نے کی کوششوں کا حصہ رہے ہیں۔ بہت سے لوگ ابھرتے ہوئے شاعروں کو کسی اور ترغیب اور تحریص میں دھکیل کر ہمیں ایک اچھے شاعر سے محروم کر دیتے ہیں لیکن راشد نور کے معاملے میں ایسی کوئی کوشش اور سازش کامیاب نہیں ہو سکی۔ عام طور پر کئی بڑے بڑے ادیب اور شاعر نظامت کاری کے سحر میں کھو کر اپنے اصلی جوہر کی دریافت سے محروم رہے لیکن میں راشد نور کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ وہ ایک کامیاب نظامت کار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے شاعر ہونے کے وصف سے کبھی لاتعلق نہیں ہوئے اور وہ آج ایک نمایاں شاعر کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہیں۔
خواتین و حضرات! استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی کی موجودگی، ڈاکٹر رخسانہ نورکی شایان شان تحریر، معروف افسانہ نگار اخلاق احمد ، خوب صورت شعرا خالد معین اور جاوید صبا کی گفتگو کے بعد میرے لیے راشد نور کی شاعری کے فنی محاسن پر بات کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک ایسے ملک میں کہ جہاں عوام آزادی کے باوجود پچھلے پچھتر برس سے ”مجلس شام غریباں “ میں ہیں، راشد نور بھائی جیسے قلم کاروں کا وجود غنیمت ہے۔ راشد نور گلشن میں چہکتی اس بلبل کی مانند ہے کہ جو خزاں رتوں میں نوحے اور بہار موسم میں خوشی کی نغمے گاتی رہتی ہے۔ راشد نور کے یہ دو شعر میرے اس خیال کی دلیل میں کافی ہیں، جو وطن عزیز میں پھیلی غیر یقینی کی تفسیر سے کسی طور کم نہیں ہیں، میں یہ دو شعر آپ کی نذر کر کے اپنی جگہ لیتا ہوں۔
چڑیوں کی چہکار میں شامل کیسی آہ و زاری ہے
سوکھی شاخیں پیلے پتے موسم کی نجکاری ہے
بے بسی کی ہیں پکاریں سسکیوں کے درمیاں
زندگی بکھری پڑی ہے ہچکیوں کے درمیاں
(راشد نور کے اعزاز میں منعقدہ اس تقریب سے صدر مجلس پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، اخلاق احمد، خالد معین، جاوید صبا، عنبرین حسیب عنبر نے راشد نور کی شخصیت اور فن پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جبکہ ڈاکٹر رخسانہ نور نے راشد نور پر سیر حاصل مقالہ پیش کیا اور معروف شاعر اور کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے سربراہ اے ایچ خانزادہ نے مہمانوں کی آمد اور تقریب کو کامیاب بنانے پر ہدیہ تشکر پیش کیا۔ تقریب کی نظامت حنا امبرین طارق نے کی۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ راشد نور کا مجموعہ کلام ”لمحہ موجود“ چھپنے کی تیاریوں میں ہے جس پر اختر سعید ی دن رات کام کررہے ہیں۔ تقریب میں راشد نور کی اہلیہ ، صاحبزادی،رضوان احمد صدیقی، سمیع گوہر، شکیل خان، ڈاکڑ نثار احمد نثار، شمع زیدی، حسن امام صدیقی، توقیر چغتائی، قمر رضوی، طاہر حبیب، ستار جاوید، محمود احمد، نصیر احمد ، خورشید عباسی، اقبال سواتی سمیت صحافیوں، ادیبوں اور شعرا کی بڑی تعداد شریک تھی۔)